پاکستان کا موجودہ سیاسی اتار چڑھاؤ

Published on December 30, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 362)      No Comments

قسط نمبر دو
تحریر :۔ شفقت اللہ
پاناما پیپرز جو کہ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی طرف سے غلطی سے لیک ہو جاتے ہیں تو ایک نیا پہاڑ میاں صاحب کے سر پر ٹوٹتا ہے کہ جب پاناما پیپرز کی زد میں دو ملکو ں کے وزرائے اعظم مستعفی ہو گئے لیکن میاں صاحب اس سے بھی بھاگ نکلنے کی کوشش میں مصرو ف ہو جاتے ہیں اس دورانیے میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک پھر سے متحرک ہوتی ہے اور پاناما سکینڈل پر ایک جماعت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے تو دوسری قصاص کا !اور دونوں پارٹیوں کے سربراہان ملک واپس لوٹ آتے ہیں چونکہ اسی احتساب کی جنگ میں پیپلز پارٹی پہلے ہی پھنس چکی ہوتی ہے اور اب ن لیگ کی باری آتی ہے تو پیپلز پارٹی کو موقع مل جاتا ہے جس سے آصف علی زرادری کو ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کی جان بخشی کی امیدیں واضح ہونے لگتی ہیں کہ وہ بھی اب میاں صاحب کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنے لگتے ہیں جیسے انہوں نے ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کیس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ کیا لیکن حقیقت میں پیپلز پارٹی کو ایک نیا موقع ہاتھ آیا تھا تو انہوں نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو بھرپور وقت دیا کہ کسی طور طے ہو جائے او ر ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کی جان بخشی ہو سکے لیکن افسوس کہ میاں صاحب کی قسمت خراب کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں ہوتا اس طرح سے ٹی او آر کے جھنجٹ اور کمیشن کے جھنجٹ میں ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے کیونکہ اپوزیشن اور حکومتی جماعتو ں کے مابین ٹی او آر طے ہی نہیں پاتے اسی دورانیے میں سننے کو ملتا ہے کہ انڈیا پھر سے پانی چھوڑ رہا ہے اور پاکستان میں سیلاب کا خدشہ ہے عوام کو ایسی باتوں میں الجھا کر پاناما پیپرز سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جانے لگی پنجا ب میں یہ سیاسی دنگل چل رہا ہوتا ہے تو کراچی میں ایم کیو ایم پر کڑا وقت آ جاتا ہے مائنس الطاف فارمولے پر عملدر آمد شروع ہو جاتا ہے کہ جب کراچی میں آئے روز ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات اور عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کے بیانات کی مدد سے ایم کیو ایم کے بڑے بڑے سورما ؤ ں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان سے پوچھ تاچھ شروع کر دی جاتی ہے سب سے بڑا طمانچہ ایم کیو ایم کے منہ پر اس وقت لگتا ہے کہ وہ کارکنوں کی ان گرفتاریوں کے خلاف کراچی میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلا ن کرتے ہیں لیکن کسی بھی تاجر برادری یا عام آدمی کے کان پر اس اعلان کی جونک تک نہیں رینگتی اور عسکری قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو عملی طور پر انکار کر کے دکھاتے ہیں اس وقت ایم کیو ایم کی حالت شکنجے میں پھنسی اس پھڑ پھڑاتی ہوئی چڑیا کی مانند ہو جاتی ہے جو بس کچھ نہیں کر پاتی اور ڈاکٹر فاروق ستار بار بار چیخ و پکار کرتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ مائنس الطاف فارمولا ہے لیکن اس کی کوئی نہیں سنتا ۔جب لندن میں بیٹھے ایم کیو ایم کے رہنما ء مصطفی کمال اور انیس قائم خانی پاکستان میں اپنی جماعت کو اس طرح پٹتے دیکھتے ہیں تووہ وعدہ معاف گواہ کا چہرہ بدل کر وطن واپس لوٹ آتے ہیں اور آتے ہی میڈیا اور عوام میں ذوالفقار مرزا کے جیسے اداکاری کر کے خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرتے ہیں پاک سر زمین پارٹی کا وجود عمل میں آتا ہے اور سب سے بڑی مزے کی بات یہ کہ اس پارٹی میں بھی وہی چہرے سامنے آتے ہیں جو آپ ایم کیو ایم میں دیکھ چکے ہوتے ہیں یعنی ایک قسم کی تبدیلی ایم کیو ایم کے اپنے اندر ہی آتی ہے کہ جیسے یہ لوگ پاک صاف اور دودھ کے دھلے ہیں یہ پی ایس پی میں چلے جائیں اور یہ لوگ جو تھوڑے بہت کرپٹ ہیں بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلر ہیں وہ ایم کیو ایم میں ہی رہ جائیں لیکن برے لوگ آخر برے ہی ہوتے ہیں یہی وجہ ہوتی ہے کہ کبھی بھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ الطاف حسین کی وہ تقریر بنتی ہے جس میں وہ سر عام پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور انڈیا کو پاکستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے پاکستانی عوام کے جذبات کو مجروح کرتا ہے جسکی وجہ سے ڈاکٹر عبدالستار کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو خیر باد کہہ دے پر آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے والی کہانی! کیونکہ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے بغیر اکیلے ہو جاتے اور ان کیلئے گھیرا تنگ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اسی لئے انہوں نے ایک انتہائی اہم اور سمجھ داری کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے ایم کیو ایم لندن اور پاکستان دو الگ الگ جماعتیں ہیں جو کہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا لیکن فاروق ستا ر کی اس پالیسی پر بھی الطاف حسین نے ان کی بہت زیادہ سرزنش کی لیکن بعد میں انہیں سمجھ آ گئی کہ فاروق ستار کا یہ اقدام درست تھا ۔دوسری جانب پاناما پیپرز سکینڈل زور پکڑ چکا ہوتا ہے جس میں مولانا فضل الرحمٰن کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ کردار کچھ اور نہیں بلکہ آصف علی زرداری اور میا ں صاحب کے درمیان ملاقات طے کروانے کا تھا جسکے لئے فضل الرحمٰن دو مرتبہ دبئی تشریف لے جاتے ہیں ایک دفعہ تو میاں صاحب کے ہمراہ تشریف لے جاتے ہیں اور ملاقات ہو نے کے بھی 95 فیصد مواقع موجود ہوتے ہیں لیکن آصف علی زرداری ملاقات نہیں کرتے کیونکہ انہیں کہیں سے بھی گرین سگنل نہیں مل رہا ہوتا جبکہ انہی دنوں میں آصف علی زرداری پاناما کے بارے میں تین دفعہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں پاناما میں ان کا کوئی ہاتھ تو نہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آ تا جو آصف علی زرداری کیلئے مایوس کن ہوتا ہے کیونکہ عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کی جان بخشی بھی نہیں ہو پا رہی ہوتی ہاں البتہ ایان علی ضرور منی لانڈرنگ کیس سے با عزت بری ہو جاتی ہے جن کی سفارش اسحاق ڈار کرتے ہیں کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے یعنی جہاں تک ن لیگ کر سکتی تھی اس نے اپنی جانب سے آخر حد تک اچھا کرنے کی کوشش کی یہی وجہ تھی کہ ن لیگ پر پیپلز پارٹی نے ذرا نرمی کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت کی بقاء کی آڑ میں ن لیگ کو وقت دیا ۔وہاں سندھ میں سیاسی اور سماجی حلقے سوتیلے پن اور بدلے کی سیاست کا رونا پیٹتے نظر آتے ہیں کہ جب ان کی جانب سے با رہا اس بات پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد نہیں ہو رہا اسی اثناء میں پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں چھوٹو گینگ متحرک ہوتاہے اور قبل ازیں کمسن بچے اغواء ہونے کا معمہ درپیش ہوتا ہے جس سے عوام کو یہ پیغام ملتا ہے کہ خبر دار جو اپنے بچوں کو باہر نکلنے دیا ،سکول جانے دیا ،کسی ریلی یا دھرنے میں بھیجا تو وہ اغواء کر لئے جائیں گے کیونکہ اس کیس پر اچانک لاہور ہائی کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد یہ معمہ دب جاتا ہے اور اس کا کیا ہو ا سینکڑوں بچے جو اغواء ہوئے تھے وہ ملے یا نہیں کہیں مار تو نہیں دئیے گئے اور سب سے اہم کردار میڈیا نے ادا کیا کہ ٹی وی چینلز پر لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ان کے بچوں کو کاٹ کر ان کے اعضا ء بیچ دیئے گئے ہیں اور حکومت نے اس گروہ کو پکڑ لیا ہے اور یہ معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔
جاری ہے

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题