ضرورت پڑنے پر نوازشریف کو طلب کریں گے سپریم کورٹ ، پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی

Published on January 24, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 411)      No Comments

Pnn

اسلام آباد (یواین پی) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کل(بدھ) تک ملتوی کردی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کے دلائل سن کر پاناما کیس کی مزید سماعت کل(بدھ) تک ملتوی کر دی۔عدالت نے جماعت اسلامی کے وکیل سے سخت سوالات کیے اور انکے دلائل پر اعتراضات بھی لگائے ۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کو عدالت بلانے کی درخواست کی جس پر عدالت نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو طلب کریںگے ورنہ نہیں۔جماعت اسلامی کے معاون وکیل احسن الدین نے موقف پیش کیا کہ تمام ثبوت آگئے ہیں اب عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔اس پرعدالت نے پوچھاسارے ثبوت کون سے ہیں ، انہیں ثبوت نہیں میٹریل کہہ سکتے ہیں ، قانون شہادت کے تحت مواد پرکھ کرمعلوم ہوکہ اسکابڑاحصہ فارغ ہے توپھرکیاہوگا۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ شک ہے دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے؟توفیق آصف نے کہا کہ نوازشریف کوعدالت بلا کر الزامات کا جواب طلب کیا جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے آغاز میں بتایا کہ نوازشریف ظفر علی شاہ کیس میں فریق تھے اور میں نے جو کہا اس پر قائم ہوں جس پر بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں خالد انور نوازشریف کے وکیل نہیں تھے ۔ وکیل نے بتایا کہ میں خالد انور کے عدالت میں دیے گئے دلائل بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ میں ثابت کرونگا کہ خالد انور نوازشریف کی وکالت کرتے رہے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے کی فائنڈنگ بتائیں ،وکیل کی کیا استدعا تھی یہ نہیں ۔توفیق آصف نے جواب دیا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نوازشریف کو فریق بنایا گیا تھا اور اس پر عدالت نے اعتراض کیا تھا مگر بات درست تھی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا آپ کی درخواست میں بھی لکھا گیا تھا کہ خالد انور وکیل تھے ۔دیکھنا ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی درخواست میں غلط بیانی تو نہیں کی ۔ اس عدالت میں غلطی کی گنجائش نہیں فیصلے میں دیکھ لیں گے ۔عدالت نے فیصلے میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا ، مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے ۔آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں ۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے جوا ب دیا کہ ”ظفر علی شاہ کے فیصلے کو پڑھوں گا “۔فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے ۔ مجھے پیرا گراف 127پڑھنے کی اجاز ت دیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں ۔ فیصلے میں کہا گیا ایک آدمی کی حکومت تھی اور پھر مشرف کی جمہوریت آگئی تھی جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو اس عدالت نے قوم پر بڑا احسان کیا ہے تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے ۔ آپ نے فائل دیکھی نہ فیصلہ پڑھا، وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا ۔ توفیق آصف نے موقف اپنایا کہ خالد انور ظفر علی شاہ کے وکیل تھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ نے بلکل مذاق بنا لیا ہے کچھ تو پڑھ لیا ہوتا جس پر وکیل توفیق آصف نے جواب دیا کہ 5منٹ دیں درستگی کرتا ہوں ۔ بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ پڑھیں جو آپ کا دل کرتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ فیصلے میں کہا گیا کہ نوازشریف گڈ گورننس میں ناکام ہوئے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ خالد انور نوازشریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ایڈوکیٹ توفیق آصف سے کہا کہ آپ قانون کے بنیاد اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ خالد انور نے نوازشریف کا دفاع کیا جس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ خالد انور کے پاس نوازشریف کا وکالت نامہ نہیں تھا ۔ وکیل نے جواب میں کہا کہ لندن فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھے گئے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ”جج صاحب نے ہلکی پھلکے اندا میں بات کی تھی جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب میں کہا کہ ہلکی پھلکی بات کا مجھے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ فیصلے میں لکھیں گے کہ بات ہلکی تھی یا بھاری ۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ لگتا ہے آج مجھے عدالت سننا ہی نہیں چاہتی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو 11سال تک دلائل دیں لیکن اپنی بات دہرائیں نہیں ۔ وقفے سے قبل جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے اور جیسے ہی وقفہ ختم ہوا طارق اسد ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ انکی درخواست الگ بینچ میں منتقل کی جائے ۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملے پر کمیشن بنانے کی درخواستوں و یکجا کر کے ایک ساتھ سماعت کیلئے الگ بینچ مقررکیا جائے جس پر عدالت نے معاملے پر کمیشن بنانے کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کیلئے الگ بینچ مقرر کرنے کا فیصلہ سنا دیا جبکہ کمیشن بنانے کی پہلی درخواست اور درخواست گزار کی درخواستوں کو یکجا کر دیا گیا ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانامام لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستیں الگ کر نے کا حکم سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درخواستیں مختلف نوعیت کی ہیں انہیں الگ سنا جائے گا تاہم کمیشن بنانے کی 2درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔ اس کے بعد مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موکلہ کا تحریری بیان سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ یہ دستاویز بغیر دستخط کیسے جمع کروا رہے ہیں ؟ وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ اپنے موکل کی جانب سے مکمل ذمے داری کیساتھ بیان جمع کر ا رہا ہوں ، دستاویز پر مریم نواز کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے انہیں مسترد کر دیا ۔ ان دستاویز میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی کے حاضر سروس کیپٹن صفدر سے 1992ءمیں شادی ہوئی اور بعد ازاں میرے شوہر نے سول سروسز جوائن کی اور 1986ءسے ٹیکس ادا کر رہے ہیں ۔ 2000ءمیں والدین کے ساتھ سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا ۔
دستاویز میں مریم نواز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہمارے 3بچے ہیں جن میں ایک بیٹا اور 2بیٹیاں ہیں جبکہ میرا بیٹا درہام یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے ۔ہم شمیم ایگریکلچر فارمز رائے ونڈ روڈ میں موجود 5میں سے ایک گھر میں رہتے ہیں ، رائے ونڈ کے تمام گھر میری دادی شمیم اختر کے ہیں ۔
مریم نواز نے اپنی دستاویز میںمزید کہا ہے کہ 2000ءمیں ہمیں جلا وطن کیا گیا اور میں والد ین کے ہمرا ہ سعودی عرب چلی گئی ۔میرے شوہر بھی میرے ہمراہ تھے ، میرے والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔2007ءمیں جلا وطنی ختم کر کے واپس آئے اور شمیم ایگریکلچر فارم میں رہائش کی ۔ میرے شوہر 2008ءاور 2013ءمیں ایم این اے منتخب ہوئے ۔ شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹ ملازم آتی رہی جسکی تفصیلات عدالت کو فراہم کر دیں ۔ میرے والد نے مجھے بھی قیمتی تحائف دیے وہ شفقت کے تحت دیے گئے ۔مجھے دیے گئے تحفوں میں میری والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔1992ءکے بعد سے میں کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy