اگر زنجیر ٹوٹی نہ ہوئی توہم تمام کڑیوں کو جوڑ لیں گے سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

Published on January 25, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 354)      No Comments

Panama

اسلام آباد ( یواین پی )سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کی مزید سماعت کل (جمعرات ) تک ملتوی کردی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما کیس کو سننے والے 5رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9بجے تک ملتوی کردی ۔ کل بھی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
سماعت کا آغاز ہواتو مریم نوازکے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز کی جانب سے جواب داخل کرو ا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں کیونکہ مریم نواز نے مجھے مجاز ٹھہرایا ہے ۔ بینچ کے رکن جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا ؟ شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں ہے ۔ عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ممکن ہے کہ وراثتی جائیداد تقسیم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جا سکے ۔”کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دو روز میں اس سے متعلق آگاہ کیا جا سکے “؟
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے کاغذات نامزدگی میں کہا ہے کہ وہ والدہ کے گھر میں رہتے ہیںجس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ کپٹن صفدر نے 2011ءمیں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا ، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا ؟جس پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ ، اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے تو اسے 28ہزار جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔2011ءسے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوئی تھی ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے ۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے ، کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کیساتھ مریم نواز کے گوشوارے کف کیے تھے ۔ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کیساتھ مریم نواز کے گوشوارتے لگائے جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کیپٹن صفدر کی نااہلی مانگی گئی ہے ۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آ ر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے شاہد حامد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن صفدر کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواہے ۔الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے ۔ بتایا جائے اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے ؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کیلئے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواءہے ۔عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ بااختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں؟دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں ۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ وزیر اعظم ہو یا عام شہری قانون سب کیلئے برابر ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وزیرا عظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کیلئے کیا طریقہ کار ہے ؟ شاہد حامد نے بتایا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کیلئے کووارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے ؟ تو شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں ۔
پاناما کیس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کیا اس بنیاد پر کارروائی نہ کریں کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التواءہے ؟ فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں ؟یوسف رضا گیلانی کیخلاف ریفرنس سپیکر نے مسترد کیا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا ۔ جسٹس عظمت سعیدشیخ نے شاہد حامد سے پوچھا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کا کیس کس ہائیکورٹ میں زیر التواءہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپیکر کے فیصلے کیخلاف اپیل لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواءہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، ریفرنس اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ ایک الزام پر ریفرنس دیگر فورم پر موجود ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ ہماری تشویش ہے کہ دادرسی کیلئے فورم قانون کے تحت موجود ہیں ۔ اس کیس کا کیسے جائزہ لیں جس کیلئے دوسرے فورم موجود ہیں ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمار کس دیے کہ آرٹیکل 63کے تحت سپیکر سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ریفرنس خارج ہونے پر کیا دوسرا شخص بھی سپیکر کے پاس داد رسی کیلئے جائے ؟ پھر دادرسی کیلئے سپریم کورٹ ہائیکورٹ سے براہ راست رجوع کر سکتے ہیں ؟ عدالت درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے ۔آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ بڑا اعتراض صرف عدالتی دائرہ اختیار پر ہے ۔قابل سماعت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔” میری موکلہ کا موقف ہے کہ میری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں “۔ موکلہ کے مطابق ان کے بھائی کا بھی یہی موقف ہے کہ لندن فلیٹس اس کے نام ہیں ۔موکلہ کا کہنا ہے کہ درخواست گزارکا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی میں مالک ہوں ۔موکلہ کو والد کے زیر کفالت بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔ مریم نواز عام شہری ہیں ،یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہے ؟ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ وزیرا عظم نوازشریف کی حدتک معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ مریم نواز کیخلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا ۔اگر فرض کر لیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا ہے تو بینچ کے رکن جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ عدالت متنازع حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے ۔ مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ میری موکلہ اپنے دالد کے زیر کفالت نہیں ۔اگر زیر کفالت نہیں تو لندن فلیٹس مریم نوا ز کے ہوں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ الزام ہے مریم نوازاپنے والد کی فرنٹ مین ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے ، بار ثبوت شکایت کندگان پر ہے ۔کیس کے حوالے سے آئے روز باہر ہونیوالے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے کاغذات کو لہرا کر کہا جاتا ہے کہ نئی دستاویزات سامنے آگئی ہیں ۔ پریس کانفرنسوں میں کہا جاتا ہے کہ کیس ختم ہو گیا ہے ، عدالت کے باہر میڈیا پر جو ماحول بنا ہوا ہے وہ حیران کن ہے ، عدالت کے باہر سیاسی لڑائی ہو رہی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں سیاسی اختلاف ہو سکتے ہیں ۔ شاہد حامد نے کہا میں سیاسی لڑائی سے متعلق اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین نے پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا ۔ ضمنی جواب میں قطری خط کاذکر کیا گیا ۔ 5نومبر کے تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری خط کا ذکر کیا گیا ، 7نومبر کو داخل تحریری جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں تھا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ 2004کی ای میل میں مریم نے نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونر ہونا تسلیم کیا اور یہ دستاویز سب واضح کرتی ہے ۔ کیا مریم نواز کے اصلی دستخط اس دستاویز میں کیے گئے دستخطوں سے میچ کر سکتے ہیں ، دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے ، مریم نواز کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا گیا اس پر ان کے جھوٹے دستخط ہیں ۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ منروا کمپنی اگر 2006ءمیں ہائر کی تو عدالت میں 2011ءکی دستاویز ات کیوں دیں؟منروا کمپنی کا خالی فارم ویب سائٹ سے مل جاتا ہے ۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پاناما جا کر مریم نواز کی دستخطوں والی دستاویز نہیں دیکھی جا سکتی ، یہ دستاویز عالمی صحافتی کنسورشیم کی ہے ۔ مریم نواز کی ذاتی معلومات کے فارم پر بھی دستخط موجود ہیں ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بطاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہا ہے ۔ بینچ کے رکن جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہیں ، دستخط کے معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ حسین نواز این ٹی این ہولڈرنہیں ۔آپ کے تحریری جواب میں یکسانیت نہیں ۔ مریم نواز نے تحریری بیان میں خود کو نیسکول کی ٹرسٹی تک کیوں محدود رکھا ؟ جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ تحریری جواب کے مطابق مریم نواز صرف نیسکول کی ٹرسٹی ہیں ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ اگر یہ دستاویز 2012ءکی ہیں تو اس مقدمے سے اس کا کیا تعلق ہے ؟مریم نوا زکے وکیل نے جواب دیا کہ یہ نہیں بتایا کہ وہ نیسکول یا نیلسن کمپنی کی مالک ہیں ، یہ ت کہہ دیا مریم نواز بینیفشل مالک ہیں ۔ کسی نے میرا پرسنل اکاﺅنٹ بھی ہیک کرنے کی کوشش کی ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سامبا بینک سے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو کیوں خط لکھا ؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ منروا سروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کے معاملے پر سامبا بینک نے خط لکھا ۔ حسین نواز کے ورثا کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کیلئے مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا ۔ اثاثوں کی تقسیم کیلئے حسین نواز نے ٹرسٹی بنایا ۔ حسین نواز کی دونوں بیویاں الگ ملکوں کی شہریت رکھتی ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم کو اپنے ٹرسٹی ہونے کا علم نہیں تھا ؟ مریم نواز نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرسٹی ہونے کا کیوں نہیں بتایا ؟عدالت میں اینکر پرسن کے پروگرام کا حوالہ دیا گیا ۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر نے کہا کہ والد کے ساتھ رہتی ہوں ،لندن میں کوئی جائیداد نہیں ۔عدالت میں نجی ٹی وی کے انٹرویو کا متن بھی پڑھا گیا ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وہ اپنے والد کیساتھ کب رہتی تھیں بلکہ وہ تو اپنی دادی کیساتھ رہتی تھیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز انٹرویو میں کہتی ہیں کہ وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ یاد پڑتا ہے مریم نے کہا مجھے نہیں پتہ میری اور گھر والوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ۔ہو سکتا ہے کہ شکایت کندہ کا ٹرانسکرپٹ درست نہ ہو ۔ ہمارے لیے ٹرانسکرپٹ بڑا اہم ہے ۔ اگر مریم نواز کے انٹرویو کے ٹرانسکرپٹ میں فرق ہے تو ہمیں بھی فراہم کر دیں ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ جائیداد اور گھر کیا الگ الگ چیزیں ہیں، تاثر ملتا ہے کارروائی کیساتھ جوابات میں بھی بہتری لائی جا رہی ہے ۔مریم نوا زکے وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ مریم کا بیرون ملک اپنا کوئی گھر نہیں اور مریم نواز کا بیان بلکل درست ہے ۔ مریم نواز نے انٹرویو میں کہا ان کی اپنی بیرون ملک جائیداد نہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز نے 2012ءکے انٹرویو میں کہا ہمار ا کوئی اثاثہ باہر نہیں ۔معاملہ ایمانداری کا ہے اورہم سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ سچ کیا ہے ۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ تحقیقاتی ادارے کے پوچھنے پر مریم نواز کو کمپنیوں کا بینیفشل مالک بنایا گیا ۔موزیک فونسیکا کے پاس مریم کی معلومات تھی تو منروا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ میرا دعویٰ ہے کہ دستاویز پر دستخط جعلی ہیں ۔ آف شور کمپنیوں کے اصل مالک حسین نواز ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ مریم نواز اپنے والد کیساتھ کب رہتی تھیں ؟ مریم نواز تو اپنی دادی کیساتھ رہتی تھیں ۔ سامبا بینک نے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو کیوں خط لکھا ؟شاہد حامد نے جواب دیا کہ منروا سروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کے معاملے پر سامبا بینک نے خط لکھا ۔ حسین نواز کے ورثا کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کیلئے مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا ۔ حسین نواز کی 2شادیاں اور 7بچے ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ مریم نواز نے کہا کہ میری پاکستان میں بھی جائیداد نہیں تو شاہد حامد نے کہا کہ زرعی آمدن پر مریم نواز باقاعدگی سے ٹیکس دیتی ہیں ۔مریم نواز کی پاکستان میں جائیداد ہے ۔ اثاثوں کی تقسیم کیلئے حسین نواز نے ٹرسٹ بنایا جبکہ حسین نوا ز کی دونوں بیویاں الگ ممالک کی شہریت رکھتی ہیں ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جائیداد سے متعلق بہتر معلومات شریف خاندان کے پاس ہیں ۔انہوں نے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جائیداد آپ کی ہے تو آپ کو پتہ ہونا چاہئیے ۔”آپ ٹرسٹی ہیں آپ کو اثاثوں کا علم ہونا چاہئیے“۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اگر زنجیر ٹوٹی نہ ہوئی توہم تمام کڑیوں کو جوڑ لیں گے ، آپ کہہ رہے ہیں کہ دوسری جانب سے جعلی دستاویزات دی گئیں ۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا ۔ پی ٹی آئی کو اپنی دستاویزات کی پہلے تصدیق کرانی چاہئیے ۔یہ نہیں کہا کہ مخالف فریق نے جعل سازی کی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اس اختلاف کے نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کریں ۔ ایشو یہ ہے کہ مریم نواز بنیفشل مالک ہیں یا نہیں ؟ تحریک انصاف مریم کو بینیفشل مالک کہتی ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا امید کرتے ہیں کہ تصدیق کیلئے پاناما جائیں ؟

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy