لاہوریوں کی بسنت کا دشمن کون۔۔؟ یونی ویژن نیوزپاکستان’’یواین پی‘‘ کی خصوصی رپورٹ

Published on February 8, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 404)      No Comments

13
بنیادی طور پر بسنت پر پابندی کی وجہ ضرورت سے زیادہ اس تہوار کو ملنے والی پزیرائی
اور امرا کی اس تہوار میں بڑھ چڑھ کر شمولیت تھی جس کی وجہ سے پتنگ اڑانے کا تہوار، ہوائی فائرنگ،
شورشرابا اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کیلئے کیمیکل لگی موٹی ڈور کی نظر ہوگیا،
ویسے تو ہر سال بسنت سے پہلے بے تحاشہ سفارشات دی جاتی ہیں تاکہ بسنت پر پابندی اٹھائی جاسکے، لیکن اگر حکومت بسنت واقعی ہی منانا چاہتی ہے تو چند مشکل فیصلے لیکر اس صدیوں پرانے تہوار کو دوبارہ سے شروع کرسکتی ہے،
اگر حکومت چاہے تو مناسب ڈور کی فروخت کو یقینی بناتے ہوئے موٹی ڈور پر پابندی لگا سکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت خود یوٹیلیٹی اسٹورز، ڈاک گھروں اور دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے ڈور فروخت کرسکتی ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر حکومت دہشتگردی کے پیش نظر ڈبل سواری پر پابندی لگا سکتی ہے تو دو دنوں کیلئے موٹر سائیکل پر بھی پابندی لگا دے اور بذریعہ پولیس یقینی بنائے کہ کوئی موٹرسائیکل سڑکوں پر خاص طور پر کھلی سڑکوں پر نہ آئے،ان تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے بعد ہی بسنت کی اجازت ہونی چاہیئے،
کیونکہ ہر انسانی جان قیمتی ہے، جس کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
لاہور(یو این پی)ایک وقت تھا جب لاہور کی بسنت، پوری دنیا میں مشہور تھی۔ امریکہ، کینیڈا سمیت برطانیہ میں مقیم ناصرف پاکستانی بلکہ گورے بھی بسنت منانے لاہور آتے تھے۔پھر 2007 میں پرویزمشرف کی حکومت نے بسنت پر پابندی لگادی اور آج تک لاہوری اپنے اس تہوار کو منانے سے قاصر ہیں۔بنیادی طور پر بسنت پر پابندی کی وجہ ضرورت سے زیادہ اس تہوار کو ملنے والی پزیرائی اور امرا کی اس تہوار میں بڑھ چڑھ کر شمولیت تھی جس کی وجہ سے پتنگ اڑانے کا تہوار، ہوائی فائرنگ، شورشرابا اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کیلئے کیمیکل لگی موٹی ڈور کی نظر ہوگیا۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ایک بھی انسانی جان کا ضیاع، کسی صورت قابل قبول نہیں۔ لیکن انسانی جانوں کو محفوظ بناتے ہوئے اس تہوار کو اگر محفوظ بنایا جائے تو اسے منانے کی اجازت ہونی چاہیئے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان دس سالوں میں کسی بھی حکومت کی طرف سے اس تہوار کو محفوط بنانے کیلئے اقدامات نہیں کئیگئے۔ ہر سال فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی پنجاب کی صوبائی حکومت کمیٹیاں بناتی ہے، حفاظتی انتظامات کیلئے لائحہ عمل بنایا جاتا ہے مگر پھر بھی بسنت نہیں ہوتی۔اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو 2007 سے پہلے منائی جانیوالی بسنتوں پر بھی ہلاکتیں ہوتی تھیں۔ جن کی وجہ کرنٹ لگنا، چھت سے گرنا یا پھر ہوائی فائرنگ ہوتی تھی۔ لیکن ڈور پھرنے سے ہلاکتوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مشرف دور کے شروع ہوتے ہی پاکستان میں ناصرف میڈیا نے ترقی کی۔ بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیز بھی پاکستان میں آئیں۔ جن کے ہاتھوں صدیوں سے منایا جانیوالا بسنت کا تہوار اغوا ہوگیا اور اس تہوار کیذریعے پیسہ کمایاجانیلگا۔بسنت کا تہوار کمرشل ہونے کی وجہ سے غریب لاہوری کے تہوار میں امیر لاہوری کود پڑے۔ امیروں نے اپنی اونچی شان اور ناک کو بچانے کیلئے ایسی ڈوروں کا استعمال شروع کردیا۔ جوکہ ناصرف موٹی تھیں بلکہ ڈور پر لگائے جانے والے مانجے میں ایسے کیمیکلز استعمال کئے جانے لگے جس سے پیچ لڑوانے والے کی ڈور باآسانی کاٹی جاسکے۔ لیکن یہی کیمیکل ملی موٹی ڈور معصوم لاہوریوں کیلئے وبال جان بھی بن گئی۔امیروں کی استعمال کردہ ڈوریں موٹی ہونے کی وجہ سے ٹوٹتی نہیں تھی اور مانجے میں شیشے کے ساتھ کیمیکل کی مکسنگ کی وجہ سے ڈور تلوار کی دھار کی مانند تیز ہوتی۔پھر بازار میں باآسانی کیمیکل والی موٹی ڈور کی دستیابی عام ہوگئی اور یوں ہر لاہوری نے اپنی پتنگ کیلئے ایسی ڈوریں لینا شروع کردیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سال قبل اس تہوار پر پابندی لگ گئی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس پتنگ کو کٹنے سے روکنے کیلئے کیمیکل والی موٹی ڈور استعمال کی جاتی ہے،اسی پتنگ کے کٹ جانے کے بعد واپس کھینچی جانے والی ڈور واپسی کے راستے پر راہ چلتے یا موٹر سائیکل والوں کے گلے میں پھنستی ہے۔ چونکہ ڈور موٹی ہوتی ہے،اس لئے آسانی سے ٹوٹتی نہیں اور مانجے میں کیمیکل ملا ہونے کی وجہ سے انتہائی کاٹ دار ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ گلا کٹنے کی صورت میں نکلتا ہے۔اس کے علاوہ بسنت کے کمرشل ہوجانے کی وجہ سے عام استعمال کے سائز کی پتنگوں کی جگہ بڑے سائز کی پتنگیں اڑائی جانے لگیں۔بڑی پتنگ کی وجہ سے اڑتی پتنگ کے تن (وزن) میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جس کیلئے موٹی ڈور کا استعمال لازمی ہوگیا۔ جوکہ تیز ہوا میں بھی بڑی پتنگ کو ٹوٹنے سے بچا سکے۔ یوں پتنگ کے سائز میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈور کی موٹائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔موٹی ڈوروں کے استعمال سے پہلے استعمال کی جانیوالی ڈوریں تیز ضرور ہوتی تھیں۔ مگر کسی بھی جگہ پھنس جانے کی وجہ سے ٹوٹ جاتی تھیں۔ لیکن بعد میں درآمد کی جانیوالی ڈوروں نے پتنگ بازی کا بیڑا غرق کردیا۔ویسے تو ہر سال بسنت سے پہلے بے تحاشہ سفارشات دی جاتی ہیں تاکہ بسنت پر پابندی اٹھائی جاسکے۔ لیکن اگر حکومت بسنت واقعی ہی منانا چاہتی ہے تو چند مشکل فیصلے لیکر اس صدیوں پرانے تہوار کو دوبارہ سے شروع کرسکتی ہے۔اگر حکومت چاہے تو مناسب ڈور کی فروخت کو یقینی بناتے ہوئے موٹی ڈور پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت خود یوٹیلیٹی اسٹورز، ڈاک گھروں اور دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے ڈور فروخت کرسکتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر حکومت دہشتگردی کے پیش نظر ڈبل سواری پر پابندی لگا سکتی ہے تو دو دنوں کیلئے موٹر سائیکل پر بھی پابندی لگا دے اور بذریعہ پولیس یقینی بنائے کہ کوئی موٹرسائیکل سڑکوں پر خاص طور پر کھلی سڑکوں پر نہ آئے۔ان تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے بعد ہی بسنت کی اجازت ہونی چاہیئے کیونکہ ہر انسانی جان قیمتی ہے۔ جس کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Theme