معلومات تک رسائی کاقانون اور عوامی فوائد

Published on February 11, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 1,926)      No Comments

تحریر۔۔۔ محمد ثاقب شفیعSaqib
جمہوری عمل میں معلومات تک رسائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ،معلومات تک رسائی کی بابت بہتر طرزِ حکمرانی،کرپشن میں خاطر خواہ کمی اور حکومتی اداروں پر عوامی اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ1946میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے سیشن میں معلومات تک عوامی رسائی(حقِ معلومات) کو بطور بنیادی انسانی حق قراردیا جس کو یو ۔این کی قرارداد( (59-I کے تحت پوری دنیا میں بطورانسانی حق برائے آزادیِ معلومات درج کیا گیا ہے۔
مجھے یہ بات واقعی فخر سے کہنے میں کوئی مذائقہ نہ ہے کہ پاکستانی قوم کو یہ حق اپنی آزادی کے بعد آدھی صدی گذرنے کے بعد حاصل ہو ا ہے! خیر بعض لوگوں کو تو میری اس پات سے بھی اختلاف ہوگا گہ ہم ایک آزاد قوم ہیں ، جبکہ بہت سے حلقے اس کے بر عکس ہیں،یہ واقعی حقیقت ہے کہ پاکستان ساؤتھ ایشا ء کا پہلا ملک ہے جس میں معلومات تک عوامی رسائی کے قانون کی 2002میں بنیادرکھی یہ قانون مشرف کے دورِ حکومت میں لاگو کیا کیا جو کہ بنیادی اعتبارسے خاطر خواہ کمزور ترین تھا بعد ازاں 2005میں بلو چستان اور2006میں سندھ میں بھی اسی طرح کے قوانین متعارف کروائے گئے جو کہ غیر مفید ثابت ہوئے۔
2010میں پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے معلومات تک رسائی پاکستانی شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا گیاہے اس کے بعداس پر موئثر قانون سازی کی گئی جس کے نتیجہ میں 2013میں پاکستان کے دو صوبوں جن میں خیبر پختونخواں اور پنجاب نے باقاعدہ (آر۔ٹی۔آئی) رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کی بنیاد رکھی جو کہ کے۔پی۔کے میں (آر۔ٹی۔آئی)2013 اور پنجاب میں ٹرانسپئرائنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ2013 وجود میں آیا۔ (آر۔ٹی۔آئی)کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں تک کرپشن کے خاتمے کا سوال ہے یہ قانون حقیقت میں کافی حد تک کارآمد اور موئثر ہے جیسا کہ راناانور صاحب جن کا شمارپاکستان کے سینئیر ترین وکلا میں ہوتا ہے جو کہ سیاسی و سماجی رہنما ہیں جو پاکستان کی موجودہ صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں ، انکا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ نئے قوانین کا بننا عوام کیلئے ریلیف کا بہترین موجد ثابت ہو سکتا ہے معلومات تک رسائی کا حق ہر پاکستانی شہری کو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19-اے کے تحت فراہم کیا گیا ہے ، جیسا کہ کینڈا کے ادارے سینٹر فار ڈیموکریسی کے ایگزیکٹو ٹو بی مینڈل نے کہا ہے کہ پاکستان میں (آر۔ٹی۔آئی)کا قا نون دنیا کا بہترین قانون ہے جس کے ذریعے عوام کو آزادیِ معلومات کا جو حق دیا گیا ہے اسی وجہ سے یہ قانون دنیا بھر میں بہترین رینکنگ حاصل کر پایا ہے ، اگر پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی مروجہ طریقہ سے اس قانون کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے تو پاکستان میکسیکو اور سربیا کے مقابلے میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لے گا ،رانا صاحب نے اس قانون کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ اس قانون کے ذریعے اب عام شہری حکومتی اداروں کے متعلق معلومات حاصل کرسکتا جو قا نونی اعتبار سے اسکا حق تصور کیا جائے گا،اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد ہر حکومتی ادارے میں ایک پبلک انفارمیشن آفیسر مقرر کیا گیاہے جو کہ عوام کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہو گا جس کے بارے میں شہری سادہ کاغذ پر ایک درخواست متعلقہ ادارہ کے سربراہ کے نام لکھے گا ، درخواست دہندہ دی گئی درخواست کے متعلق کسی بھی قسم کی وضاحت کا پابند نہیں ہوگا،درخواست دہندہ کو انفارمیشن آفیسر رسید جاری کرنے کا پابند ہوگا ، صوبہ پنجاب میں دی گئی درخواست پر سرکاری ادارہ 14دن کے اندر جواب دینے کا پابند ہوگاجبکہ کے ۔پی۔کے میں یہ مدت 10 دن ہے اگر یہ معلومات کسی بھی جانی ومالی نقصان سے بچاؤ کے متعلق ہیں تو یہ معلومات دو ایام کے اندر فراہم کی جائیں گیں۔
درخواست دہندہ کیلئے یہ جاننابھی ضروری ہے کہ وہ کن معاملات میں سرکاری ادارہ سے معلومات حاصل کرسکتا ہے جن میں حکومتی قوانین،ذیلی قوانین،نو ٹیفیکیشنز، حکومتی پالیسیاں،راہنما اصول اور حکومت کے جاری کردہ احکامات، کسی بھی سرکاری ادارہ کے اختیارات و فرائض جوکہ عوام کیلئے مہیا کردہ سہولیات کے متعلق ہوں،کسی بھی ادارہ کے اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے بنایا گیا بجٹ اور اخراجات کی تفصیل ،لائسنسوں کے اجراء کے بارے میں معلو مات ،پرمٹ اورایسے معاہدات جو کسی سرکاری اداروں نے کئے ہوں، اس کے علاوہ درخواست دہندہ کیلئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جن معلات میں وہ سرکاری اداروں سے معلومات حاصل نہیں کر سکتا جن میں ایسی معلومات جو کہ بین لاقوامی تعلقات یا قومی سلامتی کے ایسے معاملات جن سے شدید اور نا قابل تلافی خطرہ لاحق ہو،ایسی معلومات جس سے کسی شخص کو جانی نقصان کا خطرہ لاحق ہو،وہ معلومات جس کو مکمل طور پر قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہواور ایسی معلومات جوکہ حکومت کی معشیت سنبھالنے کی صلاحیت سے متعلقہ ہو ان کے بارے میں پبلک انفارمیشں آفیسر معلو مات فراہم کرنے کا پا بند نہ ہو گا اور ان پر (آر۔ٹی۔آئی)کا اطلاق نہ ہوگا۔
دوہزار تیرہ سے (آر۔ٹی۔آئی) کے قوانین کا اطلاق صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواں میں ہو چکا ہے جس کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے کے 60 دن کے اندراندرصوبہ پنجاب میں جبکہ 120دنوں کے اندر اندر صوبہ خیبر پختونخواں میں تمام سرکاری محکمہ جات کو پابندکیا گیاہے کہ وہ اپنے محکمہ میں کسی بھی آفیسر کو بطور پبلک انفارمیشن آفیسر مقرر و نامزد کریں تا کہ اس ایکٹ کے تحت درخواستیں دی جا سکیں ، پبلک انفارمیشن آفیسر کی تعیناتی عوام تک معلومات کو یقینی بنانے لئے عمل میں لائی گئی ہے اور مقرر کردہ آفیسر اس بات کا پابند ہے کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں درخواست کردہ معلومات فراہم کرے جس سے حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ محکموں کی جانب سے اوور چارجنگ، کلیریکل فیسز کا خاتمہ جو کہ کرپشن کی بنیادی وجوہات ہیں، (آر۔ٹی۔آئی)کے تحت عوام الناس کو یہ اختیار مل چکا ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے حکوتی اداروں کے اہلکاروں کا احتساب کر سکیں مثلاََکسی کام کی غرض سے اگر ادارہ سائل کو گمراہ کرتا ہے یا اضافی رقم بٹورنی چاہتا ہے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق ادارہ کے انفارمیشن آفیسر سے یہ معلومات حاصل کرے تا کہ یہ معلومات ایک قانونی حثیت کی دبدولت کسی بھی وقت بطور ثبوت پیش کی جا سکے اور موقع پر کرپٹ افسران کا محاسبہ کیا جا سکے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے بنائے گئے معلومات تک رسائی کے قوانین انتہائی موضوع اور مفید ہیں جیسا کہ سینئر ایڈووکیٹ جناب رانا انور صاحب نے بیان کیا جوکہ انٹر نیشنل شہرت یافتہ ماہر قانون ہیں ،میں مکمل طور پر اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس طرح کے قوانین کا پاکستان میں وجود میں آنااس بات کی واضع شہادت ہے کہ حکومت کسی حد تک عوامی مسائل کے حق کیلئے سنجیدہ ہے خواہ ایسے اقدامات بیرونی دباؤ میں کیئے جارہے ہیں جن سے جمہوریت کی راہ ہموار ہو۔بیشک اگر پاکستانی عوام ان قوانین پر عمل پیرا ہوتی ہے تو یقیناََحکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتاہے اس طرح کے مزیدقوانین مستقبل میں حکومتی اداروں کا بروقت احتساب اور حکومت کی عوام دوست پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے انتہائی اہم ترین اقدام تصور کیا جائے گا جو کہ عوامی مفاداورجمہوری اقدار کو تقویت بخشے گا جس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا جوکہ ملکی سالمیت کیلئے ایک خوش آئند بات ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme