سماجی تحفظ کی اسکیموں کا اجراء

Published on March 20, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 491)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
وفاقی جمہوریہ جرمنی اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں مین غربت کے خاتمے کی جدوجہد میں سماجی تحفظ کے شعبے میں امداد بھی شامل کی جانی چاہئیے اسی مقصد کے پیش نظر جرمنی کی گذشتہ 20سال سے زیادہ عرصے سے ترقی پذیر ممالک کو سماجی تحفظ کے ماہرین کی مشاورتی خدمات مہیا کررہا ہے ماہرین ترقی پذیر ملکوں کو ایسی فلاحی مملکت بنانے کے مشورے نہیں دیتے جن کا قیام ابھی بہت سے امیر اور صنعتی ممالک مین بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے اس کے بجائے جرمن ماہرین ترقی پذیر ممالک میں سماجی تحفظ کے منصوبوں کو اپنی مد د آپ کی بنیا دپر استوار کر نے کے لئے راہنمائی کر تے ہیں اس سلسلے میں سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ سماجی ، سیاسی اور قانون کے شعبے میں حالات ساز گار بنائے جائیں متعلقہ وفاقی وزارت کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 100سے زیادہ ترقی پذیر ملکوں میں پہلے ہی بیمے کا قومی سماجی نظام قائم ہوچکا ہے جرمن ماہرین سماجی تحفظ کے نئے نظام قائم کرنے کے بجائے موجودہ نظاموں کو زیادہ بہتر ، موثر اور مستحکم بنانے کے سلسلے میں مشورے دیتے ہیں وہ اس بارے میں راہنمائی کرتے ہیں کہ موجودہ نظاموں کو موثر انداز میں جاری رکھنے کی غرض سے سرمائے کے حصول کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں اور عطیات سے حاصل ہونے والی رقوم کو کس طرح استعمال میں لایا جائے کہ غریب اور مستحق افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے سماجی تحفظ کے منصوبے کا بنیادی مقصد مصائب و مشکلات سے دو چار لوگوں کی مدد کرنا ہے جو درپیش مشکلات پر خود اپنے پر قابو پانے کے وسائل نہ رکھتے ہوں بلکہ دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں سماجی تحفظ کی اسکیم کے تحت عموماً جن مقاصد کے لئے مدد مہیا کی جاتی ہے ان میں بیماری ،حادثات ، بے روزگاری ، بڑھاپا اور موت شامل ہے سماجی تحفظ کی بعض شقوں کے تحت خشک سالی اور زرعی فصلیں ضائع ہو جانے کے علاوہ قدرتی آفات کی صورت میں بھی مدد دی جاسکتی ہے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں بیشتر غریب اور مستحق افراد کو سماجی تحفظ کی سہولت حاصل نہیں ہے اس لئے جرمن کے ترقیاتی تعاون کے منصوبے کے تحت اس گروپ میں شامل لوگوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اگرچہ اس منصوبے کے تحت براہِ راست مالی امداد نہیں دی جاتی البتہ بعض مخصوص صورتوں میں وفاقی حکومت مالی مدد مہیا کرتی ہے چونکہ جرمنی میں سماجی تحفظ کے نظام کا ابتدائی شکل میں آغاز سو سال سے زیادہ عرصہ قبل ہوچکا تھا اس لئے جرمنی کو اس شعبے میں طویل تجربہ حاصل ہے اس کے تحت سا تھ ساتھ سماجی تحفظ کے منصوبے میں ضرورت کے مطابق صحت ، پنشن، بے روزگاری اور فرائض کی انجام دہی کے دوران حادثات کا بیمہ وغیرہ شامل ہوتے گئے جن ملکوں میں نجی شعبہ کو برتری حاصل ہے وہاں سماجی تحفظ کے نظام بہت اہم کردار کرتے ہیں اور یہ نظام خاندانی تعلقا ت یا کسی خاص پیشے کے لوگوں کے گروپ میں رکنیت کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے مشرقی یورپ کے مطابق کمیونسٹ ملکوں سے بھی سماجی تحفظ کے شعبے میں تعاون کیا جارہا ہے جہاں کمیونزم کے زوال کے بعد نظام میں تبدیلی کے عمل کے دوران سماجی تحفظ کے منصوبے منقطع ہوگئے تھے جرمنی سماجی تحفظ کے شعبے سے وابستہ اہلکاروں اور ماہرین کو بالترتیب بنیادی اور اعلیٰ تربیت کی شکل میں ٹھوس تعاون کررہا ہے ہمارے ہاں بھی کئی ایک ایسے ادارے کام کررہے ہیں نجی اور سرکاری سطح پر سماجی تحفظ کے ٹھوس پروگرام موجود ہیں بات صرف یہ ہے کہ مالی امداد مستحقین تک بہت مشکل سے پہنچتی ہے سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دورِ اقتدار میں عشر زکوٰۃ کا نظام قائم کیا بعدازاں سابق صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر اسکیم کی بنیاد رکھی اس نظام سے بہت سے غریبوں ، مسکینوں کو فائدہ ہوا اگر زکوٰ ۃ اور بے نظیر اسکیم کو حرام خور افسروں اور اہلکاروں سے بچالیا جائے تو اس نظام کے تحت غریبوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے یہ سچی حقیقت ہے کہ اس نظام کے تحت بہت سے مرد اور خواتین کو فنی تعلیم و تربیت سے لیس کیا گیا بیت المال کے ادارے بھی ووکیشنل تعلیم و تربیت فراہم کررہے ہیں مگر افسوس کہ ایسی اسکیموں سے غریبوں کے بچوں اور بچیوں کو بہت کم حصہ ملتا ہے زیادہ تر غیر مستحقین لے اُ ڑتے ہیں سفارش کر نے والوں نے بھی حد مکا رکھی ہے کہ وہ ایسے نوجوانوں کی سفارش کرتے ہیں جو صاحبِ حثیت ہوتے ہیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے حکومت کو چاہئیے کہ اس امر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مستحقین کو فائدے پہنچائے جائیں کسی کو یقین نہ آئے تو ان فنی تربیتی مراکز کے اندر اور باہر کھڑی موٹر سائیکلوں سے پتہ چل جائے گا کہ آیا کون مستحق اس اسکیم سے فائدہ اُ ٹھا رہا ہے حکومت کو ایسے اداروں کے داخلوں کا صاف اور شفاف نظام بنانا چاہئیے تاکہ حقیقی فوائد مستحقین تک پہنچ سکیں مانٹر نگ کا نظام وضع کیا جائے جو داخلوں کے بعد چھان بین کر کے حقیقت جان سکے ۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog