آزاد کشمیر میں شادی کرنے والے خاندانوں پر عرصہ حیات تنگ

Published on May 31, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 338)      No Comments


سرینگر :(یو این پی) مودی سرکار اور سرینگرکٹھ پتلی حکومت نےآزاد کشمیر میں شادی کرنیوالے خاندانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ، بھارتی سرکار کی جانب سے آزادکشمیر میں رشتہ کرنے والے خاندانوں پردہشت گردی کا لیبل لگا کر ہر وقت تشدد کیا جانے لگا ، بھارتی فوج نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرلئے، بھارتی سرکار نے آر پار آنا جانے کی سہولت پہلے ہی ختم کررکھی ہے جبکہ اب انٹرنیٹ سروس بھی ان لوگوں کے لئے بند کردی جاتی ہے ۔ یہ انکشافات مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر شہناز بھٹ نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں کیے ۔غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیرشہناز بھٹ ان خواتین میں سے ایک ہیں جو مودی حکومت کی جانب سے سرینڈر سکیم کے تحت آزاد کشمیر سے واپس سرینگرجانے والے خاندانوں کا حصہ ہیں لیکن وہ اِس پار چھوٹ جانے والے میکے اور آزاد فضاؤں کو یاد کرتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں پاکستانی کشمیر سے ہوں لیکن سرینگر سے آئے ایک عسکریت پسند سے میری شادی ہوئی۔ پھر عمر عبداللہ حکومت کے وقت 2011 میں ’’سرینڈر سکیم‘‘ کے چکر میں میرے شوہر نے بھارت کو واپس کرنے کی ضد کی اور ان کے ساتھ میں اور ہمارے بچے بھی اس پار کے کشمیر آ گئے لیکن ہم اب یہاں پھنس گئے ہیں، چاہ کر بھی واپس اس طرف والے کشمیر میں نہیں جا پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تمام عورتوں کو کہوں گی کہ کبھی اپنا رشتہ ادھر نہ کریں،حکومت میرے شوہر کو دہشت گرد سمجھتی ہے ہمارا کیا قصور ہے۔ ہم نے تو انہیں دہشت گرد نہیں بنایا۔ ہم نے تو صرف شادی کی اور پھر یہاں چلے آئے۔ ہمیں باندھ کر کیوں رکھا ہے؟ ان ساڑھے پانچ سالوں میں ایک بار بھی واپس اپنے وطن، اپنے خاندان کے پاس جانے کا موقع نہیں ملا۔ اس دوران میرے والد چل بسے اور مجھے ایک سال بعد خبر ملی۔میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں مظفر آباد میں، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مردوں سے شادی کی ہے۔ میرے شوہر بھی سبزی پھل کی دکان لگانے لگے تھے۔ ماں باپ کی رضامندی سے ہماری شادی ہو گئی، پھر سال 2011 میں ’سرینڈر سکیم‘ آئی اور انھوں نے ضد کی کہ وہ اپنے ماں باپ، بھائی بہن سے ملنا چاہتے ہیں۔میرے ماں باپ نے بہت منع کیا اور کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ واپس آنے کا راستہ نہیں ملے گا۔مجھے یقین نہیں ہوا۔ مجھے بھارت کا کشمیر دیکھنے کا بڑا شوق بھی تھا تو ان کی بات مان لی۔ یہ چاہتے تھے کہ ان کے گھر والے بھی مجھے ملیں، ایک شادی شدہ عورت کے پاس اور کیا چارہ تھا۔ نہ کہنے سے گھر ٹوٹ سکتا تھا جس سے بچوں کی زندگی برباد ہو جاتی۔ ہم 10 دسمبر 2011 کو نیپال کے راستے سے کشمیر آئے۔ ’سرینڈر اسکیم‘ میں بتائے گئے چار سرکاری راستوں میں یہ نہیں تھا پر ان راستوں سے ہمیں پاکستانی انتظامیہ جانے ہی نہیں دے رہی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں آنے کے بعد ہمیں گرفتار کر لیا گیا اور غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ وہ آج بھی چل رہا ہے۔ میں جب یہاں آئی تھی تو سوچا تھا ایک ماہ بعد واپس جاؤں گی، پر تھانے اور عدالت کے ہی چکر کاٹ رہی ہوں۔ اب تک شناخت کا کوئی کارڈ نہیں ملا ہے۔ جب بھی کوئی بات اٹھاتے ہیں آنے جانے کی، پاسپورٹ بنوانے کی، تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ غیر قانونی ہیں۔اگر ہم اتنے ہی غیر قانونی ہیں تو ہمیں واپس کیوں نہیں بھیج دیتے؟ اور سارے ملکوں میں بھی تو یہی کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو انڈیا پاکستان دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، اور پھر ہم عوام کو قانونی مقدموں میں الجھایا جاتا ہے۔یہاں کے لوگوں پر اعتماد نہیں ہوتا۔ یہاں سہیلیاں نہیں میں دل کی بات کسی سے نہیں کر پاتی ہوں۔ لوگوں کے چہرے کچھ اور ہیں اور لگتا ہے کہ اندر سے وہ کچھ اور ہیں۔ساڑھے پانچ سالوں سے ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کسی جیل میں بند کر دیا ہے۔ اس دوران چھوٹے بھائی کی شادی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔اب قریب آٹھ ماہ سے انٹرنیٹ اور واٹس ایپ کے ذریعے اس طرف بات ہو جاتی ہے۔پر یہاں حکومت بار بار انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے۔ ہر وقت یہاں تشدد ہوتا رہتا ہے، ہر وقت خطرے کا احساس رہتا ہے، ٹینشن رہتی ہے۔کھیت میں کام کرنا پڑتا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ زبان اور طور طریقے بھی مختلف ہیں۔بہت لڑکیاں بھی ہیں جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے باہر کے ممالک میں شادی کر کے جاتی ہیں پر انہیں واپس آنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ہم یہی سوچتے ہیں کہ انڈیا کیوں آئے؟ ان لوگوں پر غصہ آتا ہے کہ کیوں لائے تھے؟ ہمیں جھوٹ بول کر وہاں سے کیوں لے آئے؟ سب کچھ بس جھوٹ ہی لگتا ہے۔ :

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme