قوموں کی ترقی کا راز 

Published on June 21, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 767)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
جرمن نے جب پہلی جنگ عظیم میں شکست کھائی تو ایڈولف ہٹلر نے حکومت وقت اور عسکری قیادت کی خامیوں اور کمزوریوں کو خوب اچھا لا وہ اس جنگ عظیم میں رضا کار فوجی آفیسر کی حیثیت سے دشمنوں کے ساتھ لڑ چکا تھا گو وہ ایک معمولی تعلیمی قابلیت کا حامل تھا مگر خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھا اسے جنگ عظیم میں حصہ لینے سے بہت سا عسکری علم حاصل ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ اگر ہم ان عسکری خامیوں اور کمزوریوں کا خاتمہ کر کے قوم کو پاؤں پر کھڑا کر دیں تو ہم پھر دنیا سے لڑ سکتے ہیں لہٰذا اس نے “سپر قوم “کا نعرہ بلند کیا اور جرمنوں کو حوصلہ اور تسلی دی کہ وہ گھبرائیں نہیں وہ سپر قو م ہیں اور اس قوم کو ہی پوری دنیا پر حکمرانی کا حق ہے لہٰذا اس نے عسکری قیادت کو ہلہ شیری دی اور اسلحہ بارود، جنگی جہاز ، راکٹ ، مزائلیں اور ٹینک کی تیاری میں مصروف ہوگئے 10سالوں میں عسکری طاقت عروج پر آگئی اور ہٹلر نے 10سالہ جشن منایا پوری دنیا کے مبصروں کو دعوت دی اور برلن پر جنگی جہاز وں کے مظاہرے کے دوران مبصروں کو حیران کردیا اس نے جب ملک پر اپنا تسلط مستحکم کر لیا تو تیسری عالمی جنگ چھیڑ دی ہٹلر نے اس جنگ میں دو بڑی فاش غلطیاں کیں جس کے باعث اسے شکست سے دو چار ہونا پڑا نمبر1کہ ایٹم بم کی تیاری آخری مراحل میں تھی اور اس نے جنگ چھیڑ دی دوسرا سائبیریا پر حملہ کرنے کا حکم بہت بڑی غلطی تھی فوج اور اسلحہ سائبیریا کی دلدل میں دھنس جانے سے روس ہٹلر کے عذاب سے بچ نکلا ان دو غلطیوں نے جرمن کو بہت بڑی شکست سے دو چار کردیا جرمنی کے 114چھوٹے بڑے شہر تباہ ہو گئے ملک کی 20فیصد عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہوگئیں زراعت 65فیصد کم ہوگئی 1947میں جب پاکستان بن رہا تھا جرمن بد ترین صورتحال کا شکار تھا ملک مشرقی اور مغربی جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیابجلی بند تھی سڑکیں تباہ تھیں ، بندر گاہیں نا قابل استعمال تھیں انڈسٹری صفر تھی کرنسی ختم ہوچکی تھی 1945سے لے کر 1955تک دس سال جرمنی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین تھے 1962تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا دنیا کے 14ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امدا دینے والے ملکوں میں ہمار املک پاکستان بھی شامل تھا ایوب خاں کے دور میں پاکستان نے بیس سال کے لئے جرمنی کو 12کروڑ روپے قرض دیا تھا اور جرمن کے چانسلر نے باقاعدہ تحریری طور پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا یہ خط آج بھی ہمارے ریکارڈ میں ہے 60کی دہائی تک جرمن کی حالت یہ تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے ہنر مند منگوائے تھے پھر ترکی سے استدعا کی گئی ترکی کے لوگ جرمن کی مدد کے لئے وہاں پہنچے آج جرمنی میں 38لاکھ ترک موجود ہیں 50سال قبل جرمن کی یہ صورتحال تھی لیکن آج کیا صورتحال ہے دیکھئے آج جرمن دنیا کی چوتھی بڑی معشیت ہے ہم 41ویں نمبرپر ہیں جرمن کا جی ڈی پی 3400ملین ڈالر ہے جبکہ ہمارا جی ڈی پی 71ملین ڈالر ہے جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی صرف 29ارب ڈالر ہے جرمنی کے زر مبادلہ کے ذخائر 203بلین ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کے 21بلین ڈالر ہیں جرمنی کی فی کس آمدنی 411178ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1434ڈالر ہے جرمنی روزانہ 12کروڑ کی پیپر پن تیار کرتا ہے وہ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں ہم یہاں کیوں ہیں اسکی وجہ جرمنی کے حکمرانوں کی سادگی ہے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اپنے پڑوسی ممالک کے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے ان کے درمیان بیٹھ کر الیکڑک کتیلی میں چائے بنا رہی ہے جبکہ بسکٹوں کے چند پیکٹ ان کے سامنے پڑی ٹیبل پر پڑے ہیں مہمانوں میں دنیا کی پانچویں معشیت فرانس کے صدر نکوس سر کوزی اور یونان کے صدر بیٹھے ہیں یہ دونوں صدور کسی سرکاری وزٹ پر ہیں جرمنی جیسی قومیں ان رویوں کی وجہ سے ترقی کر تی ہیں اگر پاکستانی حکمرانوں والا رویہ ہو تو قومیں مقروض بن جاتی ہیں با شعور قومیں چاند پرجا چکی ہیں اور ہم آج بھی کلفٹن پہ کھڑے ہو کر دور بینوں سے چاند تک رہے ہیں قومیں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کررہی ہیں اور ہم رمضان بازار سجا کر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں ہم معیار زندگی بہتر بنانے کی دوڑ میں معیار انسانیت سے گر گئے ہیں جہاد کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کو مارنے اور اپنی عسکری قوت کو جلا کر راکھ کرنے لگ گئے ہیں دشمن کے ہتھے چڑھ کر اپنے ملک کو برباد کر نے لگ گئے ہیں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اپنوں کے ہاتھوں پٹ رہی ہے بجلی ، گیس ، پانی اور ٹرانسپورٹ کے نظام نے قوم کو مایوس کر دیا ہے حکمران پانامہ لیکس کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے اپوزیشن سڑکوں پر رُل رہی ہے ان حالات میں ہم کیسے ترقی کرسکتے ہیں ذرا سوچئیے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy