سقراط اگر زہر نہ پیتا تو مر جاتا

Published on June 21, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 677)      No Comments

تحریر۔۔۔عابد حسین مغل

تین سو ننانوے سال قبل از مسیح عدالت لگ چکی تھی سقراط اپنے ہی شہر ایتھنز کے منصفوں کی عدالت میں پیش تھا ا لزام تھا کی وہ ریاست کے خداؤں کو تسلیم نہیں کرتا نو جوانوں کے ذہن خراب کر تا ہے اور اپنے عقائد و فکر پھیلانے کی کوشش کر تا ہے کمال مقدمہ تھا نہ چوری کا نہ کرپشن کا نہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا یہ تو صرف عقائد و نظریا ت پھیلانے کا مقدمہ تھا ،سقراط بہت بڑا فلاسفر تھا جس نے کہا تھا کہ “سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے”یہ بات عیسائی مذہب کی میتھالوجی کے خلاف گئی تو معاملہ عدالت میں چلا گیا جب بات نظریات و عقائد پر آئی تو سقراط اپنی سوچ پر ڈٹ گیا اور اسے زہر پلا دینے کی سزا سنا دی گئی جس بنا پر اس کی موت واقع ہوئی ۔وقت بہت بے رحم ہے سچائی اور حقیقت کو سامنے لے ہی آتا ہے ،وقت نے سقراط کے زہر پینے کے صدیوں بعد حقیقت سائنسی بنیادوں پر ظاہر کی اور واقعی سورج ساکن اورزمین اس کے گرد گھومتی ہے اسکے علاوہ سقراط جو بھی کہتا تھا سچ ہے اس بات پر یونان کے پادریوں اور چرچ نے سقراط سے معافی مانگی اور اس کو اپنا ہیرو قرار دیا وقت نے سقراط کو زندہ کیا اور اس کی سوچ کو امر کر دیاآج زہر پینے کے باوجو د سقراط پوری دنیا میں زندہ ہے سچائی اور حقیقت ہمیشہ زندہ رہتی ہے چاہے معاشرہ اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہواس کو دبانا بھی چاہے تو یہ دب نہیں سکتی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سامنے ضرور آتی ہے، سچ چھپانے سے نہیں چھپتا اور حقیقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور معاشرے میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو سچ اور حقیقت پر پورا اترتے ہیں نا کہ جو دھوکے اور فساد کا سبب بنتے ہیں خود دیکھ لیجیے آج دنیامیں کتنے چور ،کرپٹ ،ڈکیٹ اور لٹیرے موجود ہیں جن کی تعداد تو کم ہے لیکن ان کے متعلق نظریا ت بہت گندے ہیں کہ سننے سے کانوں میں چپ اتر آتی ہے، جبکہ اُن لوگوں کی گنتی زیادہ ہے جنہوں نے اچھے اسلوب ،نیک سوچ اور سچے جزبوں سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، سقراط ایک ذہین فلاسفر تھا جس نے اپنی ذہنی شعور سے تاریکیوں میں روشنیوں کی بات کی تھی مگر معاشرے نے اسے تسلیم نہ کیا جس کے سبب صدیوں تک معاشرہ اندھیرے میں رہا لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا سقراط سچا تھا۔
آج سے پھر ایک عدالت برپا ہے، جس میں عدالت کا منشی با آواز بلند بادشاہ سلامت نواز شریف صاحب حاضر ہوں کی صدا بلند کئے ہوئے ہے اور نواز شریف صاحب ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے پسینے پونچھ رہے ہیں،افسوس کہ آج انکے الفاظ انکی حسیات کا ساتھ نہیں دے رہے انکی آواز اکھڑ ی اکھڑ ی ہے سقراط اور نواز شریف کی شخصیا ت میں زمین آ سمان کا فرق ہے وہ ایک فلاسفر اور یہ ایک سیاستدان ہے ،اُس پر غلط نظریا ت پھیلانے کا الزام اور اس پر کر پشن جیسا بھیانک الزام وہ ایک عام شہری اور یہ ملک کا ایک کر پٹ حکمران وہ زہر پینے کے باوجود زندہ اور یہ زندہ ہونے کے باوجود ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے، میرے خیال سے زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ عزت و نیک نامی ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک نہ سہی چلو کچھ عرصہ ہی لوگ اچھے لفظوں سے یاد تو کریں گے نہ کہ بستر مرگ پر آہو پکار سننے کو ملے یا پھر زندگی کے آخری وقت عدالتوں کے چکروں میں اور عدالت کو چکر دینے میں گزر جائے، جمہوریت و عوامی سیاست اور شریف خاندان کی نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ملک میں واپس لے آئے عدالت کو حقیقت سے روشناس کرائیں اور عوام سے معافی مانگ لیں تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی نہ کہ علی بابا اور چالیس چور کے مترادف کہانیاں بنتی جائیں گی عدالتیں لگتی رہیں گیں اور بدنامی ،ذلت اور رسوائی کا سامنا رہے گا محترم وزیر اعظم صاحب کو یہ زہر کا پیالہ پینا ہی پڑے گا اسی میں ان کی بقا ہے اس کو پینے سے ہی آپ تاریخ میں امر ہوں گے اور لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نہیں تو یہ عدالتیں قطر تو کیا قبرکی دیوار تک آپ کے ساتھ جائیں گی شاید کہ قبر کا بھی ٹرائل ہو۔ خدا نہ کرے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题