پانامہ کے ہنگامے کے پس پردہ حقائق پر ایک نظر

Published on July 13, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 1,139)      No Comments

تحریر۔۔۔ شاہد جنجوعہ
آج ریاست ، صحافت ، مذہب ، سماج اور زندگی کے دیگر کئی ایک شعبے اس لئے بگاڑ کا شکار ہیں کہ ہم اداروں کی مضبوط نہیں کرسکے، نظام کونسا چلنا ہے اسکا فیصلہ نہیں کرسکے ۔۔ہماری جنگ اختیارات کی چھینا چھپٹی کے گرد گھومتی ہے ۔ ہم ذاتی و جماعتی مفادات سے آزاد ہوکر سوچنے اور بڑے فیصلے کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔ عوام کی سادگی کا فائدہ اٹھاکر انہیں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ۔ ملک میں جاری بحران اور ٹکراؤ کی جو وجوھات ایک عام انسان سمجھ رہا ہوتا ہے یا ہمارا کمرشل میڈیا بیان کررہا ہوتا ہے اسکا حقیقت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ جن افراد کو احساس ہو کہ فالٹ لائن کونسی ہے وہ ملک میں جاری بحران کی نوعیت، وجوہات اور اسکے پس پردہ حقائق  پر اصولی مؤقف اینانے کی بجائے اپنی قیمت لگواکر اپنی چرب زبانی کا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالکر بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حالات پرنظر رکھنے والے صاحب بصیرت لوگوں کو پتہ ہے کہ میں اصولوں کو اطلاق سب پر یکساں کرنے کا قائل ہوں ۔۔اسی لئے میرے سوالات سطحی النظر لوگوں کو سمجھ نہیں آتے۔ جیسے آجکل کے دور میں ملک میں پانامہ کے شور کے پیچھے ایک بہت بڑا بلنڈر قوم سے چھپایا جارہا ہے اور اسکے زمہ دار تمام جماعتیں اور اسٹبلشمنٹ ہے ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز نے جس پاکستان کے قیام کو قبول کیا تھا ہو اسلامی و جمہوری نہیں اسماعیلی پاکستان تھ اور محمد علی جناحؒ کی سے انہیں یہی امید تھے کہ انکی اہلیہ اسماعیلی ہیں اور محمد علی جناحؒ کی شخصیت پر گہرا اثر ہے لہذا وہ کبھی اس حصار سے باھر نہیں نکل سکیں گے ۔ جبکہ علامہ اقبالؒ ایسا عظیم مفکر اور دانشور انکی معتدل مزاج شخصیت اور متوازن سوچ کی وجہ سے پرامید تھا کہ وہ حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنیوالے انسان ہیں جزباتی فیصلے نہیں کرتے لہزا اس جدوجہد آزادی کی کمان اگر انکے ہاتھ میں دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔ ان قائداعظمؒ کی ملاقات پیر جماعت علی شاہ سے کوئی اتفاقیہ نہیں تھی ۔ اس ملاقات کا اہتمام کروایا گیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ محمد علی جناحؒ نے اپنی بیٹی تک سے علیحدگی اختیار کرلی اور کہا کہ میں راسخ العقیدہ مسلمان ہوں اور اپنے عقیدے اور سوچ میں سیکولر نہیں ہوسکتا ۔ پھر انہوں نے اعلانیہ کہا کہ اس ملک کا نظام اسلامی و جمہوری ہوگا ۔ 
جنرل مشرف کے دور میں ایک بہت بڑی غلطی ہوئی کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیتے وقت حدودوقیود کا خیال نہیں رکھا گیا اور کچھ اہم علاقے ایک خاص طبقے کو دے دیئے گئے جن کا پاکستان کے اندر ایک اپنا پاکستان ہے اور اپنی دنیا ہے وہ بہت منظم ہیں بہت اچھے کام کررہے ہیں مگر انکی سوچ پاکستان یا نظریہ پاکستان کیلئے اپنے گروہ اور اپنے علاقے کی ترقی کیلئے ہے اور اس راہ میں حائل رکاوٹ کو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے ۔ آج ہمارے ارباب اختیار سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ گلگت بلتستان کا وہ اہم علاقہ رہن رکھ بیٹھے۔ چائنہ کے تعاون سے شروع کیا جانیوالا سی پیک معاہدہ پاکستان کی ترقی اور مستقبل کے حوالے سے ایک مائل سٹون ہے۔۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اس منصوبے کی اہمیت بلاشبہ کئی حوالوں سے ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کے علاقے کی اہمیت سوگنا بڑھ گئی ہے۔ مگر ایک غیرجانبدارانہ سوال یہ ہے کہ اس سارے علاقے کو اسماعیلیوں کے حوالے کردینا کیا دانشمندانہ فیصلہ تھا. وہ تو آزاد تجارت کے قائل ہیں جو آئے پیسہ لگائے اور کام کرے ۔اسمیں آپ کتنی ہی قید لگالیں آپ کے ہاتھ بندھے ہیں جسکی زمین ہے وہ بااختیار ہے اسکے پاس بہت کچھ کرنے کی اتھارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی اور جنرل مشرف صاحب کے دور میں بلیک واٹر کو جیسے پاکستان کے کئی علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی کی اجازت دینے کی تاریخی غلطی کرکے پاکستان نے سبق سیکھا۔ اسطرح کی کسی اور حوالے سے دوسری غلطی کر کے پاکستان میں سیکورٹی ادارے کوئی رسک نہیں لے سکتے ۔ پاکستان میں جاری اس کشمکش کے پیچھے میری دانست میں اصل تنازعہ یہ ہے کہ اس علاقے کا کنٹرول کیسے سنبھالا جائے ۔ کیا ہماری سویلین حکومت اس قابل ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کا ڈٹ کرپہرہ دے سکے یا وہ سیاسی مفادات اور گروہ بندیوں سے باہر نکل کر ملکی مفادات کے مقابلے میں ترقی اور تعمیر کے خوشنما نعرے کی آڑ میں کسی خطرناک سازش کا مقابلہ کرسکے؟ 
پاکستانی قوم اس وقت اس دورائے پر کھڑی ہے کہ آیندہ اس ملک کے اہم و حساس معاملات پر حتمی فیصلہ کون کریگا ۔ اگر ماضی میں اسٹبشلمنٹ سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں تو سیاسی قیادت نے اس سے بھی بڑے بلنڈر کئے ۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے اپنے سرپر ان لوگوں کو مسلط رکھا جن کی واضح ہمدردیاں پاکستان کی بجائے افغانستان یا پھرایران و سعودی عرب کیساتھ تھیں ۔ پاکستان تو محض انکاھالیڈے ھوم یا کاروباری ٹھکانہ ہے۔ 
لیکن اسکے باوجود پوری دنیا میں اس سوچ کو پزیرائی ملی ہے کہ اگر تمام دفاعی ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو کسی بھی ملک کا نظم و نسق بہتر طریقے سے چلایا جاسکتا ہے ۔اسلئے کہ سرحدوں کی نگرانی پر مرکوز اداروں کی توجہ اگر معاشی نقطعہ نظر سے اہم دوسرے پراجیکٹ پر کی طرف رہے گی تو ملکی کی سلامتی کیلئے خطرات سے نبٹنا بھی مشکل ہوگا اور پھر آمرانہ مزاج کیوجہ سے انکے سامنے عوام کی آواز دب جائے گی ۔
یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسکی طرف ہمیں توجہ دیکر آئندہ کیلئے اصول طے کرنے ہیں ۔ ورنہ شخصیات کے آنے جانے سے مسائل حل ہونگے اور نہ بحران تھمے گا۔ کیونکہ اصل مسئلہ چیلنجز سے نبٹنے کےاہل سنجیدہ قیادت کا فقدان ، ٹیم ورک کی کمی، ہرسطح پر کرپشن کا خاتمہ، اصولوں کی پاسداری ، خاندانی موروثیت کا سیاست میں قلع قمع ، اداروں کے درمیان توازن ، چیک اینڈ بیلنس، پاکستان کے مفادات کا تحفظ، حدودوقیود کا تعین اور اقتدار تک پہنچنے کیلئے پاک فوج کو خواہ مخواہ سیاست میں گھسیٹنے سمیت ان پر الزام تراشی اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست سے سختی سے اجتناب ہے۔ ہمارے اداروں کیلئے ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ احتساب کا عمل رکنا نہیں چاہیے اور پانامہ لسٹ میں باقی جو 399 نام آئے تھے انکا بھی احتساب کریں ۔ پھر بیرون ممالک سے جن مقدس ہستیوں نے مختلف پراجیکٹس کے نام پر اربوں کے حساب ست فنڈز اکٹھے کئے اورھڑپ کرگئے وہ انکے احتساب کو کوئی نام نہیں لیتا وہ 2002 سے لیکر ابتک کئ ایک خوشنما نعروں اور بڑے بڑے پراجیکٹس کا جھانسہ دیکر ارب ھا روپے لوٹ کر شاہانہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے پلے میں موروثیت کی لعنت کے سواکچھ نہیں ۔ ایسے حالات میں جب ہم یہ قوم اپنےہی کئے ہوئے غلط فیصلوں کے نتائیج بھگت رہی ہے کچھ موقع پرست اور غیر سنجیدہ عناصر لوگ کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتے ہیں اور وہ ایک عرصے سے کٹھ پتلی تماشا جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انہیں صاف صاف شٹ اپ کال دیں ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں مساوات اور حق گوئی کے علمبردار خود گروہ در گروہ بٹے ہیں۔ اخلاقیات تیزی سے روبہ زوال ہونے کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانیت دنیا بھر میں بدنام ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک دکھاوا ہے ایک پردہ ہے یا پھر خوبصورت الفاظ میں لپٹے دعوے اور نعرے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس پردے کے پیچھے محض ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی دوستی اور دشمنی ہی ہمارا واحد معیار رہ گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آج الفاظ اپنا معانی کھوگئے ہیں اور کسی کی بات دوسرے کے دل پر اثر نہیں کرتی! آج لٹریچر کی بہتات ہے، اس میں کہانیوں کی بھرمار ہے مگر یہ سب کس کام کا اگر کوئی اسے کھول کر اس پر عمل کرنے والا نہ ہو؟ علم، صلاحیت، محنت، کمٹمنٹ، تجربے اور نظریاتی وفاداری کی بجائے جب معیار کچھ اور ہو تو نتائج بھی ویسے ہی آئینگے جیسا چناؤ ہوگا۔ 
کاش ہم ذاتیات سے نکل کر اور اِیگری ٹُو ڈِس اِیگری کے فارمولے کے تحت اچھے مقاصد کیلئے ملکر آگے بڑھنے میں پہل کریں اور کوئی ایک شخص ہی سہی اس کا نقطعہ آغاز بننے کیلئے اپنی انا کی قربانی دے

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog