فنی تعلیمی نظام اَ ن گنت مسائل کا شکار 

Published on July 25, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 410)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
کسی قوم کی بربادی کے لئے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی ایک پروفیسر نے ڈاکٹریٹ ما سٹرز اور بیچلرز کے طلباء کے لئے ایک معنی خیز پیغام لکھا اور اسے یونیورسٹی کے داخلی راستے پر آویزاں کردیا پیغام کچھ یوں تھا کہ کسی عوام کی بربادی کے لئے کسی ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لئے صرف تعلیمی معیار کا خراب اور امتحانات میں نقل کی اجازت دینا ہی کافی ہے اس عمل سے ایسے ڈاکٹرز وجود میں آئیں گے جن کے ہاتھوں بے چارے مریض خدا کو پیارے ہوجائیں گے ایسے انجینئر ز وجود میں آئیں گے جن کی بنی ہوئی عمارتیں اور پُل زمین بوس ہوجائیں گے ایسے اکاؤنٹنٹ جنم لیں گے جو پیسوں کا غلط حساب لگا کر بجٹ کو درہم برہم کردیں گے ایسے مذہبی سکالر پیدا ہوں گے جن کے ہاتھوں انسانیت کا قتل عام ہوگا ایسے جج بنیں گے جو انصاف کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں گے غرض یہ کہ ہر شعبہ پستی میں چلا جائے گا بلکہ دلدل میں دھنس جائے گا سچ کہا ہے کہ تعلیم کا خراب معیار قوموں کی بربادی ہے ہمارا نظام تعلیم اور صحت و صفائی کا نظام دونوں گھمبیر صوتحال سے دوچار ہیں جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے ہم پستی کی طرف جارہے ہیں چہ جائکہ یورپی ممالک کی جدید کاوشوں اور تحقیقی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے اور اپنے معاملات کو جدت بخشتے اور ان خرابیوں اور کمزوریوں کا ازالہ کرتے جو ہمیں تنزلی کی طرف لے جار ہی ہیں ہمارا امتحانی نظام بڑی بُری طرح پامال ہورہا ہے “بوٹی ازم “دیمک کی طرح کا م دکھا رہا ہے اس نظام پر کرپٹ مافیا کا قبضہ ہے امتحانی کمروں کے علاوہ پیپر ایگزامینروں نے بھی اپنا قبیح نظام قائم کر رکھا ہے پہلے پہل جنرل ایجوکیشن کے امتحانات میں یہ آفتیں اور بلائیں اپنا کام دکھا رہی تھیں اب فنی تعلیمی بورڈ کی طرف سے منعقد ہونے والے امتحانات میں بھی وہ سب کچھ ہورہا ہے جو پہلے نہ تھا امتحانات پر متعین انتظامیہ پیسہ کمانے پر لگ گئی ہے طلباء کی جیبیں چیک کرکے جو کچھ ہوتا ہے نکال لیا جاتا ہے نقل لگوانے کیلئے وی آئی پی کمرہ کا انتظام کیا جاتا ہے جہاں طالب علم کو ہر نوع کی سہولت حاصل ہوتی ہے مجھے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ ریاضی میں فیل ہوگیا تھا ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑرہاتھابعد ازاں میں نے ایک ٹاؤٹ کے ذریعے امتحان کے نگران اعلیٰ سے رابطہ کیا 8ہزار میں معاملہ طے پایا اور اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کر لی یہی حال ان فنی تعلیمی اداروں کا ہے جہاں عملی تجربات کی کوئی ضرورت نہیں عملی امتحانات اداروں کے پرنسپل خود لیتے ہیں سرکاری ہوں یا پرائیویٹ بس طلباء کے مزے ہی مزے ہیں میں خود ایک پرائیویٹ ادارے کا پرنسپل رہا ہوں اس نوع کے امتحانی نظام نے مجھے پریشان کیا سختی کرنے پر طلباء گریبان پکڑنے کو آئے سرکاری اداروں کے طلباء کی امتحانات میں تین تین مضامین میں سپلیاں آئیں جبکہ پرائیویٹ اداروں کے میٹرک تھرڈ ڈویژن طلباء اے گریڈ اور پلس گریڈ میں کامیابی حاصل کریں کتنا عجیب لگتا ہے ایسا نظام دیکھ کر بڑا دُکھ ہوتا ہے کہ آج تک کسی ذمہ دار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی سرکاری انسٹی ٹیوشینز میں عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے طلباء کو پریکٹیکلز بہت کم کروائے جاتے ہیں کاغذی پیٹ بھرنے کا طریقہ تجربہ کا ر سٹاف کو آتا ہی ہے میرے شہر میں ایک پرائیویٹ ٹیکنیکل کالج ہے جہاں پرنسپل نہیں ہے اور ٹیچنگ سٹاف کا فقدان بھی ہے جبکہ امتحانات میں طلباء اچھے نمبروں میں پاس ہوتے ہیں مثبت نتائج کی وجہ سے اس کالج میں داخلے کی تعداد بڑھ جاتی ہے اس کالج میں عملی تجربات کیلئے نہ ہی مناسب اوزار ہیں اور نہ ہی انسٹر یومنٹس ہیں انسپکشن کے وقت ادھار لے کر کام اوکے کروالیا جاتا ہے اور بعد ازاں سب کچھ واپس کردیا جاتا ہے طلباء کو اِ دھر اُدھر کی باتوں سے مطمئن کردیاجاتا ہے سرکاری اداروں میں خام مال کی کمی کی وجہ سے تربیتی کمزوریاں عام طام ہیں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قصور ، اوکاڑہ اور دیپالپور کا میں از خود جائزہ لے چکا ہوں جہاں عملی تربیتی کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے طلباء کی صلاحیتیں اندھے پن کا شکار ہیں بعض شعبے ایسے ہیں جہاں طلباء داخل ہی نہیں ہوتے جبکہ متعلقہ سٹاف کو بھاری تنخواہیں بد ستور ملتی رہتی ہیں کوئی کام ہو نہ ہو انکی چاندی ہے دکھ اس بات ہے ایسی خامیوں ، کمزوریوں اور بے قاعد گیوں کا کوئی آفیسر نوٹس نہیں لیتا ڈسٹرکٹ مینجر بھی لکیر کے فقیر ہیں جو سب او کے کرکے مطمئن ہوکر چلے جاتے ہیں ہیڈ کوارٹر سے آنے والے بھی پیاس مٹا کر خوشی خوشی واپسی کر لیتے ہیں کوئی بھی ایسا نہیں جو خامیوں ، کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لے اور سخت نوٹس لے میرے دور میں ایک آدھ ایسے ڈسٹرکٹ مینجر تھے جو سخت نوٹس لیتے اور مسائل و مشکلات کے تدراک کے لئے جامع اقدامات اٹھاتے آج کل تو کاغذی کاروائی کے علاوہ اور کچھ نہیں بورڈ آف مینجمنٹ بھی نام کے ہیں انکی کارکردگی زیرو دیکھی گئی ہے ایسے اجلاس نا پید ہوچکے ہیں جہاں کوئی ٹھوس تجاویز منظور کی جاتی ہوں میں متعدد بار ایسی میٹنگوں میں اپنی تجاویز دیتا رہا ہوں جو آج بھی فائلوں میں گھومتی نظر آتی ہیں میں نے کئی بار اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن متعلقہ افسران نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہمارے ان اداروں سے ریٹائرڈ ہونے والے کئی ایک ملازمین اور افسران ہیں جن کو بورڈ آف مینجمنٹ میں شامل کر کے اداروں کی کارکردگی کو فعال بنا یا جاسکتا ہے مگر افسران ایسا کرنے سے قطعی قاصر ہیں وہ “ڈھنگ پٹاؤ “کی پالیسی پا گامزن ہیں جب تک ہم نظام تعلیم میں جدت اور امتحانی نظام کو خرابیوں اور با قاعدگیوں سے پاک نہیں کرتے ان اداروں کے فارغ التحصیل طلباء کو بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے رہنا ہوگا مارکیٹ میں ان اداروں سے فارغ ہونے والے طلباء کو نوکریاں نہیں مل رہیں انڈسٹری کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں سے فارغ ہونے والے طلباء ہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتے سینچری پیپر مل کے ایک مینجر نے بتایا کہ آپکے سرکاری ادار ے ہماری ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے شعبے یا تو بند ہوجائیں جہاں داخلوں کا فقدان ہے یا پھر ان شعبوں میں بھاری وظائف دے کر چا شنی پیدا کی جائے جس ادارے کا سربراہ جُز وقتی ہوگا اس ادارے کاحال بھی تو پتلا ہی ہوگا ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress主题