دراصل جیتا ہے کون 

Published on September 21, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 430)      No Comments

تحریر ؛ ڈاکٹر ایم ایچ بابر 
سترہ ستمبر2017ء کو لاہور کے حلقہ این اے 120میں گھمسان کا سیاسی معرکہ یعنی الیکشن ہوا جس میں سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کامیاب ہوئیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد مفتوح قرار پائیں ماضی میں پاکستان کے وفاق کی علامت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر تو اپنی ضمانت تک ضبط کروا بیٹھے ۔قارئین کرام اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حلقہ انتخاب میں درحقیقت جیتا کون ہے اور شکست کس کا مقدر بنی ؟عرض یہ ہے کہ اس حلقہ میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ بیس ہزار ہے اور جس امیدوار کو عوام کا نمائندہ ٹھہرایا گیا اسکے ووٹوں کی تعداد ہے 61745 یعنی کل ووٹوں کا ایک چوتھائی بھی نہیں بنتا اگر حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 80ہزار سے زائد ہوتی تو ایک چوتھائی ووٹ بنتے تھے اور کسی بھی حلقہ کی نمائندگی کا حق تو اس کا بننا چاہیئے جو کم از کم کل ووٹوں کا نصف تو حاصل کرے تب تو ہوا وہ اس حلقہ کی عوام کا چنیدہ لیڈر مگر یہاں حالات یکسر مختلف ہیں کسی بھی امیدوار نے نصف تو کیا ایک چوتھائی ووٹ بھی حاصل نہیں کیئے دوسرے نمبر پر آنے والی امیدوار پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد جن کے حاصل کردہ ووٹ 47099رہی یعنی کل ووٹوں کا آٹھواں حصہ انہیں رنر اپ کہہ دیا گیا حالانکہ جو جیتا ہے اس کا کوئی نام بھی نہیں لے رہا دراصل اس حلقہ میں کامیاب ہوئی ہے یہاں کی دو لاکھ عوام جنہوں نے کسی بھی امیدوار کو لیڈری کے قابل نا گردانتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا ۔آپ ذرا غور فرمایئے گا کہ صرف ایک لاکھ چھبیس ہزار ووٹرز نے نا جانے کونسی مجبوری کے تحت ووٹ کاسٹ کر دیا باقی دو لاکھ کے قریب ووٹرز نے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں جانی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو لاکھ ووٹرز کی رائے کون جانے ؟کون ہوا ان کا چنیدہ نمائندہ ؟ کلثوم نواز ؟ یاسمین راشد ؟شیخ اظہر حسین ،شیخ یعقوب ،فیصل میر یا جماعت اسلامی کا امیدوار میری رائے کے مطابق اگر دیکھا جائے تو دو لاکھ نفوس نے تو اس الیکشن کا بائیکاٹ کر کے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی انکی راہنمائی کے لائق نہیں ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ (ن) لیگ نے ساری حکومتی مشینری اس حلقہ میں جھونک دی ، نوکریوں کی اندھا دھند شرینی سے حلقہ کے ووٹروں کو لبھایا ، ترقیاتی کام الیکشن اناؤنس ہونے کے بعد بھی جاری و ساری رہے ، تمام وفاقی و صوبائی وزراء اس حلقے میں الیکشن کمپئین چلاتے رہے (ماسوائے وزیر اعلیٰ پنجاب اور حمزہ شہباز کے ) یہاں تک کہ بلدیاتی کونسلرز بھی بڑی تندہی اور جانفشانی سے لوگوں کو قائل کرتے ہوئے نظر آئے دوران کمپئین اس حلقہ میں لوڈشیڈنگ بھی بالکل نہیں ہوئی اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا اپنے ہی حلقے میں اپنے ہی تیس ہزار ووٹرز کا ووٹ کاسٹ نا کرنا (ن) لیگ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے بعینہ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں قریبا چھ ہزار ووٹ گنوائے ہیں اور پیپلز پارٹی کو تو لگتا ہے کہ اب زیرو سے دوبارہ اسٹارٹ لینا پڑے گا اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی اس حلقہ میں کوئی سیاسی تیر نہیں مارا بلکہ ان کا امیدوار بھی پی پی پی کی طرح اپنی ضمانت بحق سرکار ضبط کروا بیٹھا ہے ۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ دو لاکھ کے قریب ووٹرز نے سب پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ووٹ دینا ضروری نہیں سمجھا ۔ اگر تو جمہوری ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو کوئی بھی امیدوار اکیاون فیصد ووٹ نہیں لے پایا اس حلقے کا تو ٹوٹل ٹرن آؤٹ 39.42 فیصد رہا ہے تو پھر یہ کہہ دینا کا یہ حلقہ فلاں پارٹی کا گڑھ ہے کچھ عجیب سا نہیں لگتا۔ واہ واہ صاحبان عقل و خرد پھر بھی ہم لوگ ڈھونگرے پیٹ رہے ہیں کہ حلقہ کی عوام نے عدالتی فیصلے پہ فیصلہ سنا دیا ہے ،عوام نے عدالتی فیصلے کے خلاف ووٹ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ میاں صاحب کی نا اہلی غلط فیصلہ تھی تو جناب من تین لاکھ بیس ہزار میں سے اگر اکسٹھ ہزار نے آپ کو ووٹ دے دیا ہے تو باقی دو لاکھ اٹھاون ہزار دو سو پچپن نے عدالتی احکامات کی توثیق نہیں کر ڈالی ؟ این اے 120 کے ان دو لاکھ کے قریب ووٹرز کی رائے کو یہ تمام پارٹیاں کس کھاتے میں ڈال رہی ہیں ؟ جنہوں نے نا نواز شریف کی پارٹی کو چنا ، نا عمران خان کی پارٹی کو ووٹ دیا اور نہ ہی پیپلز پارٹی سمیت کسی اور پارٹی کو اس قابل سمجھا کہ ووٹ دے دیتے ۔ اتنے کم ٹرن آؤٹ والے حلقے کے الیکشن کو تو ویسے ہی کالعدم قرار دے دینا چاہئے تھا جناب ۔ کیوں ان دو لاکھ ووٹرز کی رائے کو اہمیت نہیں دی جا رہی جنہوں نے ملکی اداروں کی بالا دستی ،عدلیہ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے اور پاک فوج کے خلاف دبے لفظوں میں یا کھلے لفظوں میں بولنے والوں سے بیزاری کا اظہار ووٹ کاسٹ نہ کر کے کیا ہے اس وقت تک کوئی ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہی نہیں ہونا چاہئے جب تک اسکو اسکے حلقے کے پچاس فیصد لوگ منتخب نا کریں ۔ارے بابا عوام کی رائے سے ہی عوامی (جمہوری ) حکومت بنتی ہے اور پھر جو حکومت عوام کے لئے کام کرے اسے ہی تو جمہوری حکومت کہیں گے نا ؟اور اگر حلقے کی دو لاکھ عوام ووٹ دینا مناسب نا سمجھے اور پچاس ساٹھ ہزار ووٹ لینے والے ان پر مسلط ہو بیٹھیں تو کیا اسے عوام کی رائے تسلیم کر لینا چاہئے ؟ میرے خیال میں بالکل بھی نہیں کم از کم ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹوں کا اکیاون فیصد ووٹ لینے والا ہی حلقہ کی عوام کا انتخاب اور ان کی نمائندگی کے اہل ہونا چاہئے ورنہ وہ نا تو عوامی نمائندہ ہو گا نا ایم این اے نا ایم پی اے حتیٰ کہ کونسلر تک وہی حقیقت میں عوام کا چنیدہ ہونا چاہئے جسے اس کے حلقہ کے اکیاون فیصد سے زائد ووٹرز کی حمائت حاصل ہو ورنہ فضولیات ۔ جمہوریت بھی بس ایسے کہنے میں ہی ہو گی اصل جمہوریت تو تمام حلقے کی نا سہی کم از کم پچاس فیصد رجسٹرڈ ووٹرز کی حمائت کا حامل تو ہو عوامی لیڈر ورنہ وہ عوامی نہیں بس ہنگامی لیڈر ہی سمجھا جائے گا ۔ لہٰذا بات ہو رہی تھی حالیہ الیکشن لاہور کی تو جناب میرے خیال کے مطابق تو ابھی تک اس حلقے میں کوئی بھی نہیں جیتا عدلیہ جیتی ہے قانون کی پاسداری جیتی ہے، ملک و ملت سے وفا داری جیتی ہے اور اس حلقہ کی وہ دو لاکھ عوام جیتی ہے جس نے اپنا ووٹ کاسٹ نا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ دباؤ میں آکر کسی کو ووٹ دینے سے بہتر ہے ووٹ دیا ہی نا جائے ،کسی کی مخالف پارٹی کو ووٹ دے کر دشمنی پالنے سے بہتر ہے ووٹ دیا ہی نا جائے اور ایسا ہی ہوا ۔جب تک کوئی امیدوار اکیا ون فیصد ووٹ حاصل نہیں کرتا اسے اسمبلی میں عوامی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہونا چاہئے لہٰذا میری نظر میں تو اس الیکشن کو العدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کروائے جائیں اور دو لاکھ ووٹرز کو آزادانہ رائے دینے کا موقع دینا چاہئے جنہوں نے اللہ جانے کس خوف کے زیر اثر ووٹ نہیں دیا تب تو ہوگا کہ عوام کی رائے کو اہمیت دی گئی فلاں جیت گیا فلاں نے شکست کھائی ۔ اب تو ایسا نہیں کہا جا سکتا نا ؟اکیاون فیصد ووٹ لینے تک کوئی کسی بھی حلقہ کی عوام کا چنیدہ نمائندہ نہیں ۔ قارئین کرام اس میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا آپ میری بات سے متفق ہیں ؟ 

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes