صححہ البيت الابيض

Published on September 30, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 408)      No Comments

وہائٹ ہاوس نے اس کو صحیح و مستند قرار دیا ہے
بقلم : ابوالوفا الہندی
محدثین کے ہاں رواج ہے کہ جب کسی حدیث کا مقام و درجہ بتانا ہوتا ہے تو کہتے ہیں : ’’صححہ فلان‘‘، یعنی فلان امام یا محدث نے اس روایت کو صحیح و مستند قرار دیا ہے.محدثین کے ہاں اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ امام بخاری و مسلم نے جن حدیثوں کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے ؛ وہ تمام ہی صحیح و متسند ہیں ، گویا ان روایتوں کے بارے میں صرف یہ کہ دینا کافی ہوگا کہ یہ صحیح بخاری یا مسلم میں ہیں، اس کے بعد کسی محدث کے قول کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہ جاتی. مگر سرزمین حجاز کے ایک ناپختہ ذہن اور کج خیال گروہ نے ایک بدعت کو رواج دیا، ہوا یوں کہ بخاری و مسلم کی حدیثوں پر بھی بعض معاصر اہل علم کی رائے پیش کی جانے لگی، جو بجا طور پر رائے زنی اور احمقانہ جرات تھی،اور یقینا اس سے بخاری و مسلم کے وقار و اعتبار پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی. جہان علم کے صحرا نوردوں اور میخانہء معرفت کے میخواروں نے اس روش کو سخت ناپسند کیا ، اور اس کا علمی محاسبہ بھی کیا ۔ مگر ایک ’’دبستان فکر‘‘کی طرف سے اس کج روی اور حماقت پسندی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی ؛ بلکہ اس کی پیروی اور’’اندھی اتباع و تقلید‘‘ آج بھی کی جاتی ہے۔شنید ہے؛ بلکہ یہ بات اب پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کے ’’سیاہ کردار سفید گھر‘‘ کے اشتراک سے نصابی کتابوں کی تجدید کی ٹھانی ہے، ریاض سعودی عرب میں اس کا مستقل دفتر بن چکا ہے۔ اس ’’تجدیدی عمل‘‘ کا مقصد اسلامی نصابی کتابوں میں شدت پسندی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے عناصر کی تلاش و اصلاح ہے، گویا اب تک امریکہ؛ صرف ’’شاہان مملکت‘‘کا قبلہ ہوا کرتاتھا ، اور اب دیار حرم کے نصاب ونظام کا قبلہ بھی امریکہ ہی ہوگا۔ انہیں کے چشم و ابرو کے اشاروں سے؛ سیاہ و سفید کا فیصلہ کیا جائے گا، گل و لالہء افرنگ سے اسلامی علوم کا عطر کشید کیا جائے گا اور میخانہء مشرق میں مغرب کی ’’شراب طہور‘‘ کا دور ہوگا ۔ بالفاظ دیگر علوم اسلامی کے نصاب پر جب تک ’’صححہ البيت الأبيض‘‘ (وہائٹ ہاوس نے اس کو صحیح و مستند قرار دیا ہے) كکی مہرتصدیق ثبت نہ ہوجائے وہ قابل قبول نہیں ہوگا!!!گویا پیشتر حدیث و سنت کے ساتھ یہ عامیانہ اسلوب اختیار کیا گیا تھا اور اب سرے سے تمام اسلامی علوم کی بخیہ ادھیڑ نے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس بے غیرتی اور ایمان فروشی پر جتنا بھی نوحہ کیا جائے کم ہے۔یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ سعودی عرب کے حکمراں اپنی اصل بنیادوں سے دور ہوچکے ہیں، ان میں ملی و قومی غیرت و حمیت کی رمق تک باقی نہیں رہی، اب ان کا وجود و نمود امریکی آقاؤں اور مغربی فرماں رواؤں کے زیراثر ہے، اس لیئے ان کی حیثیت محض ’’بندھوا مزدور‘‘ کی سی ہے۔ان حالات میں ان سے کوئی اچھی امید اور مثبت کردار کی توقع رکھنا بے وقوفی اور عاقبت نااندیشی ہی ہوگی۔ ہندوستان میں بھی مدارس کی ’’تجدیدکاری‘‘ کی صدائے بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے، اور پیہم کوشش بھی کی جارہی ہے، مگر برصغیر کے قافلہء علم کے تاجدار و سالار (امام محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ) نوشتہء دیوار پڑھنے کا ہنر جانتے تھے، اس لیئے انہوں نے دینی مدارس کے نصاب و نظام کو ارباب اقتدار کی زلف پیچدار سے دور رکھا، اور اس زلیخائے ہوش ربا سے وصال کے بجائے فراق کی دعا کی، حقیقت یہ ہے کہ اسی ’’مرد ہوش مند‘‘ کی وجہ کر آج ہم اپنے خالص اسلامی نصاب و نظام کے پابند ہیں اور ہر طرح کی سرکاری مداخلت اور دباؤ سے بلند ہیں ۔ کاش سرزمیں عرب کے ان ’’چرواہوں‘‘ کو اقبال کی یہ درد انگیز صدا سنائی دے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں​ * یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

 

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy