ہزارہ ڈویژن کے نامور ہدایتکاروفنکار امجد خان سے یو این پی کی خصوصی نشست

Published on March 13, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 2,007)      4 Comments

amj
انٹر ویو۔۔۔ راشد علی اعوان
معاشرے کی تشکیل اور افزائش میں جہاں دیگر قدرتی عوامل کا عمل دخل رہتا ہے وہیں معاشرے کے افراد بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں،معاشرہ کس سمت میں آگے بڑھے گا اس بات کا انحصار بھی افراد کے کردار پر ہے اور معاشرے کی بہتری کیلئے بحثیت مجموعی فن سے وابستہ افراد کا کردار نہایت اہم اور ناقابل فراموش ہے،فنکار معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو معاشرے کی باریکیوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور معاشرے کی نوک پلک سنوارنے میں ہمہ تن محو رہتے ہیں آج ہم ایک ایسے ہی ایک فرد سے ملاقات کر رہے ہیں جو فن کی دنیا سے وابستہ ہیں اور گزشتہ بائیس سالوں سے اپنی خداد صلاحیتوں کی بدولت دنیا فن کی خدمت میں مصروف ہیں،تھیٹر ٹی وی اور فلم کے میڈیم سے ان کی وابستگی کے طویل عرصے کے دوران انہوں نے بے شمار تھیٹر پلے،ٹی وی ڈراموں کامیڈی شوز اور ٹیلی فلموں میں اپنے فن کا لوہا منوایا اور حال ہی میں ملک و قوم کی خدمت کے جزبے سے سرشار ہو کر امن و محبت کے پیغام کو پوری دنیا میں پہنچانے کیلئےَ سُنہیا تھیٹر کی بنیاد رکھی ہمارے آج کے مہمان امجد خان بطور اداکار و ہدایتکار تو اپنے فن کا لوہا منوا ہی چکے ہیں اور اب وہ تھیٹر کے ذریعے معاشرے کی خدمت کا ارادہ رکھتے ہیں آیئے اُن سے ملاقات کرتے ہیں اور سوالاً جواباً ان کے کیرئیر اور مستقبل کے حوالے سے جانتے ہیں۔
یو این پی: امجد خان صاحب سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ زندگی میں سب سے پہلے اداکاری کب اور کہاں کی؟
امجد خان: بہت شکریہ جناب کہ آپ نے مجھے اپنے بارے میں کچھ کہنے اور میرے چاہنے والوں کو میرے حوالے سے جاننے کا موقع فراہم کیا،میرا بنیادی طور پر تعلق ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے ایک خوبصورت گاؤں بسیاں سے ہے، جہاں تک صرف اداکاری کی بات ہے تو میں نے سب سے پہلے اداکاری اس وقت کی جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو تب میں اور میرا چچا زاد بھائی ایک ہی گھر میں رہتے تھے اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے تو میں اور وہ آپس میں کھیلتے کھیلتے شدید زخمی ہو گئے تھے وہ اس لیے کہ میرا چچا زاد بھائی نعیم مصطفیٰ قریشی جبکہ میں سلطان راہی بنا ہوا تھا اور کھیل کود میں ایک دوسرے کو حقیقت میں ایک دوسرے کو ڈنڈوں سے مارتے رہے ،غالباً1986کے دوران ہم ایبٹ آباد شفٹ ہو گئے ،ایبٹ شفٹ ہونے کے بعد جب میں میٹرک میں تھا تو تب گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1کی سالانہ تقریب کے موقع پر میں نے خود ہی ایک سٹیج ڈرامہ لکھا بھی،ہدایت بھی دیں اور خود اداکاری بھی کی اور باقاعدہ طور پر کمرشل سٹیج ڈرامہ1994میں ہزارہ کے نامور اداکار طارق خان مرحوم نے مجھے پہلی بار اپنے ڈرامہ مسٹر بھولا میں اداکاری کا موقع فراہم کیا ۔
یو این پی: یعنی کہ آپ پیدائشی اداکار ہیں؟اچھا یہ بتائیں کی ٹی وی پر سب سے پہلے کب اور کون سے ڈرامہ یا پراگرام میں حصہ لیا؟
امجد خان:الحمد اللہ ٹی وی پر بھی1994میں ہی کام کا موقع ملا پی ٹی وی پشاور مرکز سے ایک ٹیلی تھیٹر پلے تھا پہاڑوں کے دکھ جس کے پروڈیوسر عقیل احمد صدیقی صاحب تھے جس میں ایک چھوٹا سا کردار کرنے کو ملا۔
یو این پی: اداکاری کے شوق میں کہاں کہاں کی خاک چھانی؟
امجد خان؛یہ ایک مشکل سوال ہے اور پھر اداکاری کے شوق میں نہ کہیں بلکہ اداکاری کے جنون میں کہیں ،بہرحال پشاور،لاہور اور کراچی تک اپنے خواب کی تکمیل کیلئے سفر طے کیے اور پھر لاہور کو بہتر جگہ سمجھ کر سات سے آٹھ سال کا عرصہ لاہور میں گزارا۔
یو این پی: زبردست جناب! اچھا تو پھر آپ نے لاہور میں کس کے زیرسایہ کام کا آغاز کیا؟
امجد خان؛ میری خوش قسمتی یہ تھی 1999میں پی ٹی وی کے سابق ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر شاہد محمود ندیم صاحب ایبٹ آباد آئے ہوئے تھے اور میری ملاقات ان سے ارشد عباسی صاحب نے کروائی اور ان کی ڈرامہ سیریل غیرت سے میں نے بطور پروڈکشن اسسٹنٹ ان کے زیرسایہ کام کا آغاز کیا اور پھر ایبٹ آباد سے ان کے کام کا اختتام ہوا تو مین بھی ان کے ہمراہ لاہور چلا گیا اور پھر تقریباً سات سال تک ان ہی کی زیر نگرانی بطور پروڈکشن اسسٹنٹ،بطور پروڈکشن منیجر اور پھر ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا اور بطور اداکار بھی ان کے بے شمار پراجیکٹ کیے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
یو این پی: جن جن پراگرامون میں آپ نے بذات خود حصہ لیا ان کے نام تو بتائیں تاکہ ہمیں اور قارئین کو بھی معلوم ہو سکے۔
امجد خان: جی ضرور کیوں نہیں،سب سے پہلے تو میں نے ڈرامہ سیریل غیرت میں بطورپروڈکشن اسسٹنٹ کام کیا جو کہ2001میں انڈس ٹی وی پر آن ائیر ہوا تھا اور پھر ڈرامہ سیریل خوشحال پورہ جو کہ52اقساط پر مشتمل ایک مزاحیہ سیریل تھی اور 2003میں جیو نیوز پر ٹیلی کاسٹ ہوئی اس میں بطور پروڈکشن منیجر اور بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے فرائض سرانجام دیے اور اداکری کے جوہر دکھانے کا بھی52اقساط کے دوران ملا،اس کے علاوہ دو اردوٹیلی فلمزایک مجاہد جو کہ 23مارچ 2005کو پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہوئی جبکہ دوسری فلم سہارا جو کہ نامور گلوگار ابرار لحق صاحب کی پروڈکشن تھی مگر تحریر و ہدایات شاہد ندیم صاحب کی تھیں اس میں میں بھی جاندار کردار ادا کیا۔
یو این پی: شاہد ندیم صاحب کی اپنی کوئی ذاتی پروڈکشن بھی تھی؟
امجد خان: جی بالکل ان کا اجوکا پروڈکشن اور اجوکا تھیٹر کے نام سے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارہ ہے اس ادارے کی رورواں معروف ہدایتکارہ واداکارہ مدیحہ گوہرہیں اور خوش قسمتی سے وہ شاہد ندیم صاحب کی زوجہ محترمہ بھی ہیں،میرے لیے یہی ادارہ ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے جہاں میں نے اپنے اسی شعبے کی ابتدائی گُر سیکھے اور میرے کیرئیر پر اسی ادارے کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل بھی ہے۔
یو این پی: پھر تو آپ نے تھیٹر میں بھی اپنی قسمت آزمائی کی ہوگی؟
امجد خان: جی کیوں نہیں اس معاملے میں میں اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ مجھے جو اکیڈمی سیکھنے کیلئے ملی وہ بلاشبہ سیکھنے کے عمل میں ایک انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ کا درجہ رکھتا ہے اور میں نے مدیحہ گوہر کے زیر سرپرستی بہت سے تھیٹر پلے بطور پروڈکشن منیجر اور اداکار کیے جن میں مریا ہویا کُتا،نکی ،کالا مینڈاں بھیس،بالا کنگ،پیروپریمن اور خاص طور سٹیج ڈرامہ بُلہا جو کہ معروف صوفی بزرگ بابا بُلہے شاہ کی زندگی پر مبنی ڈرامہ تھا ان میں کام کرنے کا بہت مزا آیا۔
یو این پی: اجوکا اور شاہد ندیم صاحب کے علاوہ کسی اور کیساتھ بھی کام کرنے کا اتفاق ہوا؟
امجد خان: ہاں جی بالکل میں نے عابد علی کی ڈرامہ سیریل سائبان شیشے کا جسے حسن نثار نے تحریر کیا اور معروف اداکار و ہدایتکار عابد علی ساحب نے ہدایت دیں اسمیں بطور پروڈکشن منیجر کام کیا،اور ان کے علاوہ میڈیم شیریں پاشا کی ڈاکومنٹری پیاری ہُماں اور مزاحیہ ڈرامہ سیریل ہوٹل لکی سٹار میں بطور اداکار اور پروڈکشن منیجر کے کام کیا۔
ط: پاکستان سے باہر بھی کسی دوسرے ملک میں پرفارمنس کا موقع ملا ہے؟
امجد خان: باالکل جی ،اللہ پاک کے فضل کرم اور اپنی ماں کی دعا سے مجھے پانچ بار پڑوسی ملک بھارت جا کر تقریباً پندرہ مختلف شہروں جن میں امرتسر،پٹیالہ،چندی گڑھ،لدھینا،جالندھر،شملہ،آگرہ،فریدکوٹ،ملیر کوٹلہ،نئی دہلی اور جموں جا کر اپنے فن کے مظاہرے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔
یو این پی: واہ جی کیا بات ہے،ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ کے حصہ میں کچھ ایسے اعزازات بھی آئے جو کہ پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں کسی دوسرے اداکار کے حصہ میں اب تک نہیں آ سکے،کیا یہ سچ ہے؟
امجد خان: میرے رب کے کرم سے یہ بات باالکل حقیقت ہے کہ اللہ پاک نے میرے حصے میں کچھ ایسے اعزازات ڈالے جو کہ پورے صوبہ میں کسی کے پاس نہیں،جن میں
نمبر1: ناٹ شالا آرٹ اکیڈمی امرتسر انڈیا سے بطور اداکار دو بارآؤٹ سٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ 2004اور2005ملے
نمبر2: ورلڈ پنجابی کانفرنس 2004نئی دہلی انڈیا میں بطور اداکار شرکت کی ۔
نمبر3: نیشنل سکول آف ڈرامہ تھیٹر فیسٹول 2004میں بطور اداکار شرکت کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
نمبر4: آئی سی سی آر یونیورس آف کلچر کمانی آڈیٹوریم نئی دہلی انڈیا کے پروگرام میں پرفارم کیا ۔
نمبر5: ورلڈ پرفارمنگ آرٹ فیسٹول 2003لاہور میں پرفارم کیا۔
نمبر6: ہندکو زبان کو پوری دنیا میں روشناس کروانے کیلئے پاکستان کی تاریخ کی پہلی ہندکو فلم رات جندرے تے بطور پروڈیوسر اور اداکار بنا کر ہزارے وال قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔
نمبر7: 2004میں اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس میں بطور اداکار شرکت کی ۔
نمبر8: 14 مئی2011میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہندکو فلم فیسٹول ایبٹ آباد میں منعقد کر کے تاریخ رقم کی۔
یہ تمام اعزازات اللہ پاک نے پورے صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اداکاروں میں سے صرف میری جھولی میں ڈالے،ویسے تو میں ہزارہ کے بیشتراداکاروں سے جونئیر ہوں اور زیادہ مجھ سے سینئر ہیں،سب میرے لیے قابل احترام ہیں اور استادوں جیسے ہیں اور مجھ سے کہیں زیادہ کام بھی کر چکے ہیں اور کام کو سمجھتے بھی ہیں،میں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ،بس اللہ پاک کا خاص کرم اور مجھ پر نوازی ہے ۔
یو این پی: واہ جی مزہ اا گیا!ان پراجیکٹس کے علاوہ بھی کہیں کام کیا ہے اور وہ کون سے پراجیکٹ ہیں؟
امجد خان؛ اس کے علاوہ کاشف نثار لاہور کے منجھے ہوئے دائریکٹر ہیں ان کے2پراجیکٹ میں بطور اداکار کام کرنے کا موقع ملاایک درامہ سیریل قبضہ جو کہ 52اقساط پر مشتمل تھی اور جیو نیوز پر پہلی کاسٹ ہوئی میرا اس مین ولن کا کردار تھا پھر آئی ایس پی آر کے پراجیکٹ فصیل جاں سے آگے میں طالبان کے کمانڈر کا کردار ادا کیا،یہ پی ٹی وی پر آن ائیر ہوا تھا،اس کے علاوہ پی ٹی وی لاہور مرکز سے پنجابی پراگرام میلہ اور اردو پروگرام فنگامہ میں ون مین شو پیش کیے،پشاور سنٹر سے صرف ایک ہندکوڈرامہ سیریل ساوی چھاں میں انسپکٹر کا کردار ادا کیا جس کے پروڈیوسر اورنگزیب آفریدی اور لکھاری مسعود انور خان تھے۔
یو این پی: بطور اداکار تو آپ نے کام کیا اور بطور ہدایتکار بھی آپ کے کافی پراجیکٹ منظر عام پر آئے اور پھر چھائے ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
امجد خان: بطور ہدایتکار تو صرف ہندکو ٹیلی فلموں میں ہی موقع ملا،جن میں ہندکو ٹیلی فلم اڑیاں سرکاری آرڈر،نیلی تراڑ ،کھرک اور جنج قابل ذکر ہیں،جن میں میری اداکاری کے ساتھ ساتھ میری ڈائریکشن کو بھی سراہا گیا،ویسے تو میں خود بھی ابھی سیکھنے کے مرحلے سے گزر رہا ہوں مگر ہزارے وال قوم نے بہت حوصلہ افزائی کی یہ ان کی محبت ہے۔
یو این پی: آج کیا سرگرمیاں جاری ہیں؟
امجد خان: آج کل ایک تو جیو نیوز کے پروگرام ہم سب امید سے ہیں میں صدر پاکستان ممنون حسین اور سابق گورنر پنجاب چوھدری سرورکا کردار کر رہا ہوں اور اس کے علاوہ ہزارہ ڈویژن بلکہ پورے سوبہ خیبر پختونخواہ میں جس چیز کی کمی کو میں نے محسوس کیا ہے وہ نان کمرشل تھیٹر ہی ہے،جیسے اجوکا تھیٹر،رفیع پیر تھیٹر اور آزاد تھیٹرلاہور میں کام کر رہے ہیں،ایسے ہی کے پی کے میں ضروری سمجھا اور سُنہیا تھیٹر کے نام سے اپنے فنکار دوستوں سے مل کر ایک تھیٹر گروپ تشکیل دیا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے،سُنہیا ہندکو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پیغام ہیں یہ مکمل نان کمرشل تھیٹر ہے جس کے زریعے تھیٹر کی صورت میں مختلف موضوعات پر لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائیگی۔
یو این پی: ہزارہ کی ثقافت اور ہندکو زبان کو پوری دنیا میں روشناس کروانے میں آپ کا بہت اہم کردار رہا کیا حکومتی سطح پر آپ کو اس کام میں تعاون حاصل تھا؟
امجد خان: صرف ایک بار جب صاحبزادہ محمد انیسصاحب شہید2011میں کمشنر ہزارہ کے طور پر آئے تو ہم نے اسامہ بن لادن کے واقعہ اور ایبٹ آباد آپریشن کے پس منظر مین پنپنے والی کہانیوں اور آپریشن کے بعد ہزارہ خاص کر ایبٹ آباد میں میڈیا کی جانب سے بے جا اور بے تکے انداز میں آپریشن کی غلط تصویر سامنے لائے جانے سے خوف ہراس کی اس لہر کو ختم کرنے کیلئے اس وقت ہندکو فلم فیسٹول کیلئے انہوں نے اپنی زاتی جیب سے50ہزار روپوں کا تعاون کیا تھا اس کے علاوہ دیگر حکومتی نمائندے یا ہمارے سیاسی رہنما تو ہزارہ کی ثقافت اور مادری زبان ہندکو ازل سے اب تک بے خبر ہیں،وہ بے چارے نالی اور نلکے کی سیاست سے باہر آئیں گے تو انہین معلوم ہو گا کہ اپنی ثقافت،رسم رواج اور اپنے مہذب معاشرے و مادری زبان ہندکو کے بچاؤ کیلئے انہیں کیا کرنا چاہیے،یہ لوگ تو ثقافت صرف ناچ گانے کو ہی کہتے ہیں،کسی بھی سیاستدان نے کبھی بھی کسی بھی پلیٹ فارم سے ہزارہ کی ثقافت اور ہندکو زبان کے فروغ کیلئے کام کرنا تو درکنار بات کرنا بھی گوارہ نہیں کی،ہزارہ کی ثقافت اور ہزارہ کی زبان کو تو صرف ہزارہ کے ادیبوں،لکھاریوں ،اداکاروں،گلوکاروں نے زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ یہ تو کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔
یو این پی: آپ کا موجودہ ھکومت سے کوئی مطالبہ ہے؟
امجد خان: شکوے تو بہت ہیں مگر مطالبے پر ہی گزارہ کرتے ہیں،میرا وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب سے اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب پرویز خٹک ساحب سے ہزارہ کی پوری قوم کی جانب سے پرزور مطالبہ ہے کہ ہزارہ میں پی ٹی وی سنٹرکا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے ،اس سے نہ صرف فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ پوری ہزارے وال قوم کی شناخت بحال ہوگی اور ہزارہ کی ثقافت،رہن سہن اور رسم ورواج کے بارے میں دنیا کو پتہ چلے گا۔
یو این پی: آپ کے پسندیدہ کونسے پاکستانی اداکار ہیں؟
امجد خان: یوں تو سبھی بہت اچھا کام کرتے ہیں ،سب اپنی اپنی جگہ اپنی مثال آپ ہیں مگر مجھے طلعت حسین اور ثانیہ سعید بہت پسند ہیں۔
یو این پی: پاکستان میں کس شاعر کی شاعری سے متاثر ہیں؟
امجد خان: یہ بھی بہت مشکل سوال ہے جی کیونکہ ایسے بہت سے شعراء کرام ہیں جن کی شاعری مجھے بے حد پسند ہے لیکن آپ کا سوال سر آنکھوں پر،تو جناب مجھے سب سے پہلے تو بابا بلھے شاہ اور بابا فرید کا کلام بہت پسند ہے اور پھر جس شاعر کی بہت ساری چیزیں مجھے پسند ہیں وہ ہیں جناب محمد افضل جمال صاحب،جو کہ پنجاب کی دھرتی میں پیدا ہونے کے باوجود ہزارہ سے محبت کرتے ہیں اور ہزارہ کی محبت میں بے شمار ہندکو گیت لکھے،آپ افضل دکھی کے نام سے مشہور ہیں ،جن کے مشہور گانوں کے بول مری دی میں سیر کراں اور عطاء اللہ عیسی خیلوی کا گایا ہوا گانا راشہ راشہ پخیر سوہنڑیاں نمایاں ہیں۔
یو این پی: اس فیلڈ میں کوئی مشکل پیش اائی؟
امجد خان: اس سوال پر تو میں مانسہرہ کے بہت اچھے شاعر صوفی بشیر صاحب کا شعر عرض کروں گا کہ زندگی نے کیا کیا رنگ دکھلائے بشیر،،،کبھی خلوت نے ڈبویا کبھی جلوت نے ابھارا،،،،،،،اگر اس فیلڈ میں مشکلات نہیں تو پھر کسی فیلڈ میں مشکلات نہیں،،مگر شوبز ایک ایسا نشہ ہے جو نہ تو مرتے دم تک ختم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے راستے میں آئی ہوئی ہر رکاوٹ کامیاب ہو سکتی ہے،اگر کوئی بھٹک جائے تو اسے آپ فنکار مت کہیں یہ بہت سخت امتحان لیتی ہے،مختصر یہ سمجھ لیں کہ یہ فیلڈزندگی نچوڑ کے رکھ دیتی ہے،ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کروں کہ میری امی جان کا انتقال ہو گیا مین گھر میں تھا تو تیسرے دن جیو سے کال آئی کہ آپ کی کل ریکارڈنگ ہے آپ ابھی لاہور پہنچیں ،میں اسی دن چلا گیا اور صبح جب ریکارڈنگ کروا رہا تھا تو وہ لمحات میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر کیا گزری؟ میرے دل ودماغ پر اپنی والدہ کی جدائی سوار تھی اور وہاں میں صدر ممنون حسین کے روپ میں لوگوں کو ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا،یہ تو جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے،بہرحال بہت مشکل فیلڈ ہے۔
یو این پی: اس فیلڈ میں کامیابی کا راز کیا ہے کیا بتائیں گے؟
امجد خان: بہت اچھا سوال ہے جناب ،اس فیلڈ میں وہی انسان کامیاب ہو سکتا ہے جو نہ صرف اپنے آپ سے مخلص ہو بلکہ سب کے ساتھ مخلص بھی ہو اور اس کی نیت بھی صاف ہو کیونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہی ہے،وقت اور وعدے کا پابند ہونا بھی کامیابی میں مددگار ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
یو این پی:ابھرتے ہوئے نئے باصلاحیت چہروں کے نام کیا پیغام دینگے؟
امجد خان:ہمارے دل اور دروازے نئے آنے والوں کیلئے کھلے ہیں،ہم کوشش کرینگے کہ ہم نے جو سختیاں برداشت کیں وہ انہیں نہ کرنا پڑیں اور یہ بھی کہوں گا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں آخر میں ایک چھوٹی سی بات
زندگی ریہرسل نہیں بلکہ ہر روز براہ راست شو ہے،ری پیٹ نہیں ہوگا،پیچھے نہیں ہوگا اور ری ٹیگ یعنی غلطی کی بھی کوئی گنجائش نہیں لہذا اپنی زندگی کا ہرشارٹ نہایت ہی خوبصورت دیں اور سب سے آخر میں شکریہ ادا کروں گا یو این پی کا آپ کا اور آپ کی تمام تر ٹیم و خاس کر انتظامیہ کا کہ جنہوں نے مجھے یہ شرف بخشا کہ میرے دل کی آواز میرے چاہنے والوں تک پہنچی بہت بہت شکریہ اللہ حافط۔

Readers Comments (4)
  1. راشد علی اعوان صاحب ۔۔السلام علیکم۔آپکی اطلاع کے لیئے عرض ھے کہ پاکستان کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم “چاچی جُل کراچی” ھے،جس کے مصنف و ہدایتکار سید مہتاب شاہ ہیں،جب انھوں نے اس فلم پر کام شروع کیا تھا تو امجدخان صاحب ان کے پاس اپنی ٹیم کے ھمراہ کراچی کام مانگنے آئے تھے،اور دوسری عرض یہ ھے کہ گورنمٹ آف پاکستان نے چاچی جُل کراچی کو کاپی رائٹ اور سینسرسرٹفیکٹ بھی عطا کیا ھے ،امجد صاحب کی اس منافقت پر کیا کہا جائے اور کس سے کہا جائے ،بس آپ سے کہا جاسکتا تھا جو عرض کردیا،شکریہ
  2. امجد صاحب سستی شہرت حاصل کرکے نہ جانے کیا ثابت کرنا چاھتے ہیں۔یہ ایسے بھی محسن کش ہوسکتے ہیں ،بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ان کے ایسا کرنے سے لوگوں کے اس بیان کو بڑی تقویت ملتی ھے کہ سندھ صادقاں۔پنجاب عاشقاں تے ہزارہ ۔۔۔۔۔۔۔
    • admin says:
      السلام علیکم
      سید مہتاب شاہ صاحب آپ کے کمنٹس بھی پبلش کر دئے گئے ہیں جو بات حقیقت پہ مبنی ہو اسے عوام کے سامنے لانا ضروری ہوتا ہے آپ ہماری ویب پہ آئے بہت شکریہ سلامت رہیں
      اگرمناسب سمجھیں تو 03347788970 یہ میرا رابطہ نمبر ہے رابطہ ضرور کریں
      والسلام
      ڈاکٹر بی اے خرم
      چیف ایڈیٹر
      یواین پی
  3. واعلیکم السلام
    محترم جناب ڈاکٹربی اے خرم صاحب
    ممنون ھوں کہ اپ نے مجھے جواب دیکر عزت بخشی،اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ھو تو مذکورہ شخص کی فیس بک وال پر وزٹ کیجئے گا ،آپ کو تمام حقیقت سے اگاھی ھوجائیگی،یہاں اٹیچمنٹ آبشن نہیں ھے ورنہ میں آپکو خود تمام ثبوت فراھم کردیتا،تشکر




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes