حلف نامہ کے معاملے کی چپڑاسی سے لے کر منسٹر تک تحقیقات کی جائیں،مولانا فضل الرحمن کا مطالبہ

Published on October 11, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 381)      No Comments


پشاور(یو این پی)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ حلف نامہ کے معاملے میں چپڑاسی سے لے کر منسٹر تک جیب کترے کو تلاش کیا جائے عقیدہ ختم نبوتؐ کے قانون میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی ہے انتخابی قانون کے کاغذات نامزدگی سے حلف نامہ نکالنے کے معاملے میں آن ریکارڈکہہ رہا ہوں کہ تحریک کا بھی کردارہے وقت بتائے گا انھوں نے جو کچھ کیا ، سابق فوجی صدر پرویزمشرف کے دورمیں بھی حدود اللہ کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی زنا بالرضا کی سزا کے قانون کو غیرموثر کر دیا گیا، فاٹا کی حثیت کے بارے میں ریفرنڈم کروایا جائے تاکہ عالمی سطح پر مشکلات پیدا نہ ہوں۔یوا ین پی کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمان نے کہا کہ میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں تھا اس دوران دو اہم واقعات ابھرے جس نے ملک اور امت کو جنجھوڑا ہے۔ پورے ایوان سے اجتماعی گناہ ہوا ہے۔ مولانا کے ان ریمارکس پر تحریک انصاف کے ارکان نے ایوان میں شور ڈال دیا ،شاہ محمود اور شیریں مزاری نے کہا کہ ہم اس میں شامل نہیں تھے۔مولانافضل الرحمان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی سے تو ہوا ہی ہے۔ ان کو مانناپڑیگااور وقت بتائے گا ان کا ا س میں کتنا کردار ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف سے تو یہ گناہ ہوا ہی ہوا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے ان الفاظ کو تحریک انصاف کے ارکان نے حذف کرنے کا مطالبہ کیا اور اصرارکرتے رہے کہ مولان کے متذکرہ الفاظ حذف کیے جائیں اس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ آن ریکارڈ ان کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے جو کچھ کیا ہے وقت بتائے گا ان ریکارڈ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف بھی ذمہ دار ہے انھوں نے کہا کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر بطور طالبعلم ملتان میں نے جیل کاٹی ہے۔ ہم سب آقائے دو جہاں سے یکساں محبت کرتے ہیں، ناموس پر سب کچھ قربان ہے،ہنگامے کے دوران جیب کترے نے جیب کاٹی ہے۔ جس نے یہ چوری کی ہے اس کا پتہ لگانا چاہیے۔ا ب اس مسئلے کے بہت سے خفیہ پہلو سامنے آ رہے ہیں، اس سنگین غلطی کرنیوالے کاپتہ لگاناضروری ہے،ناموس رسالت کے معاملے پر کوئی تقسیم نہیں اور ہم سب کیلیے رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی سب سے بڑھ کر ہے، شیخ رشید نے نشاندہی کی ہے تو یہ بھی بتائیں کہ انہیں اس کا ادراک کس وقت ہوا، میں شکر گذار ہوں کہ انہوں نے یہ معاملہ اٹھایاتاہم کسی ایک پر ذمہ داری ڈالنا مناسب نہیں، نقب لگائی گئی ہے، چوری کی گئی ہے، جیب کاٹی گئی اس کا ہرصورت پتہ چلناچاہئے کہ یہ سب کس نے کیا اس کا احتساب ضروری ہے، انھوں نے کہا کہ ناموس رسالت کے قانون کی اقلیتوں کیخلاف غلط استعمال کی باتیں ہوتی رہتی ہیں جب کہ حقائق یہ ہیں کہ 500 سے زائد مقدمات مسلمانوں کیخلاف درج ہوئے ہیں۔ 40 مقدمات مسیحیوں یا غیر مسلموں کیخلاف درج ہوئے۔ اب بتائیے کس بنیاد پر اس قانون کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اندرا گاندھی ، جان ایف کینیڈی اور کئی دیگر عالمی راہنماں کو بھی تو مارا گیا؟ہر ملک میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اسلام دشمن لوگ ختم نبوت کے قانون کو نشانہ بناتے ہیں۔ شیخ رشید اکیلے مسلمان نہیں بلکہ ہم سب کا فرض ہے۔ کسی کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کریڈٹ نہ لیا جائے نہ اس کا وقت ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہر مسلمان کے عقیدت ختم نبوتؐ کے حوالے سے ایک دوسرے سے بڑھ کر جذبات ہیں۔ اس معاملے کی سینٹ میں نشاندہی ہو گئی تھی۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے ترمیم پیش کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے علاوہ وہاں کسی اور جماعت نے ہماری اس ترمیم کی حمایت نہیں کی اور دیگر جماعتوں نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ نفس مضمون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی تاثیر کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیب کترنے کی کوشش کرنے والوں کو تلاش کرنا چاہئے۔ چاہے وہ چپڑاسی سے لے کر منسٹر تک ہو۔ تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں حدود اللہ کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور زنا بالجبر کی سزا کو تو برقرار جب کہ زنا بالرضا کی سزا کے قانون کو غیرموثر کر دیا گیا۔ یہ سب پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ ہم نے اس وقت بھی شور مچایا تھا۔ اب حلف نامے کے معاملے پر جو غفلت اور لاپرواہی ہوئی ہے ذمہ داران کا تعین تو ضروری ہے۔ جیب کترے کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ تفتیش ہونی چاہئے، معاملے کو ایسے نہیں چھوڑنا چاہئے اور یہ وقت بتائے گا کس کا اس میں کتنا کردار تھا۔ فاٹا کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری بات کو سنجیدگی سے سننے کی کوشش کریں۔ متعدد بار اس معاملے پر بات کر چکا ہوں۔ جب یہ معاملہ 2012ء میں اٹھا تو ہم نے فوری طور پر جرگہ بلایا۔ جرگے نے متفقہ طور پر 3 آپشنز جن میں فاٹا کو صوبے کی حیثیت دینے، صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے یا قانونی اصلاحات کے ذریعے ظالمانہ قوانین کے خاتمے کی سفارشات شامل تھیں۔ جرگے نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ پہلے قیام امن کو ممکن بنایا جائے، تعمیر نو کے بعد بے گھر قبائل کی آبادکاری کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ قبائلی جرگہ میں امن میں کردار ادا کرنے کا کہنا تھا لیکن اسے یہ کردار ادا نہیں کرنے دیا گیا۔ جے یو آئی (ف) نے شروع دن سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ قومی اسمبلی میں ایک بار پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قبائل نے مشاورت کے دوران جو رائے دی تھی سرتاج عزیز کی کمیٹی نے اسے چھپایا اور اس کے برعکس رپورٹ دی۔ رواج بل آیا تو ہم نے مخالفت کی اب حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بھی برملا ہمارے موقف کی تائید کر رہی ہیں کہ رواج کی تشریح نہیں کی گئی اور آج تک یہ بل قائمہ کمیٹی میں زیرالتواء ہے جب فاٹا میں عدالتیں ہی نہیں ہیں تو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں کون سی اپیلیں ہونگی۔ فاٹا میں لوئر کورٹ نہیں ہے اور اپیل کی بات کی جا رہی ہے۔ لوگوں کو دھوکہ نہ دیں اور اس معاملے کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ جب عملدرآمد کمیٹی نے خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری بھی شامل ہو گا تو کیا وہ اپنی تجاویز پر اصرار نہیں کرینگے اور اب چیف آپریٹنگ افسر تعینات کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد گورنر کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ لوگوں کو دھوکہ نہ دو۔ جلدی کیوں ہے۔ اگر اس معاملے پر دھرنے، جلسے اور مظاہرے شروع ہو جائیں گے تو مطلب یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے یہ غلط طریقہ ہے۔ ہم قریب سے صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور ہم نے جمعہ کو پشاور میں گرینڈ قبائلی جرگہ طلب کر لیا ہے جس میں یوتھ بتا دے گی کہ اس کی مرضی اور خواہش کیا ہے۔ اس طرح کا ردعمل نہ دیں کہ دوسرے بھی اپنے ردعمل پر مجبور ہو جائیں اگر یہ اپنے ردعمل میں شدت پیدا کریں گے تو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ 70 سالوں سے ایل او سی کا سرحدی تنازعہ ہے۔ اب یہ ایک اور سرحدی مسئلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ عجلت میں فیصلے کا عالمی سطح پر کوئی بھی معاملہ اٹھ سکتا ہے۔ اگر کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کر سکتے ہیں برطانیہ، سکاٹ لینڈ، مشرقی تیمور، دارفور اور ترکی میں صدارتی نظام کے لئے ریفرنڈم ہو سکتے ہیں تو فاٹا کی حیثیت کے لئے ریفرنڈم کیوں نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ ریفرنڈم کے بعد اگر ہمارے فیصلے پر عالمی سطح پر کوئی اعتراض ہوتا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قبائل کی خواہش کا احترام کیا گیا۔ ایسے اقدامات نہ کریں کہ دوسری طرف سے ردعمل آ جائے۔ جوش نہیں ہوش سے کام لیں۔ محلات میں بیٹھ کر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرینگے تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ کسی کے گھر اور کاروبار کا نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ قبائلی عوام کا معاملہ ہے۔ اب قومیں باشعور ہیں۔ اپنی مرضی اور خواہش کے برعکس فیصلے کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题