کیا پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے ؟

Published on October 27, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 442)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ 
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان وسط ایشیا اور وہاں سے چین اور روس تک رسائی کے لئے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے اس حیثیت کی وجہ سے بے پناہ اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں مگر یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ سیاسی استحکام اور امن وامان کے لئے جامع کوششیں کی جائیں پوری قوم کے مفادات کی نگہبان جمہوریت کو فروغ دیا جائے اور منصفانہ انداز حکومت قائم کیا جائے اپنی اس خصوصیت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ایک اور ضروری امر یہ ہے کہ پاکستان میں بنیادی سہولتوں کا جدید ڈھانچہ استوار کیا جائے مثلاً اچھی اور معیاری سڑکوں کا جال بچھایا جائے ریلوے کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے کی سعی و کوشش کی جائے جدید مواصلاتی نظام بروئے کار لائے جائیں اور پاکستان سے وسطی ایشیائی ممالک اور وہاں سے چین ، روس اور یورپ تک توانائی کی ترسیل کا منظم انتظام کیا جائے یورپی یونین ، جرمنی ، روس ، چین اور جاپان کے ماہرین 1980کے عشرے کے اواخر سے تندہی سے اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں اس صدی میں یورپ اور مشرقی ایشیا کے درمیان بنیادی سہولتوں کا ڈھانچہ قائم کر کے ممکنہ وسعت دی جائے ان سہولتوں میں مختلف اقسام کی توانائی کی ترسیل کے ذرائع اور مواصلاتی نظام کو اوّ لیت حاصل ہونی چاہئیے مقصد یہ ہے کہ بنیادی سہولتوں کے نظام کو بتدریج ترقی دی جائے تاہم باہم سماجی ، معاشرتی اورسماجی اقتصادی تعلقات فروغ پائیں یہ کام نہ صرف مسافروں اور مال کی تجارت کے لئے ذرائع ٹرانسپورٹ بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے بلکہ اس طرح مغربی یورپ کی تکنیکی مہارت وسطی ایشیائی ملکوں خصوصاً سائیبیریا کے وسائل سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے مستقبل کے اس تناظر میں امریکہ کو بھی دلچسپی ہے کیونکہ بحرا و قیانوس اور بحر الکاہل دونوں کا برا عظم ایشیا سے تعلق ہے علاوہ ازیں چین اور جاپان کے ماہرین مشرقی ایشیا بحرالکاہل ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ٹھوس اقتصادی روابط کے ذریعے براعظم ایشیا کے ترقیاتی وسائل سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں ان اہم منصوبوں کے بعض ضروری حصے تکمیل کو پہنچ چکے ہیں مثلاً مسافروں کے لئے بہتر فضائی راستے اور معلومات و اطلاعات کے لئے مصنوعی سیاروں کے توسط سے مواصلاتی نظام بندر گاہوں پر سامان لادنے اور اُتارنے کا جامع نظام چین اور یورپ کے درمیان ریلوے لائن جو ٹینگ ینگ کو روٹر ڈیم سے ملاتی ہے یورپ اور روس کے درمیان تیل اور گیس کی ترسیل کے لئے پائپ لائن کے اس نظام کو چین اور جاپان تک وسعت دینا باقی ہے ایشیا کے مختلف خطوں مثلاً مشرقی اشیا بحرالکاہل جنوبی ایشیا کے درمیان عظیم تر اقتصادی تعاون کے مجوزہ فوائد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک کہ جنوبی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ملکوں کے درمیان بنیادی سہولتوں کا فرق دور نہ کیا جائے عوامی جمہوریہ چین ،روس ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمکش کو کم کر سکتے ہیں بھارت اور امریکہ کو یقین دلایا جائے کہ چین اور پاکستان آپ کو سی پیک کے معاملات و تنازعات کے خاتمے کی دعوت دیتا ہے اور “سی پیک “سے حاصل ہونے والے فوائد میں حصہ دار بنانا چاہتا ہے پورا یورپ اس صدی کو ایشیائی صدی کی ترقی کا رونا رو رہا ہے اور اقتصادی ماہرین ایشیا کی ترقی میں حصہ دار بننے کی تگ و دور میں ہیں اور اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ جرمن معاشرہ اتنا زیادہ خوشحال ہے حالانکہ جرمنی میں تیل یا گیس جیسے معدنی وسائل برائے نام ہیں جنوب مشرقی ایشیا میں کاروبار میں اتنی فراوانی کیوں ہے پاکستانی عوام کو اور زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے ملک کے پالیسی ساز اداروں کو اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھانے کی ضرورت ہے جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی معجزانہ ترقی ان ہی تمام باتوں کا نتیجہ ہے اور یہ سب کچھ پاکستان بھی کر سکتا ہے پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ دوسرے پارٹنرز ممالک امریکہ ، یورپی یونین ، روس ، چین ، جاپان حتیٰ کہ مشرقی ایشیائی ممالک اور بھارت اور ایشیائی ممالک وسط ایشیا بحیرہ عرب کے درمیان بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے کی عدم موجودگی میں بھی مزید ترقی کر سکتے ہیں لیکن بنیادی سہولتوں کے فراہم ہوجانے کے بعد یہ ممالک اور زیادہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں یہ سچی حقیقت ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ان گنت قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر ہم ان سے صحیح انداز میں استفادہ کرنے سے قاصر ہیں کرپشن و بد عنوانی نے ہمارے پیارے وطن کو غربت کی دلدل میں دھنسا رکھا ہے کھربوں روپے کی لوٹ مار ہو چکی ہے ترقی و خوشحالی کے نام پر مختص کی جانے والی رقومات اور فنڈز بیرون ممالک ٹرانسفر کروا دئیے جاتے ہیں کمیشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے احتسابی نظام کمزور اور لاغر ہونے کے باعث بڑے بڑے مگر مچھ پیٹ بھر رہے ہیں سیاسی اور انتظامی نظام کرپٹ مافیا کے ہاتھوں میں کھلونا بن کے رہ گیاہے جو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں پر کرپشن کے الزامات میں ن لیگ تو احتساب کے شکنجے میں ہے جبکہ پی پی پی ابھی تک اپنا دامن بچانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے بڑے بڑے بھاری سیاسی جلسوں سے عدلیہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کیاجارہا ہے اللہ کا شکر ہے کہ سی پیک منصوبہ کی نگرانی افواج پاکستان کے ہاتھوں میں ہے پھر بھی اس میں کرپشن کے الزامات ن لیگیوں پر لگ رہے ہیں دوسرا یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی کو گونگوں ، اندھوں اور بہروں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے وہ دشمن کو فائدہ پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں ہیں خارجہ پالیسی کمزور اور لاغر ہونے کی وجہ سے امریکہ اور بھارت ہمارے سر پر سوار ہوچکاہے عوام کو چاہئیے کہ وہ اچھے اور بڑے سیاسی لیڈروں میں فرق محسوس کرے ورنہ ہم “ایشین ٹائیگر”کا خواب ہی دیکھتے رہ جائیں گے اور زمانہ ترقی کرتا کرتا آسمانوں کو چھونے لگے گا ہمیں اپنے پڑوسیوں کو اعتماد میں لینے کی پالیسی بنانی ہوگی بھارت کو بھی چاہئیے کہ وہ ایشیا کو ایٹمی جنگ میں تبدیل کرنے سے باز رہے ورنہ یہ صدی جس کو ترقی و خوشحالی کی صدی کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے یہ بدحالی کی بد ترین مثال بن کر رہ جائے گی جرمن اور جاپان سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئیے دو عالمی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد اب بھی وہ پوری دنیا کی اقتصادی و معاشی منڈیوں پر حکمرانی کر رہے ہیں بھارت اور پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت موجود ہے جس سے استفادہ کر کے ہم بھی پوری دنیا مین اپنا مقام بنا سکتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ بھارت نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے اسے یہ پریشانی ہے کہ پاکستان اسے پیچھے چھوڑ جائے گا اور ترقی کے اہداف حاصل کر کے بہت آگے نکل جائے گا حالانکہ یہ بات نہیں ہے بھارت ایک بڑ املک ہے اس کے ساتھ تو ہمارا مستقبل وابستہ ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ہم باہم مل کر بین الا قوامی مارکیٹ میں اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں یورپ سے تجارتی معاملات کو بڑھاوا دے کر تجارتی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھارت اور پاکستان کو عقلمندی کے ناخن عطافرمائے آمین تاکہ غربت کو دیس نکالا دے کر دونوں ممالک کے عوام خوشحالی سے ہمکنار ہوسکیں ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes