نواز شریف۔۔۔ تیرا شکریہ

Published on January 2, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 286)      No Comments

\"Qalam
انور ۔۔۔ جس کے چہرے پر ہر وقت بارہ بجے رہتے تھے ۔ آج ہشاش بشاش اور بہت خوش نظر آ رہا تھا۔اپنی اس خوشی کا اظہار کرنے کے لیے بات بات پر اپنے دانت بھی نکال رہا تھا۔ \”آج بڑے خوش نظر آرہے ہو\” مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کی اس بے تحاشہ خوشی کی و جہ پوچھ ہی لی ۔ \” میں نے نوکری کو لات مار دی ہے۔\” اُس نے ایک دفعہ پھر اپنے کالے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے مجھے یہ خوش خبری سنائی۔\” کیا۔۔۔؟؟؟ نوکری کو لات۔۔۔!!! لیکن کیوں۔۔۔؟؟\”کیا باس سے کوئی جھگڑا وغیرہ ہو ا ہے؟ یا کوئی فراڈ وغیرہ کا چکر ہے؟\” میں نے حیرت سے پوچھا۔ \” ارے نہیں یار کوئی جھگڑا وگڑا نہیں ہوا۔اور نہ ہی میں شکل سے کوئی فراڈیا لگتا ہوں۔\” وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔ \”تو آخر کیا وجہ بنی کہ تم نے بیٹھے بٹھائے اچھی خاصی، ایگزیکٹو پوسٹ والی نوکری کو لات مار دی ۔تمہاری تو سیلری بھی بڑی معقول تھی۔ اور بینیفٹ الگ۔\” میں نے ایک دفعہ پھر حیرت کا اظہار کیا۔\” ہاں تمہاری بات درست ہے لیکن میں اس سے بھی آگے جانا چاہتا ہوں، بہت آگے۔\” وہ بڑے فخر سے کردن اکڑا کر بولا۔ \” مطلب۔۔۔؟؟؟ \” میں نے اُس کی روشن آنکھوں میں جھانکا اور سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ \”مطلب یہ کہ ۔۔۔میں کاروبار کروں گا اور وہ بھی اپنا یعنی۔۔۔ ذاتی کاروبار۔\” وہ طمانیت سے بولا۔\” لیکن کاروبار کے لیے تو سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور سرمایہ پتا ہے کسے کہتے ہیں؟\” میں نے طنزکرتے ہوئے کہا۔\”ہاہاہا۔۔۔۔۔ سرمایہ۔۔۔؟؟؟ نو پرابلم۔سمجھو ملنے ہی والا ہے\”۔اُس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور سیگرٹ کا دھواں میرے منہ پر پھینکتے ہوئے بولا۔ \”کیا کوئی کمیٹی وغیرہ ڈال رکھی ہے توتے۔۔۔؟\” میں نے حیرت کا اظہار کیا۔ \”ارے نہیں یار۔۔۔!!! کمیٹی تو نہیں البتہ ووٹ ضرور ڈالا ہے۔۔۔ نون لیگ کو۔\” اُس نے اکڑ کر کہا۔ \” ووٹ ڈالنے کا تمہارے کاروبار کے لیے سرمائے سے کیا تعلق ہے؟\”۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ \”یار تو کہاں رہتا ہے؟ حالات سے بے خبر ۔ تمہیں نہیں معلوم کہ نون لیگ کی حکومت ووٹ دالنے کے بدلے میں نوجوانوں کو کیا عطا کر رہی ہے۔۔۔؟پورے بیس لاکھ کا قرضہ اور وہ بھی آسان اقساط میں۔ \” اُس نے ایک بریکینگ نیوز سنائی۔\” یہ تو مجھے بھی معلوم ہے لیکن ۔۔۔!!! اچھا اچھا۔۔۔ یعنی تو بھی اس قرضے کے لیے درخواست دینے والوں کی لائن میں لگا ہوا ہے۔\” میں نے بات کو سمجھ جانے کے انداز میں کہا۔\” ہاں۔۔۔ بڑی جلدی سمجھ گیا ہے میری خوشی کا راز۔۔۔ بس قرضہ ملتے ہی کاروبار شروع۔میں نے تو اپنے کاروبار کے لیے ایک پلان بھی تیار کروا لیا ہے۔یہ دیکھو۔۔۔ \”اُس نے چند کاغذات میرے آگے بڑھادیئے۔ \”تو کیا تم یہی کاروبار کرو گے؟ اس کاروبار کا تمہیں کوئی تجربہ وغیرہ بھی ہے کہ نہیں۔\” میں نے بزنس پلان کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد پوچھا۔\” ارے کیسا تجربہ۔۔۔؟ کیسی مہارت۔۔۔؟ یہ تو صرف خانہ پوری کرنے کے لیے ہے ۔ اصل کاروبار کے متعلق تو میں اُس وقت سوچوں گا جب رقم ہاتھ میں آجائے گی\” ۔وہ بڑے رازدانہ انداز میں بولا۔\”لیکن یار یہ سب جو کچھ بھی ہے کیا شرعی اعتبار سے درست ہے ۔۔۔؟ میرا مطلب ہے اس کے اوپر جو سودادا کرنا پڑے گا کیا وہ گناہ نہیں ہو گا۔۔۔؟؟؟ اور ویسے بھی تم بذات خود اس سود جیسی لعنت کے بڑے خلاف تھے۔ نہ صرف خلاف بلکہ دوسروں کو بھی اس سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے\”۔ میں نے اُسے شریعت کا درس دیتے ہوئے کہا۔\” میں سود کے اب بھی خلاف ہوں۔ اور دوسرے لوگوں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین ابھی تک ایسے ہی کر تا ہو ں جیسے پہلے کیا کرتا تھا\”۔اس نے خود کو مومن ثابت کرنے کی کوشش کی۔
\”کیا ڈبل سٹینڈر ہے تمہارا یار۔۔۔! ایک طرف سود سے نفرت اور دوسری طرف سودی قرجہ لینے کے لیے ہلکان\”۔میں نے اُس کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا۔\”ہاہاہا۔۔۔ تم گھامڑ کے گھامڑ رہی رہو گے۔ارے بھیا۔۔۔ سود اُس رقم پر ہوتا ہے جو قرض کے عوض لوٹائی جاتی ہے۔جب میں اس کی کوئی قست ادا ہی نہیں کروں گا تو سود کس چیز پر ہو گا\”۔اس نے خود کو چالاق ثابت کرتے ہوئے کہا۔ \” ارے واہ۔۔۔ بہت خوب۔ تو تم کیا سمجھتے ہو کہ گورنمنٹ بیوقوف ہے۔؟کیا وہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دے گی۔ اور جس شخص نے تمہاری گارنٹی دی ہو گی کیا وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے کچھ نہیں کرے گا؟ بچے یہ۔۔۔ و ہ والا قرضہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ۔ یہ توصرف بیس لاکھ والا قرضہ ہے ۔ اور جس قرضے کے بارے میں تم سوچ رہے ہو وہ لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں، اربوں اور کھربوں میں ہوتا ہے۔ تمہیں اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بننا پڑے گا۔ الیکشن لڑ نے کے بعد پارلیمنٹ میں پہنچنا پڑے گا۔ کوئی فرضی قسم کی انڈسٹری قائم کرنا پڑے گی ۔اور اُسی فرضی انڈسڑی پر تمہیں قرضہ بھی مل جائے گا۔ چند سالوں کے بعد اُس انڈسٹری کو تباہ حال دکھا کر قرضہ معاف کروا لینا۔ اس طرح تمہارا مقصد بھی پورا ہو جائے اور جان بھی چھوٹ جائے گی ۔ لیکن ۔۔۔! یہ کوئی چھوٹی موٹی گیم نہیں ہے کہ تم بیس لاکھ کا قرضہ حاصل کر لو اور حکومت تمہیں پوچھے تک نہ۔اگر خدانخواستہ تمہیں کاروبار میں نقصان ہو گیا تو تمہارا گھر تک ضبط کر لیا جائے گا۔ تم بچ کر کہیں بھی نہیں جا سکتے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اپنے اس کاروباری پلان کو اپنے تک ہی محدود رکھو اور ایک عقلمند انسان کی طرح اپنی لات ماری ہوئی نوکری کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔تا کہ تمہارا اور تمہارے بیوی بچوں کا گذر بسر ہو سکے۔۔۔کہو تو میں تمہارے باس سے بات کروں ۔۔۔؟ وہ میرا جاننے والا ہے مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ نوکری پر رکھ لے گا۔\” میں نے ایک لمبا چوڑا لیکچر دیا ، پانی کا گلاس چڑھایا اور اُس کے جواب کا انتطار کرنے لگا۔۔۔ \” تم اپنا یہ فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو اور میری بات غور سے سنو۔تمہیں پتا ہے کہ یہ حکومت آج کل کن حالات سے گذر رہی ہے۔۔۔؟ اگر صورت حال یہی رہی تو یہ مشکل سے دو سال بھی پورے نہیں کر پائے گی۔اور جب یہ حکومت ہی چلی جائے گی تو پھر کس نے پوچھنا ہے اور کس نے پکڑ دھگڑ کرنی ہے۔ نئی آنے والی حکومت بھی اپنا سوفٹ امیج قائم رکھنے کے لیئے کوئی نہ کوئی دانہ ڈالے گی تا کہ مقروض عوام اُس کی اس ہمدردی کی وجہ سے احسان مند رہے۔\” اس نے بڑے اطمنان سے آنے والے وقت کی بیش گوئی کر دی۔\” اگر ایسا نہ ہوا، جیسا تم سوچ رہے ہو تو۔۔۔؟\” میں نے خدشہ ظاہر کیا۔ \” اگر ایسا نہ بھی ہوا تو کم از کم یہ حکومت اپنے دور میں ان قرض داروں پرکسی قسم کی سختی نہیں کرے گی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ اُن کا ووٹ بینک کوئی اور لوٹ لے۔اس لیے میں نے آنے والے وقت کے پیش نظر یہ منصوبہ تیا ر کیا ہے اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنی معمولی سی نوکری کو لات ماری ہے\”۔اس نے اپنا آخری فیصلہ سنایااور بڑے سکون سے چائے کی چسکیاں لینے لگ گیا۔میں کافی دیر تک اُس کی ان باتوں پر غور کرتا رہااور۔۔۔ اور اُس سے التجا کی کہ مجھے بھی کسی سرکاری افسر کی گارنٹی دلوا دو۔ میں بھی اپنی معمولی سی نوکری کو لات مارنا چاہتا ہوں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题