فیض آباد دھرنا،سپریم کورٹ کا مظاہرین کی سپلائی لائن بند کرنے کا حکم،30نومبر کو انٹیلی جنس حکام طلب

Published on November 23, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 466)      No Comments

اسلام آباد(یوا ین پی ) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران طاقت کے استعمال کا حکم دینے سے گریز کرتے ہوئے حکومت کو مظاہرین کی سپلائی لائن بند کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ اگلی سماعت 30نومبر کو مقرر کرتے ہوئے آئی ایس آئی اور آ ئی بی کے حکام کو طلب کیا ہے ،عدالت نے معاملہ طویل ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے ،یوا ین پی کے مطابق فاضل ججز نے ریمارکس دئیے ہیں کہ دھرنے والی جماعت نے الیکشن بھی لڑا، اس نام سے جماعت رجسٹرڈ کیسے ہوئی، حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے؟،دھرنے کے علاقے کو سیل کریں،17 دن سے یہ لوگ کھا پی کہاں سے رہے ہیں،کیا دھرنے والے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں، دھرنے والے کیا ملنگ فقیر ہیں، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور ان کے پیچھے کون ہے۔ کیا کوئی فارن فنڈنگ تو نہیں ہو رہی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے اپنی رپورٹس جمع کرائیں،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے ۔سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ کا جائزہ لیا ہے ،جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیا حکومت ماضی میں کی گئی کمٹمنٹ بھول گئی ہے، کیا حکومت کو یاد نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا تھا، کیا پنجاب میں کوئی دشمن موجود ہے؟۔جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی وعدہ خلافی ہوچکی ہے اور اب بھی وعدہ خلافی ہورہی ہے تو کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے؟۔اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہم نے دھرنے والوں کو بھیجا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والے کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص نے اسلام آباد اور پنڈی کے سنگم کو بند کر رکھا ہے، ایک شخص کی رٹ قائم ہے لیکن ریاست کی نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حکومت سمیت احتجاج والے بنیادی نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، کیا اسلام میں کوئی ڈنڈاہے، کیا قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے، اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں، کل کو کوئی اور اپنا موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا، حضور نے فرمایا کسی کو دیکھ مسکرانا صدقہ ہے مگر مجھے مسکراتی شخصیات نظر نہیں آتیں، گالی گلوچ کی زبان نظر آتی ہے، کیا معاشرہ ایسے چل سکتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سب سے غلطی ہوتی ہے، غلطی تو مجھ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن بض نہیں ہونا چاہیے ۔ کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے، کیا اسلام میں دو رائے ہو سکتی ہیں، کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جب کہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں اسلام امن سے پھیلا ہے ڈنڈے سے نہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ معاشرے اور ذہن کو ڈنڈے سے نہیں بدل سکتے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اتحاد، ایمان، تنظیم کہیں نظر نہیں آ تا، جس کو مرضی گالی دے دو، اگر یہ اسلامی باتیں ہیں تو مجھے قائل کریں، پاکستان دلائل دے کر بنا، ڈنڈے کے زور پر اچھی بات بھی اچھی نہیں لگتی اور دین میں کوئی جبر نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہو گیا، وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، جب ریاست ختم ہو جائے گی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے، ہم تو تشدد کرنے کا نہیں کہیں گے، آرٹیکل 5 کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے، اگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دھرنے میں موبائل فون چل رہے ہیں،عوام کے ٹیکس کا پیسہ دھرنے پر لگ رہا ہے، دھرنے کے باعث عدالتی نظام خراب ہو گیا، وکیل اور سائلین عدالت نہیں پہنچ رہے، دھرنے والی جماعت نے الیکشن بھی لڑا، اس نام سے سیاسی جماعت رجسٹر کیسے ہوئی جب کہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے، دھرنے والوں کو کیا حکومت چائے پیش کرتی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوشش ہے معاملہ تشدد کی طرف نہ جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کی عظمت پر سمجھوتا نہیں ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج پیش رفت ہونے کا امکان ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کر دیں، دھرنے کے علاقے کو سیل کریں،17 دن سے یہ لوگ کھا پی کہاں سے رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آس پاس کے لوگ کھانا فراہم کر رہے ہیں جب کہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں، ربیع الاول میں کوئی ایسی چیز نہیں چاہتے جو صورتحال کو خراب کرے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے کے معاملے پر تفصیلات ان چیمبر بتا سکتے ہیں ،یہ سنجیدہ معاملہ ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیمبر میں تفصیلات نہ بتائی جائیں بلکہ سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے کو منظر عام پر لانے سے اسکا اثر زائل ہو جائے۔اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آج ہی آپ کو سربمہر لفافے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں جن میں سے کچھ خفیہ رکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دھرنے والوں کی تعداد بڑھ نہیں رہی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلاآباد نے عدالت کو بتایا کہ 169لوگوں کو گرفتار کیا اور 18مقدمات درج ہوئے جب کہ راستہ بند ہونے کے باعث ایک بچہ وفات پا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک بچے کا وفات پا جانا معمولی بات نہیں ہے، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ بات دھرنے والوں کے دل میں سما جاتی تو وہ چلے جاتے اور توبہ کرتے، شرمندگی سے ہماری آنکھیں جھک گئی ہیں۔ میرا دل چکنا چور ہو گیا ہے، پیاسے کتے کے مرنے پر کون ذمہ دار ہوگا؟، کیا راستے بند ہونے سے وفات پانے والے بچے کے گھر کوئی حکومتی شخص گیا؟، ہم کتنا گر چکے ہیں، کل پولیس والے کو مسجد سے نکال کر مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا لاڈ سپیکر پر دھرنے والوں کو جانے کا کہا گیا؟۔ایمبولینس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے،جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیا گذر رہی ہوگی، پارلیمان اور عدلیہ اپنا کام اور علما اپنا کام کریں۔سوشل میڈیا پر جو کچھ چل رہا ہے پیمرا نوٹس نہیں لے رہا، پھر مقدمات عدالت میں نہ لائیں سڑکوں پر لے جائیں، پیغام مل گیا ہے کہ چند لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے، میڈیا کو بھی ریٹننگ کیلئے مرچ مصالحہ چاہیے، دھرنے سے اسلام کی عظمت بڑھ نہیں رہی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پیمرا کے ماتحت نہیں آتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کیلئے حکومت نے کیا اقدامات کیے جس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا کہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدل کا راستہ روکنا بھی گناہ ہے، کیا عدالت کو بند کر کے گھر چلے جائیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے، اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے، دھرنے والے میگا فون اورکرسیاں کہاں سے لے کر آئے، ہم کوئی احکامات نہیں دیں گے، حکومت کا جو کام ہے وہ خود کرے جب کہ دھرنے کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے۔۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا حکومت کے پاس سنجیدہ پلان آف ایکشن ہے؟، ہرجگہ ہر کسی کا اپنا قانون ہے، پھر آئین کو ختم کر دیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اس طرح تو چند لوگ شہر کو یرغمال بنا سکتے ہیں، کسی ریلی کو دھرنے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ باہر سے آئے، آئی ایس آئی کو معلوم نہیں، آئی ایس آئی اتنا طاقتور ادارہ ہے، سنجیدگی دکھائیں، اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے گا، اٹارنی جنرل آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے، کیا دھرنے والے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں، دھرنے والے کیا ملنگ فقیر ہیں، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور ان کے پیچھے کون ہے۔ کیا کوئی فارن فنڈنگ تو نہیں ہو رہی، دھرنے والوں نے مجھے گالیاں دیں تو ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جب کہ آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلی حکام موجود ہوں۔عدالت نے دھرنے سے متعلق آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے مثبت اقدامات کرکے رپورٹ پیش کریں جب کہ آئندہ سماعت پر عدالت نے آئی بی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران کو بھی طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے دھرنا کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں فیض آباد دھرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی جبکہ آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے علما اور مشائخ کی موجود گی میں مظاہرہ کرنے والی تنظیموں کے قائدین سے مذاکرات کی کوششیں کی اور اس کے لیے مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے گئے اور تمام ہی مرتبہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمن نے حکومت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ معاملے کا پر امن حل تلاش کریں، جس کی وجہ سے دارالحکومت کے معاملات 2 ہفتوں سے انتہائی خراب صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں سیون بی اور سیون سی بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog