خوش درخشید ولے۔۔۔ آہ مفتی اقبال احمد قاسمیؒ 

Published on June 21, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 325)      No Comments

مفتی محمد روح اللہ قاسمی
میں گذشتہ ۲۰؍رمضان (بروز جمعہ)کو ظہر کی نماز کے لئے مسجد آرہا تھا، راستہ میں مفتی اقبال کے والدملے ،روک کر بڑی فکرمندی سے کہا کہ مفتی صاحب رات بھر نہیں سوسکے، پوری رات بے چین رہے اور ہم دونوں (والدین) کو کہتے رہے کہ بسم اللہ پڑھکر دم کیجیے۔اعتکاف میں آنے کے وقت ایسے بھی ملنے کا ارادہ تھا مگر یہ خبر سن کر بجلی گری کہ خدایا !کچھ ہونہ جائے۔ عصر کے بعد مسجد کی طرف آتے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ اس کے گھر پہنچا،دیکھا بیٹھے ہیں مگر بے چین ۔چہرہ پر نگاہ کیا ،اتنی مدت میں آج پہلی بار ان کے چہرہ پر عجیب کیفیت اور بے چینی کے اثرات نظر آئے ۔مجھے لگا کہ شاید انہیں محسوس ہوچلا ہے کہ اب وقت زیادہ نہیں رہ گیا۔ پوچھا طبیعت کیسی ہے ؟ سانس لینے میں دشواری ہے کیا؟۔ہلکی آواز میں سرہلا دیا اور فورا ہی لیٹ گئے۔ میں تھوڑی دیر بت بناکھڑا رہا، پھر مسجدچلا آیا۔ باربار احساس ہوتا تھا کہ یہ آخری ملاقات تو نہیں ؟۔کیا پتا تھا کہ وہ اتنی جلد اب اس درد وکرب کی دنیا سے آزادی چاہتاہے ۔ اب اسے سکون کی نیند کی ضرورت ہے۔ طبیعت بگڑتی گئی،بے چینی بڑھی تو اڑوس پڑوس کے لوگ آنگن میں جمع ہوگئے۔ تراویح کے بعد معلوم ہوا کہ آکسیجن کی ضرورت ہے۔ پہلے بھی اس کی ضرورت پڑتی تھی، میں نے سوچا شاید آکسیجن کے بعد آرام ہوجائے۔ دعاء دیتے ہوئے سوگیا۔ آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک عزیز نے جگادیا اور اس نے ایسی خبر دی جسے اتنا جلد سننے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ بیدار تو ہوگیا؛ مگر مجھے لگا شاید میری روح نکل رہی ہے، کلیجہ منہ کو آرہاہے،میں بھاگنا چاہ رہا تھا مگر بدن میں طاقت نہیں رہ گئی تھی، مجھے ڈر ہوگیا کہ کہیں میرے ساتھ بھی کوئی انہونی نہ پیش آجائے،اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا، جب اس میں بھی کامیابی نہیں ملی تو بے اختیار ہاتھ رب کے دربار میں اٹھ گئے ،آنسوؤں نے کچھ تسلی کا سامان کیا۔ جب اس سے فراغت ہوئی تو اب بستر سے اٹھا۔ سوچا وضو بناکر باضابطہ رب ذوالجلال کے دربار میں سجدہ ریز ہواجائے، وضو خانہ کی طرف بڑھنے لگا تو دیکھا ایک دوسرے عزیز اپنے پاؤں میں تازہ پلاسٹر کے ساتھ کسی کے سہارے روتے بلکتے میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، مجھے اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے گلا لگاکر غم ہلکا کروں، اشارہ سے اسے بیٹھ جانے کو کہا،اپنے پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ،لوگ مرحوم کے پاس سے میری تعزیت کو آنے لگے ، ایک بھیڑ مسجد میں جمع ہوچکی تھی ،میں رونا نہیں چاہ رہا تھا؛ لیکن معاملہ اختیار سے باہر ہوتا نظر آیا تو ہاتھ ایک بار پھر اس رب ذوالجلال کے دربار میں اٹھ گئے جہاں سے صبرو تسلی کا سامان ملتاہے ۔ پوری مسجد آہ وبکاء سے چیخنے لگی ،محسوس ہوتا تھا کہ اس صالح نوجوان عالم کی جدائی پر زمین سے آسمان تک ہر کوئی آہ وفغاں کررہاہے اور رب کے سامنے روروکر ان کے سئات کی معافی اور درجات کی بلندی کی دعاء کررہاہے۔ رودھوکر جب کچھ قرار ہوا تو ہم لوگ موت کی اطلاع دینے میں لگ گئے۔دوسرے دن جب جنازہ اٹھا اور مجھے دکھایاگیاتو کل کی بے چینی اور آج چہرہ کا سکون اور اس پر برستی ہوئی نورانیت کو دیکھ کر مجھے رشک آنے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی بچہ رو رو کر ہلکان ہوگیا ہو تو اس کی ماں نے اسے نہلا دھلاکر ،بنا سنوار کر دودھ پلاکر اپنے گود میں لٹارکھاہو اوروہ گرودپیش سے بے خبر چین کی نیند سورہاہو۔اور ایسا کیوں نہ ہو کہ انہوں نے بازی مارلی تھی۔ قدرت نے مسلسل پانچ ماہ تک ان کے سئات کو دھونے کا انتظام کردیا تھا، جب وہ دھل دھلا کر پاک وصاف ہوگئے تو رمضان کے مہینہ کے جہنم سے آزادی والے عشرہ میں اکیسویں شب قدر کو بلاوا آیا،پھر ہزاروں کی تعداد میں انہیں کندھا دینے والے اور رب کے دربار میں سفارش کرنے والے سب کے سب روزہ دار ،اکثر علماء وحفاظ،پھر جنہیں جہاں خبر ملی حالت مسافرت میں سب کی دعائیں،اتنے سارے سوغات کیساتھ رب کریم نے انہیں بلایا تھاتو ان کی قسمت پر کوئی ناز نہیں کرے تو کیاکرے۔
کھانسی کی شکایت انہیں پہلے سے تھی۔ مگر ادِھر جب وہ میرے پاس آتے تو کمرہ میں داخل ہونے کے بعد نہ سلام نہ کلام ،بت بن کر کچھ دیر کھڑے رہتے اور منٹ دو منٹ کے بعد گویا ہوتے کہ اب نہ جانے کیوں کچھ دنوں سے چلنے کے بعد سانس پھولنے لگتی ہے ، نہ بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے نہ بیٹھنے کی۔ دو تین منٹ کے بعد جب سکون ملتا ہے تو بیٹھتا ہوں ،دس پندرہ منٹ کے بعد کہتے کہ اب طبیعت ایسی ہے جیسے مجھے کچھ ہوا ہی نہیں ہو ۔اس کیفیت کا وہ ادھر چھ ماہ قبل اکثر ذکر کرتے۔
پھر یوں ہوا کہ ان کی یہ کیفیت بڑھتی گئی ، سانس لینے کی دشواری میں اضافہ ہوتا گیا،کبھی یہ ڈاکٹر کبھی وہ ڈاکٹر۔ مدہوبنی سے دہلی تک جس معالج کے پاس شفا کی امید نظر آئی اس سے رجوع کیا گیا۔ بالآخر گنگا رام دہلی ہاسپٹل کے معالج نے آخری فیصلہ سنادیا اور اشارہ دیدیا کہ مرض اب کنٹرول سے باہر ہے، گھر لیجاکر اس کی خدمت کی جائے۔ یہ ایسا مایوس کن اشارہ تھا جس نے ہم تیمارداروں کوہلا کررکھدیا ۔ڈاکٹر سے براہ راست رابطہ بھائی رضاء اللہ کا تھا، اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ اس کی اطلاع آگے بڑھائی جائے یا سینے میں دفن کردیا جائے ۔ اس نے مجھ سے مشورہ لیا، میں نے مناسب سمجھا کہ مفتی صاحب کے بڑے سالے ماسٹر وجیہ احمد صاحب کو اس میں شریک کیاجائے اور تینوں نے تہیہ کرلیا کہ کسی اور کو اس کی اطلاع نہیں ہونے دینگے۔ میں نے اپنے طور سے دو اور بزرگ کو اس شرط کے ساتھ اس میں شریک کیا کہ وہ کسی کو نہیں بتائیں گے۔
ڈاکٹر نے یہ بھی کہدیا کہ آپ جہاں چاہیں تسلی کرسکتے ہیں، اپنے طور پر جہاں تک ہوسکا تمام کاغذات کے ساتھ مختلف ماہرین سے رجوع کیاگیا، سبھوں نے اس فیصلہ کی تصدیق کردی۔ اس دوران حالات کئی بار اس قدر نازک ہوگئے کہ دل دھڑکنے لگتا اور فیصلہ خداوندی کا انتظار ہونے لگتا، جیسے تیسے انہیں گھر لایاگیا؛ حالانکہ سبھی گھر لے جانے کے خلاف تھے؛ مگر انہیں کون بتاتا کہ معاملہ کیاہے؟۔
دوائیں چلتی رہیں ،کبھی صحتیابی کی امید بندھتی، کبھی مایوسی ہونے لگتی۔ اس پانچ ماہ کے دوران مرحوم نے جو تکلیف اٹھائی وہ ناقابل دید ہوتا؛ مگر واہ رے صبر ورضاء کے پیکر!کہ کبھی اس کی زبان قال وحال سے شکایت نہیں دیکھی گئی، افاقہ کے دوران وہ اسی طرح ہنستا کھیلتا نظر آتا ۔لوگوں سے ملاقات کرتا، ساتھیوں کی خوش گپیوں میں شریک ہوتا، مسکراتا، البتہ ظرافت آمیز باتوں پر ہنستے ہوئے اشارہ سے منع کرتا کہ زیادہ ہنسی سے پریشانی بڑھتی ہے۔کیا پتا تھا کہ وہ اتنا جلد داغ مفارقت دے جائینگے۔
مفتی اقبال احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے گواپوکھر بھوارہ مدہوبنی میں جناب حبیب احمد صاحب کے گھر آنکھیں کھولیں،مدرسہ فلاح المسلمین گواپوکھر میں ابتداء سے عربی چہارم کی تعلیم ہوئی۔ساتھیوں میں سنجیدہ، اساتذہ کا فرمانبردار، پڑھنے میں ذہین اور محنتی،امتحان میں ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے، کوئی غلط صحبت نہیں، کسی طرح کی بری عادت نہیں، اپنے کام سے کام رکھتے،سادگی کا پتلا، ہر طرح کے اینچ پینچ سے نابلد ،بچپن کی لاابالی عادتوں سے دور اپنا تعلیمی سفر طے کرتے رہے، میں اس سے تین سال کا آگے تھا۔ جب وہ عربی چہارم میں آئے تو میں شیخوپور اعظم گڑھ کے راستے دیوبند جاچکا تھا۔ شعبان میں گھر میں آیا تو انہوں نے فہمائش کہ ایک کتاب نہیں پڑھ سکا اور دیوبند کے داخلہ امتحان میں وہ داخل ہے۔تم اسے سمجھادو۔ میں نے تراویح کا عذر کردیا کہ گھر سے باہر رہ کر تراویح پڑھانا ہے ۔ان کا شوق تھا اور طلب علم میں اس کی دلچسپی کہ کہ ازخود اس نے فہمائش کی کہ تم جہاں رہو میں بھی تمہارے ساتھ رہونگا مگر کسی طرح مجھے پڑھنا ہے۔ مجھے جہاں رہنا تھا وہاں انہیں ساتھ رکھنے کی سہولت نہیں۔ سخت سردی کے زمانے میں اس سے قریب ایک دوسرے گاؤں میں انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو تیار کیااور اس کے گھر رہنے لگے۔ رمضان میں بیس بائیس دنوں گھر سے مکمل باہر، دور کسی دیہات میں رہکر پابندی سے انہوں نے وہ کتاب پڑھی۔ ایک عجیب چیز جس کا مجھے اس کمری عمری میں کوئی تجربہ نہیں تھا، میں نے محسوس کیا۔ شروع میں تومجھے الجھن ہوتی؛ مگر بعد میں وہی میری خوشی کا باعث ہونے لگا۔ہوتا یوں کہ جب انہیں کوئی مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا تو وہ بے اختیار ہنسی کی حد تک مسکرانے لگتے۔میں اسے سمجھارہاہوتا اور وہ ہنس رہے ہوتے۔پہلے تو بڑا عجیب سا لگا کہ یہ کیا ہورہاہے، پھر ایک دو روز میں ہی مجھے احساس ہوچلا کہ یہ ہنسی درحقیقت ان کے اچھی طرح سمجھنے کی دلیل ہے، اس کے ذریعہ وہ اپنی خوشی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔پھر زندگی بھر انہیں اسی طرح مسکراتا ہوا دیکھا۔
دارالعلوم دیوبند سے ۲۰۰۳ ؁ میں فضیلت اور ۲۰۰۴ ؁ء میں ادب کرنے کے بعد وہ المعہد امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ آگئے اور افتاء وقضاء کی تربیت حاصل کی اور غالباً امتحانوں میں اول پوزیشن سے کامیاب ہوتے رہے۔ پھر دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں تقرری ہوگئی، پانچ چھ سال بڑی شان کے ساتھ کتابیں پڑھائیں ، خصوصا سراجی اور قدوری کے مقبول ترین استاذ کی حیثیت سے طلبہ کے دلوں پر حکمرانی کی۔پھر اپنے مادر علمی مدرسہ فلاح المسلمین گواپوکھر بھوارہ میں تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے،یہاں تقریباتین سال گذارنے کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ میں ان کی تقرری عمل میں آئی۔وہاں جب انٹرویو ہورہا تھا، امتحان کمیٹی کے افراد بیٹھے ہوئے تھے، ہدایہ کھول کر انہیں دیا گیا کہ اس عبارت کو سمجھاؤ ،اتفاق سے عبارت درمیان سے تھی اور اس کا ماقبل سے تعلق تھا، انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اس عبارت کا تعلق اوپر سے ہے، او پر کی تقریر شروع کردی،ممتحن بضد کہ آپ کو پڑھی گئی عبارت کا مطلب بتانا ہے،اور ان کا اصرار کہ اوپر کی عبارت سمجھے بغیر اس کا سمجھنا مشکل،بالآخر امتحان میں کامیاب رہے اور تقرر ہوگیا۔یہ مسند حضرت مفتی اویس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تھی جو جید اور صاحب تصانیف عالم تھے۔ مفتی اقبال صاحب نے اس مسند کو رونق بخشا اور تدریس کے ساتھ فقہ وفتاوی کا کام پھر سے باضابطہ شروع ہوگیا۔وہاں انہوں نے امارت شرعیہ کی نگرانی میں سہ روزہ تربیتی کیمپ برائے اساتذہ ومعلمین کا انعقاد کرایا اور بڑی خوش اسلوبی سے اس پروگرام کو کامیاب بنایا،اس پروگرام میں بطور خاص ان کی انتظامی قابلیت کے جوہر دیکھنے کو ملے ۔ اس طرح اساتذہ وانتظامیہ اور علاقہ کے عوام کا اعتماد مفتی صاحب پر مزید بڑھ گیا۔جب تک بستر مرض پر رہے، مدرسہ اصلاحیہ کے اساتذہ وانتظامیہ اور علاقہ کے بہی خواہان اکثر فون سے اور کبھی آکر مفتی صاحب کی عیادت کرتے رہے،اور جب رخصت ہوئے تو جنازہ میں بھی وہاں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
علاقہ میں باصلاحیت، قابل سنجیدہ نوجوا ن عالم کی حیثیت سے جانے جاتے،کسی سے کبھی الجھاؤ نہیں ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ انہیں غصہ نہیں آتاتھا، ایک آدھ بار جلال کے نظارے بھی دیکھنے کو ملے؛ مگر عام طور سے مسکراہٹ ان کی فطرت بن چکی تھی، بڑوں کا احترام ،ہم جولیوں اور خوردوں میں گھل مل کر رہنا ان کا شیوہ تھا۔ بعض مرتبہ سفر وحضر میں انہیں اپنے شاگردوں سے ملاقات دوران دیکھا کہ کوئی کر وفر کا انداز نہیں اپنایا، اسی سادگی سے گھلے ملے نظر آئے، وہ تو شاگردوں کی طرف سے ادب کے انداز سے پتہ چلتا کہ وہ اِن سے پڑھے ہوئے ہیں ورنہ مفتی صاحب کی طرف سے کبھی اس کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ استاذ ہیں۔ 
بڑی صلاحیتوں سے قدرت نے اسے نواز رکھا تھا۔ علم فرائض پر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی، جو پڑھا تھا ازبر یاد تھا، سالوں کی تدریس نے اسے نقش بر حجر بنادیاتھا، تفہیم کا ملکہ غضب کا تھا ؛ مگر اپنی فطری سادگی کی وجہ سے کبھی اس کا اظہار نہیں ہونے دیا،کسی نے انانیت کی بو نہیں پائی۔ خط بڑاپاکیزہ اور خوبصورت تھا۔ تقریر وخطابت سے مناسبت نہیں تھی؛ مگر تحریر غضب کی تھی۔ایک آدھ بارسے زیادہ ان کا وعظ سننے کا موقع نہیں ملا۔کبھی کسی مقرر کی تقریر سن کر مزاحاً کہتے: اگر خطابت اسی کا نام ہے تو میں اس سے اچھا مقرر ہوں ۔ البتہ تحریر کا بڑا عمدہ ذوق پایا تھا۔ دار العلوم دیوبند کے زمانے میں انجمنوں کے تحریری مسابقہ میں شریک ہوتے اور پوزیشن کا انعام حاصل کرتے،ان کے گھر میں دسیوں کتابیں ہیں جن پر ضلعی انجمن اور سجاد لائبریری اور مدنی دارلمطالعہ کی طرف سے پہلی دوسری پوزیشن کا انعام درج ہے۔لکھتے کم تھے مگر جو لکھتے بہت خوب لکھتے،چاہے فتاوی ہوں یا اور دوسری تحریریں ، بہت ٹھونک بجا کر تحریر کرتے۔یہ اور بات ہے کہ لکھنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ جانے اسے نام ونمود سے وحشت تھی یا کیا کہ شہرت وناموری کے ہر مقام سے اپنے کو بچا کر رکھتے۔پردہ کے پیچھے سے کام کرنا جانتے تھے۔جب تک وہ میرے ساتھ مدرسہ فلاح المسلمین میں رہے میرا دست وبازو بن کر رہے۔ رائے بڑی مضبوط اور ٹھوس رکھتے اور اپنی رائے پر انہیں زبردست اعتماد ہوتا۔جب بات چل پڑتی تو اپنے موقف کو بہت مضبوط اور پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے۔ معاملات کے بڑے صاف اور پکے انسان تھے، کوئی اول جھول نہیں،لین دین کو بڑی صفائی سے ادا کرتے، اس میں کبھی ڈنڈی مارنے کی نہیں سوچتے۔ جہاں رہے شان کے ساتھ جئے، اپنی ضمیر کا انہوں نے کبھی سودا نہیں کیا۔
جو پڑھا تھا اِس کی تمنا تھی وہی کچھ اپنے صاحبزادوں کو پڑھائیں، اپنے دونوں چھوٹے معصوم بچوں کی تصویر کے ساتھ کبھی کبھار ایک امیج شوشل میڈیا پر ڈالتے جس میں لکھا ہوتا یا اللہ مجھے حافظ قرآن بنادے۔اس سے ان کے جذبۂ دروں کا پتہ چلتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتاہے کہ تقدیر پر ان کا زبردست ایمان تھا ، انہیں اپنے رب سے کوئی شکوہ نہیں تھا، وہ اپنی تکلیف کا اظہار بھی مسکراکر ہی کیا کرتے،کوئی عیادت کو آتا اور بے چینی بڑھی ہوتی تب تو خاموش رہتے مگر جب افاقہ ہوتا تو مسکراکر بات کرتے اور ہنس کر جواب دیتے۔ کبھی تو ان کی حالت دیکھ کر شبہ ہوتا کہ بیماری تھی ہی نہیں۔ ان کی خلوت تو رب جانے؛ مگر جلوت کی یہی صورتحال تھی کہ کبھی ایک حرف شکایت ان کی زبان پر آیا نہ انہوں نے کسی کے سامنے آنسو بہائے۔ ایک بار اپنی وفات سے صرف پندرہ دن پہلے وہ رودیئے تھے۔۶؍رمضان کونوجوان عالم مفتی محمد امداد اللہ قاسمی کا عمرہ کا سفر تھا، وہ ملنے گئے ، ان کے والد گرامی حضرت الاستاذ مولانا قاضی محمد حبیب اللہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم ساتھ تھے، حضرت قاضی صاحب نے پوچھ لیا مفتی اقبال! اب طبیعت ٹھیک ہے نا؟ یہ سننا تھا کہ لگا صبر کا بندھن ٹوٹ گیا ہے، آنکھوں سے سیلاب امڈ آیا،اور سب کو رونے پر مجبور کردیا۔
بیماری کے زمانے میں وہ کبھی کبھار کہتے کہ قدرت اگرچاہے تو ہاتھ پاؤں صحیح سلامت رہتے ہوئے بھی آدمی چلنے پھرنے سے معذور ہوسکتا ہے۔ کبھی مسکراکر بولتے: اتنے مہینے ہوگئے بستر پر پڑے ہوئے ۔ کبھی مجھ سے کہتے کہ جب استنجا کی ضرورت ہوتی ہے تو روح کانپ جاتی ہے۔اصل بات یہ تھی کہ دو قدم بھی چلنا گھنٹوں کی پریشانی کا باعث بن جاتاتھا، ان کا دم گھٹنے لگتا،منہ سے سانس لیتے اور اس کے لئے بھی بڑا زور لگانا پڑتا،حالانکہ دوچار قدم پر استنجاخانہ تھا؛ مگر صرف اتنا جانے آنے میں دس پندرہ منٹ لگ جاتے اور جو پریشانی جھیلنی پڑتی وہ الگ تھی۔منہ سے سانس لینے کی وجہ سے آخری ایام میں چہرہ پر سوجن سا ہوچلا تھا ۔ادھر پابندی سے ہرجمعہ کو دعائے صحت کیلئے اہل تعلق کو پیغام لکھتے، اپنی خیریت کی اطلاع دیتے، کبھی شکریہ اداکرتے ہوئے لکھتے کہ الحمد اللہ آپ بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کی دعاؤں سے رو بہ صحت ہوں۔خدا نے دل مضطر کی دعاء سن لی اورتھوڑی پریشانی گذارکر ہمیشہ کیلئے صحتیاب ہوگئے۔
قدرے گول سا چہرہ، کھلتا ہوا سانولا رنگ، خوبصورت ناک ،کشادہ پیشانی،آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ذہانت،بارونق داڑھی، گردن میں سفید سوتی رومال، ہونٹوں پر تبسم بکھیرتے ہوئے مستانہ چال کے ساتھ اکثر نمودار ہوتے ، مدرسہ جانا ہوتا تو کاندھے میں ایک بیگ کے ساتھ مجھ سے ملنے ضرور آتے، کبھی چائے کبھی صرف پانی اور کبھی بس ملاقات کرکے مدرسہ کو روانہ ہوجاتے۔میری ان سے بیس سال سے زیادہ کی رفاقت رہی ،کبھی مجھ سے الجھاؤ، تکرار یا تو تو میں میں نہیں ہوئی۔ ہمیشہ اسی ادائے دلبرانہ کے ساتھ نظر آئے۔ کبھی کبھار تفریحاً کہتے کہ میں تمہارا پہلا شاگرد ہوں اور ہم جولیوں کی مجلسوں میں میرے سامنے اس کا تذکرہ کرتے اور کہتے تمہارے شاگردوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام میرا ہونا چاہئیے۔سن وسال میں وہ مجھ سے شایدتین سال کم رہے ہوں؛مگر میرا ان کا چولی دامن کا ساتھ تھا ،وہ میرے سامنے کسی کم سن بچے کی طرح ناز کیا کرتے، ہم دونوں ساتھ ٹہلا کرتے، بازار جاکر سودا سلف لانا ساتھ ہوتا،وہ باہر ہوتے تو مجھے ان کے آنے کا انتظار ہوتاپھر کبھی رکشہ پر کبھی پیدل تو کبھی گاڑی سے، بازار میں ،ہوٹلوں میں ہم دونوں ساتھ دیکھے جاتے۔ اب ان کا معصوم چہرہ اور ان کی بھولی ادئیں بار بار یاد آتی ہیں اور آنکھوں کو نم کرجاتی ہیں۔محسوس ہوتاہے کہ بدن کا کوئی اہم حصہ جدا ہوگیا ہو، میں اپنے کو اب ادھورا محسوس کررہاہوں۔
مرحوم نے اپنے پیچھے نسبی وصہری والدین کے علاوہ تین بھائی، دو بہن، بیوہ اور چار معصوم( دوبچے دو بچیاں)پھول یادگار چھوڑے۔رب دوجہاں ان یتیموں کا والی وکارساز ہے۔موت اٹل حقیقت ہے۔ جو آیا ہے اسے جانا ہے، آنا ہی جانے کی تمہید ہے؛ مگرکچھ لوگ ایسا جاتے ہیں کہ سب کو اداس کرجاتے ہیں، ان کے جانے سے گلشن کا سہاگ اجڑجاتاہے ،برسوں اس کی یادیں بھلائے نہیں بھولتیں، اس کی ادائیں بیکل ہونے پر مجبور کردیتی ہیں۔ مرحوم بھی انہی میں سے تھے،ان کے چلے جانے سے اب تک پورا علاقہ اداس اداس سا ہے۔ہر طرف بے رونقی چھائی ہے۔ جس سے پوچھو تو وہ کہتا ہے کہ طبیعت نہیں لگتی، کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ وہ کیا گئے کہ زمانے کو اداس بناگئے۔ اب تک یقین نہیں آتا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ انسان ہی تھے ، انسانی کمزوریاں بھی ان کے اندر تھیں، لیکن تھے معصومیت کا پتلا، سراپا سادگی، خوبیوں کا مجموعہ۔ زندگی کی صرف چونتیس بہاریں ہی انہوں نے دیکھی تھیں۔ ان کے ساتذہ کو ،دوستوں کو، جاننے والے کو مستقبل میں ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ گئے اپنے وقت پر ہی، جتنا اللہ نے ان کے لئے زندگی مقرر کی تھی اسے پورا کرکے گئے ،اپنے وقت سے پہلے نہیں گئے، مگر اتنی جلدی ہم سے جدا ہوجائینگے اس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ ’’خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود‘‘ ۔ یہاں زبان حال سے سبھی دعاء گوہیں ’’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog