استاد۔۔دھرتی کا مضبوط رشتہ 

Published on January 24, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 536)      No Comments

تحریر۔ فاطمہ سعید الرحمن، کراچی
دنیا میں اللہ رب العزت نے استاد کو ایک عظیم رتبہ و مرتبہ دیا ہے۔اوراس عظیم رتبے کا اظہار انبیاء علیہ السلام کی ہستیوں کی صورت میں کیاہے۔اللہ رب العزت نے ہر نبی کو اپنی قوم ،امت کا سربراہ ومعلم بنا کر بھیجا۔تاکہ ان کو سیدھی راہ اور کامیابی کی پہچان کروا سکے۔دنیا میں سب سے خوبصورت مقدس رشتہ جس میں کسی قسم کی غرض ولالچ شامل نہیں وہ صرف استاد کا ہے۔ اب چاہے استاد اچھا ہو یا برا وہ استاد ہی ہوتا ہے۔استاد کی مثال باپ کی سی ہے جو کامیاب اولاد پر خوش اور ناکام پر نا خوش ہوتا ہے ایسے ہی ایک استاد کا معاملہ ہے اور اگر یہ کہہ دیں کہ استاد کا مرتبہ والدین سے بھی بڑھ کر ہے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ والدین اپنی اولاد کو پالتے پوستے ہیں ،ترقی کے خواہش مند ہوتے ہیں تاکہ بڑھاپے میں بہترین سہارا بن سکے۔لیکن استاد کی ایسی کوئی غرض نہیں ہوتی وہ صرف کامیاب شاگرد کا طلبگار ہوتا ہے۔استاد ایسے باغبان کی طرح ہوتے ہیں جو دانا بوتے ہیں ،پودا لگاتے ہیں ،اس کی حفاظت، درست نشوونما اور اسے پھل پھول سے لدا دیکھناچاہتے ہیں پھل کھانے سے نہیں۔استاد بھی ہماری طرح ایک مخلوق ہے کوئی ماورائی مخلوق نہیں۔اس بے حسی کے دور میں اس کو تمام گناہوں سے ماورا سمجھنا معقول بات نہیں ہے۔جہاں تک اس کے پیشے کا تعلق ہے تو محترم علامہ اقبال کافرمان ہے:’’یہ ایک صنعتگر ہے جو انسانی روح کی صنعت گری کرتا ہے۔جس کا کام آدم زاد کو انسان میں بدلنا ہے جو مشکل ترین کام ہے”۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا گویا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا “استاد ایک ایسا رہنما ہے جس کا کام صرف علمی رہنمائی اور تربیت ھی نہیں ہے بلکہ بچے کی زندگی کی روحانی ،مادی، عقلی اور جذباتی پہلوؤں کی تربیت بھی ہے۔گویا بچے میں کامیابی کے تمام پہلوؤں کو منتقل کرنا استاد کی تعلیم و تربیت کے مقاصد میں شامل ہے۔استاد کو چاہئے کہ اپنے شاگردوں کو غلطیوں سے بچانے کی کوشش کریں اس بات کے لیے لازم ہے کہ استاد معاشرے کے عیوب سے اس طرح خودکو بچائے جس طرح سفید لباس پر معمولی دھبہ بھی نظر آتا ہے اسی طرح معاشرے کے عیوب استاد کے ظاہر وباطن پر نظر آتے ہیں۔اور ایک کامیاب شاگرد کے پیچھے کامیاب استاد کا ہاتھ ہوتا ہے اسی لیے استاد جب بھی اپنے کسی کامیاب شاگرد سے ملتا ہے اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہیں۔اگر خدا نہ خواستہ شاگرد کی علمی و عملی زندگی ناکام ،یا کسی پریشانی میں مبتلا ہو تواستاد کو بھی بے حد دکھ، درد پہنچتا ہے۔ماہر استاد کواپنی ذمہ داری پر تین باتوں کا بے حد خیال رکھنا چاہیے 1۔طلبہ کی صورت میں اللہ کی اشرف المخلوق تمہارے لیے سب سے بڑی امانت ہیں۔اس کی خیانت سے ڈرنا چاہیے۔کیونکہ کل بروزِ حشر اس کے بارے میں پوچھ ہوگی اور خائن کو تو حدیث میں بھی منافق کہا گیا ہے۔2۔اگر استاد اپنے طلبہ کو کامیابی کی منزل پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے تو پوری ایمانداری کے ساتھ تربیت کریں۔3۔استاد اپنے آپ کو ظاہری و باطنی غلطیوں سے بچائیں کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوتا ہے۔اسی لئے مثالی استاد بننے کی کوشش کریں تاکہ بہترین شاگرد پیدا کرسکیں اور اگرشاگرد استاد سے خوش ہو اور ادب کا جذبہ دل میں رکھتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ استاد کی محنت سے بہترین انسان کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس شاگرد استاد سے بدظن ہو یا اس کے دل میں نفرت کی لہر اٹھتی ہوں اور شاگرد استاد سے بھاگتا ہو تو اس میں کئی فیصد استاد کی غلطی ہو سکتی ہیں۔کامیاب استاد کی دو نشانیاں ہیں 1۔ شاگرد کبھی استاد سے جھوٹ نہیں بولے۔2۔شاگرد اپنے استاد پر پورا اعتماد کرنے لگے یہی چیز استاد اور شاگرد کے رشتے کے تقدس کی نشانی ہیں۔سکندر اعظم کا قول ہے:’’میرے والدین نے مجھے آسمان سے زمین پر اتارا اور میرے استاد مجھے آسمان پر لے گئے ہیں “۔*ہم تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے۔بادشاہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ ،خلیفہ ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کی محنت و تربیت کے بل بوتے پر ان کے آگے ادب احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔کیونکہ ان کے اس درجہ تک پہنچنے کا سبب ایک استاد ہے۔ اشفاق احمد نے لکھا ہے کہ اْس روز وہ اِس قوم کی ترقی کا اصل راز جان گئے تھے کہ جسکا واقعہ اپنی کتاب *زاویہ* کے اندر روم میں قیام کے دوران پیش آیابیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہاں اْن کا ٹریفک چالان ہوا اور اْنہیں بارہ آنے جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی، جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو اْنہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ جج اْن سے سوال کرتے رہے مگر اْنہیں جواب دینے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس وہ یہی بول پائے کہ “جی میں یہاں پردیسی ہوں، اْس پر جج نے پوچھا آپ کرتے کیا ہیں؟ میں نے سر جھکا کر جواب دیا :کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اْٹھ کھڑے ہوئے اور سب کو حکم دیا کہ “اے ٹیچر ان دی کورٹ۔” سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔اشفاق احمد کہتے ہیں کہ پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اِسی شرمندگی میں جج نے کہا: کہ “جناب آپ استاد ہیں، ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اساتذہ ہی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھ کر آپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہرحال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔”استاداور شاگردکے درمیان خلوص ومحبت ،جذبہ ایثار اور انسانی ادب واحترام ،کامیابی و کامرانی کا راز صرف مشرقی یا اسلامی معاشرے میں نہیں بلکہ جگہ جگہ تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے کہ ہر باادب طالب علم کی کامیابی کے پیچھے ایک مہربان، شفیق ،محنت کش استاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔استاد نے والدین سے بڑھ کر قربانیاں دے کر شاگرد کی زندگی سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوتی ہے۔ ان ہی میں سے ایک داستان اس “ہیلن کیلر”بچی کی ہے جو بصارت ، سماعت اور بولنے سے قاصرتھی لیکن استانی “این سلیوان” کی انتک محنت نے اوراسکو پڑھاکر کامیاب بنانے کی ٹھان لینے کے عزم نے کھٹن مراحل طے کرنے کے بعد ہی اسکو کامیاب کرکے سکھ کا سانس لیا۔وقت گزرا ،زمانے نے چال بدلی اور نئی روایتوں نے جنم لیاتو صرف استاد اور شاگرد کا رشتہ جو بے لوث محبت و محنت کے بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔چوٹی پر چڑھ نے والے ہوں یاچاند تک رسائی کرنے والے ،خلائی دنیا کو عبور کرنے والے یاسمندر کی گہرائی میں تیرنے والے۔ ان کے پیچھے ایک استاد کا ہی کاہاتھ ہوتا ہے۔ جو قدم رکھنے ،سنبھلنے ،چلنے ،دوڑنے اور آگے بڑھ کر ترقی کے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر تمام مصائب مشکلات سے بچا کر کامیابی کی منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔اسی لے سکندر اعظم نے استاد ارسطو کو کہا تھا کہ: ’’کہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا۔”

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme