سریاب کی بس

Published on January 20, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 344)      No Comments

\"unnamed\"
بچپن میں ہم ایک نظم پڑھتے تھے کہ کراچی کے بس میں سفر ہو رہا ہے۔ اور ہمارے محترم اساتذہ ہمیں اس کی تشریح کر کے بتاتے تھے کہ کراچی کے بس میں سفر کرنے کے بعداک انسان کا حلیہ کچھ اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ اس کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔اور اس کی مثال یوں دی گئی تھی کہ اگر اس کے ہاتھ میں سوار ہوتے وقت مرغا ہو تو اترتے وقت صرف اس کا پر رہ جاتا ہے۔ اور مرغا نا جانے کدھر رہ جاتا ہے۔مگر چونکہ آج میرا موضوع کراچی کی بس نہیں بلکہ سریاب کی بس ہے۔ تو آج میں آپ کو سریاب کے بس کی ہلکی سی سفر کروانا چاہتا تھا۔لیکن میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں اک سفر نامہ تحریر کر رہا ہوں مگرچند دنوں پہلے سریاب کے اک بس میں سفر کی تو اس بس سے جڑے چند عوامل اور ان عوامل سے جڑے پیغام نے مجھے سوچنے اور قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ویسے
دیکھ قسمت کا چکر
صبح کراچی، شام کو سکھر
اس قسم کے ہزاروں اشعار بسوں کے پیچھے لکھے ہوتے ہیں اور اس بس پر لکھاہوا بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھامگر۔۔ ۔ ۔ہوا کچھ یوں کہ ایک شب شال کی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ جب حلقہ یاران برخاست ہوئی تو مجھے اک دوست کے ہمراہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کیلئے سریاب کے بس کا سہارا لینا پڑا۔ہم بس کا انتظار کرتے ہوئے سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ چلتے رہے۔ اتنے میں ہمارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور بس آتی ہوئی دکھائی دی بس آکر رکی اور ہم سوار ہوگئے تو ہماری نظر بس کی سامنے والی ونڈ سکرین پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا’’دعوت تبلیغ زندہ باد‘‘۔ ہم سمجھ بیٹھے کہ شاید بس مالک کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہماری نظر ونڈ سکرین پر لگی ایک قوم پرست اورمارکس ازم کے حامی سیاسی جماعت کے پوسٹر پر پڑی جس پر اس جماعت کے سربراہ کے تصویر کے ساتھ معروف انقلابی لیڈر ڈاکٹر چی گویرا کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ تو ہم پھر سمجھ بیٹھے کہ شاید بس مالک تبلیغی جماعت سے ہیں اور اس بس کا ڈرائیور سوشلسٹ انقلاب کا حامی ہے۔ مگر ہمیں فیصلہ کرنے میں تب دقت ہورہی تھی جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے ساتھ والے شیشے پرایک وفاق پرست قومی جماعت کا پوسٹر لگا ہوا تھا۔ اب ہم اسی بحث میں مبتلا تھے کہ یہ بس مالک اور ڈرائیور کن نظریات کے حامل ہیں۔ کہ دوست نے اشارہ کیاجب دوسری طرف دیکھا تو وہاں ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ایک کالعدم مذہبی جماعت کاپوسٹر لگا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک پیر صاحب کے عرس مبارک کی پوسٹر لگی ہوئی تھی۔ چونکہ بس میں سواری کم تھی تو ہم نے کنڈیکٹر کو بلایا اور اس سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخرمسئلہ کیا ہے کہ آپ نے اپنی بس پر ہر قسم کی نظریات رکھنے والی جماعتوں کے پوسٹر لگا رکھے ہیں۔ تو اس کے بعد ہمیں جو جواب ملا یقیناًاس نے ہمیں سوچنے اور آج مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔جو کچھ یوں تھاکہ چونکہ بلوچستان بلکہ پورا مملکت خداداد مختلف مسائل کا گڑھ بن چکا ہے مگر دہشتگردی،فرقہ واریت ، اور عدم برداشت اہم مسائل ہیں تو ان مسائل کو مدنظررکھتے ہوئے ہمارے مالک نے کہا ہے کہ ہم اپنے بس پر مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے پوسٹرز لگا کر اور نعرے لکھ کر یہ پیغام دیں کہ ہم سب آپس میں بھائی ہیں ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں، صبر و تحمل سے ایک دوسرے کی بات سنیں اور ایک دوسرے کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کریں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی جو صورت پیدا کی جارہی ہے وہ دراصل ان بیرونی عناصر سازش ہے جو اس مملکت خدادا کو مستحکم اور مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کی سازش کو سمجھیں اور ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کے بجائے معاشرے میں اخوت، بھائی چارہ، اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ ۔۔۔۔۔ اس کے بعد ہم بھی اس سوچ میں پڑ گئے کہ کاش اس بس مالک کی طرح ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما بھی یہی سوچتے کہ بھلے ہماری زبان،ہماری ثقافت ، ہمارے رسم و رواج الگ الگ ہوں مگر ہماری پہچان ایک ہے، ہم سب ایک ہیں، ہم سب بھائی بھائی ہیں، ہماری شناخت ایک ہی مملکت خداداد کے نام سے ہے، ہم سب مل کرجو قوت ہم آپس کی لڑائیوں میں ضائع کرتے ہیں اسے اس مملکت خداداد کی ترقی وتعمیر پر خرچ کری، ہم اپنی وہ قوت معاشرے میں عدم برداشت کی صورتحال کے خاتمے کیلئے خرچ کریں، معاشرے میں بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کیلئے کوشش کریں ، اور وہ قوتیں جو ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں واضح پیغام دیں اور ین کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملائیں۔ ۔۔۔۔۔اتنے میں ہماری منزل پہنچ گئی اور ہم بس سے اترنے لگے تہ کنڈکٹر نے ہمیں کہا کہ بس کے پیچھے دیکھیں جب ہم نے بس کے پیچھے دیکھا توپیچھے لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ ’’مجھے دعوت اسلامی سے پیار ہے‘‘ ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy