بورے والا ،مقدرکا سکندرکون۔؟فیصلہ ووٹر کے ہاتھ میںArticle by Dr.B.A.Khurram

Published on July 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 662)      No Comments

تجزیہ نگار۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا الیکشن میں حصہ لینے والوں نے اپنی سر گرمیاں تیز کر دیں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کو فائنل کرنے میں تذبذب کا شکار رہیں ٹکٹ دینے کے بعد اگر کوئی دوسرا الیک ٹیبل میسر آجاتا تو پہلے امیدوار سے ٹکٹ چھین کر دوسرے الیک ٹیبل کے قدموں پہ نچھاور کردیا جاتا ہے الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے جنہیں اپنی جماعتوں کے ٹکٹوں کے حصول میں کامیابی ہوئی وہ اپنی الیکشن مہم چلانے میں مصروف ہیں یہ جوڑ توڑ اور داؤ پیج لیکشن کے آخری روز تک جاری رہیں گے عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیاں بام ثریا کو چھو رہی ہیں بجلی کے کھمبے اور اہم عمارتیں امیدواروں کی فلیکسوں سے سج گئیں سیاسی ڈیروں کی رونقیں پھر سے بحال ہو چکی ہیں غربت کے ستائے ان سیاسی ڈیروں پہ اپنے پاپی پیٹ کی آگ بجھانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں امیدوار بھی اپنے ووٹروں کے ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اگر ان ووٹروں کے ’’چونچلے اور ناز نخرے ‘‘نہ اٹھائے گئے تو پھر 25جولائی کو ان کی سیاست کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ڈوب جائے گا اور ان کی آنے والی پانچ سالہ زندگی گھٹاٹوپ اندھیروں کی نذر ہوجائے گی اور اب ووٹر بھی اتنا ’’سیانا‘‘ ہوچکا ہے کہ انہیں بھی پتا ہے الیکشن کے روز تک ہی ان کی فرمائشیں پوری کی جائیں گی اور اگلے پانچ سالوں میں جیتنے والے انہیں منہ بھی نہیں دکھائیں گے مشاہدے کی بات ہے ووٹر کی اہمیت پول والے دن تک ہی ہوتی ہے ووٹر اور سپورٹر اپنی اپنی پسند کی جماعت کے امیدواروں کے ساتھ انتخابی مہم پہ نکل پڑے ہیں مون سون رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہے شدید گرمی اور حبس میں امیدوار دن کی بجائے راتوں کو الیکشن مہم چلانے پہ مجبور ہیں جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والہ این اے 162کی سیاسی صورت حال بھی ملک کے دیگر حلقوں سے مختلف نہیں رہی اس حلقہ سے مسلم لیگ ن ،پی ٹی آئی اور پی پی پی نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ تھما کر یو ٹرن لیتے ہوئے ٹکٹ واپس لے کر دوسرے امیدواروں کو دیئے جس سے ووٹر اور سپورٹر کے ساتھ ساتھ امیدوار بھی پریشان دکھائی دیئے این اے 162 بوریوالا میں 2018ء عام انتخابات کے لیے کل چار لاکھ 23 ہزار 613 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے دو لاکھ 38 ہزار 501 مرد اور ایک لاکھ 85 ہزار 112 خواتین ووٹرز رہیں۔اس حلقے میں 2013ء کے انتخابات میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 91 ہزار 294 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار 304 تھی۔
پی ٹی آئی نے این اے 162اور نیچے دو صوبائی حلقوں میں ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ کوپورے پینل یعنی قومی اور ساتھ دو صوبائی حلقوں کے ٹکٹ جاری کردیئے جیسے ہی انہیں ٹکٹ جاری ہوئے تو یہاں سے پی ٹی آئی کے نظریاتی امیدواروں نے ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ کے پورے پینل کو ٹکٹ جاری کرنے کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ’’ جٹ گروپ ‘‘کے ٹکٹ کینسل کرانے کے لئے سرڈھڑ کی بازی لگادی اور بطور احتجاج الیکشن میں جانے کا اعلان کر دیا ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ کی ہمشیرہ ڈاکٹرعارفہ نذیر جٹ نے این اے 163میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما و سابق ممبر قومی اسمبلی محمد اسحاق خاکوانی کے مدمقابل الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا جس سے صورت حال خراب ہوتی گئی عجیب صورت حال تھی کہ ایک حلقہ سے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا جا رہا ہے اور دوسری جانب ساتھ والے حلقہ میں پارٹی امیدوار کے مدمقابل آکر اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو ہرانے کے بلند وبانگ دعوے کئے جانے لگے اس کشمکش میں پارٹی نے پورے پینل کے پارٹی ٹکٹ منسوخ کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے نظریاتی گروپ کو ٹکٹ جاری کردیئے نئے ٹکٹ سابق ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری خالد محمود چوہان کو این اے 162 اور نیچے پی پی 230 خالد نثار ڈوگر شہری حلقہ جبکہ دیہی حلقہ پی پی 229سے ہمایوں افتخار چشتی کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیئے نئی صورت حال میں ’’جٹ گروپ ‘‘نے خم ٹھونک کر اپنا نیا پینل ترتیب دیا اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کااعلان کردیا نئے بننے والے پینل میں ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ قومی اسمبلی جبکہ پی پی 230 عبدالحمید بھٹی اور پی پی 229چوہدری عثمان وڑائچ شامل ہیں عبدالحمید بھٹی بورے والہ سے 1993میں ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ چوہدری عثمان وڑائچ دوبار تحصیل ناظم رہ چکے ہیں مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کے لئے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کو ٹکٹ جاری کیا پی پی 230 کے لئے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں اورپی پی 229 سے سابق ایم پی اے چوہدری یوسف کسیلیہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیئے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا این اے 162سے ان کے برادر حقیقی چوہدری فقیر احمد آرائیں،پی پی 230 سے سردار خالد محمود ڈوگر اورپی پی 229سے چوہدری یوسف کسیلیہ ہی کو ٹکٹ جاری کیا گیا نئے سیٹ اپ سے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد آرائیں نے اپنی جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے این اے 162 اور پی پی 230 سے آزاد حیثیت سے انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کے اعلان سے ایک زبردست سیاسی ہل چل مچادی گگو منڈی سے بھی اپنے ساتھ ایک امیدوار کا پینل بنا لیا اور ’’گھڑے‘‘ کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں مسلم لیگ کے کونسلرز کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے پی پی پی بھی ان دو جماعتوں سے پیچھے نہ رہ سکی پہلے این اے 162سے چوہدری کامران یوسف گھمن کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا پھر ٹکٹ منسوخ کرتے ہوئے شگفتہ چوہدری کو ٹکٹ جاری کردیا گیا ابھی نئے فیصلے کی سیاسی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پارٹی کواپنا فیصلہ بدلنا پڑا اور ٹکٹ چوہدری کامران یوسف گھمن کو دوبارہ دے دیا گیا’’مفاہمت کے جادوگر‘‘ آصف علی زرداری اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے میں تو کامیاب رہے لیکن بھٹو صاحب کی وہ پارٹی جو آمر نہ ختم کرسکے اپنی نالائقیوں سے پی پی پی کو تباہی کے دھانے پہ لاکھڑا کیا پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح بورے والا میں بھی پی پی پی نیم مردہ ہو چکی ہے ووٹر روٹھ چکے ہیں بہت سے’’ اپنے ‘‘پی ٹی آئی کو پیارے ہو گئے ہیں اس کے باوجود پی پی پی کا نظریاتی ووٹ حلقہ میں موجود ہے یہ نظریاتی ووٹ ’’روٹھا اور سویا ‘‘ہوا ہے ضرورت اس امر کی ہے اگر چوہدری کامران یوسف گھمن پی پی پی کے روٹھے کو منانے اور سوئے ہوئے کو جگانے میں کامیاب ہو جائیں تو پی پی پی کے مردہ گھوڑے میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے ایسا کرنے سے گھمن صاحب مقابلے میں تو شاید نہ آسکیں لیکن ’’بھرم‘‘ ضرور رہ جائے گا 
پی ٹی آئی مکمل طور پہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک دھڑے کے پاس پارٹی ٹکٹ ہیں جبکہ دوسرا دھڑا سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد جٹ کی سربراہی میںآزاد حیثیت سے ’’ٹیلی ویژن‘‘ کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں سرگرم ہے ’’جٹ گروپ ‘‘نے اپنے دور حکومت میں حلقہ میں اربوں کے ترقیاتی کام کرائے اور میگا پروجیکٹ سوئی گیس کی فراہمی ان کا عظیم کارنامہ ہے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر چوہدری خالد محمودچوہان ملحقہ ماچھیوال کے حلقہ سے ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں ان کے والد محترم چوہدری قربان علی چوہان 1988میں آزاد حیثیت ایم پی اے اور 1993میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں 2013 ء کے عام انتخابات میں چوہان فیملی نے ایم این اے کا الیکشن لڑا لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی اب بھی اس فیملی کوپی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے کے باوجود قومی اسمبلی کی نشست کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے مدمقابل’’اپنے اور غیر‘‘ دونوں ہیں غیروں سے زیادہ اپنے انہیں زیادہ نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہیں چوہدری نذیر احمد جٹ دو مرتبہ اسی حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں دونوں مرتبہ مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے نااہل ہونے کے بعد پی پی پی میں چلے گئے اورضمنی انتخاب میں اپنے بھتیجے چوہدری اصغر علی جٹ کو میدان میں اتارا ان کے مدمقابل ’’عوامی اتحاد‘‘ بنا اور اس اتحاد کی سربراہی پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرکے والد گرامی چوہدری قربان علی چوہان کے حصہ میں آئی پی پی پی کے مقابلے میں چوہدری نذیر احمد آرائیں کو لے کر آئے ضلع وہاڑی کی سیاست کے’’ کنگ میکر ‘‘ مسلم لیگ کے سابق ایم این اے سید شاہد مہدی نسیم شاہ نے اپنے بھائی سید ساجد مہدی کو سیاسی دنگل میں لے آئے جوڑ توڑ خوب ہوا لیکن فتح پی پی پی کے امیدواراصغر علی جٹ کے حصہ میں آئی ’’عوامی اتحاد‘‘ اور ’’نسیم شاہ‘‘دونوں دھڑے چاروں شانے چت ہوگئے ان دونوں کی شکست مسلم لیگ کے ووٹ بنک کی تقسیم تھی ۔25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے پارلیمانی سیاست سے آؤٹ ہوئے گئے ’’ن‘‘ نے ان کے برادر حقیقی چوہدری فقیر احمد آرائیں کو ٹکٹ جاری کیا ’’نیو انٹری‘‘ کے باعث الیکشن میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شہری صوبائی حلقہ سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں صوبائی نشست پہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں بہت متحرک رہے ترقیاتی کام بھی خوب کرائے اور اپنے ووٹروں سے مسلسل رابطے میں رہے ووٹوں کی تقسیم سے ’’ن ‘‘ کے ٹکٹ ہولڈڑسردار خالد محمودڈوگرملن سار ،ہر دلعزیز اورسرگرم ورکر کی حیثیت سے حلقہ میں اپنا ایک خاص مقام رکھنے کے باوجودپریشان ہو سکتے ہیں انہیں مقابلے کی ریس میں بھر پور انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ’’ن ‘‘ کا باغی امیدوار ’’ن ‘‘ کے ووٹ بنک پہ ہاتھ صاف کر سکتا ہے پی ٹی آئی کے سردار خالد نثارڈوگرکے ساتھ بھی یہی مسلہ درپیش ہے ایک ہی حلقہ سے ڈوگر برادری کے دوامیدوار آمنے سامنے اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران کے لئے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں متحدہ مجلس عمل بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لئے اپنے امیدوار سامنے لا چکی ہے این اے 162میں قاری شاہیں اقبال قصوری اور پی پی 230 میں توصیف مجید چوہدری الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یہ امیدوار یقیناًمذہبی ووٹ حاصل کریں گے ماضی میں مذہبی ووٹ ہمیشہ مسلم لیگ کے پلڑے میں پڑتا رہا ہے ختم نبوت کے ایشو پہ مذہبی ووٹ ’’ن‘‘ سے دور ہوچکا ہے جس کی واضح مثال پیر سیالوی کی پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت ہے گگو منڈی کے صوبائی حلقہ میں مسلم لیگ ن ، جٹ گروپ کے امیدوارچوہدری عثمان وڑائچ اورپی پی پی کے سابق ایم پی اے چوہدری محمود اختر گھمن کے صاحبزادے سلمان محمود گھمن جو کہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان تینوں امیدواروں کوخوب محنت کی ضرورت ہے کیونکہ جٹ برادری کاووٹ بنک تین دھڑوں میں بٹ چکا ہوا ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہمایوں افتخارچشتی کے لئے میدان کارساز ہے اگر وہ لوکل ووٹ بنک اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر فتح ان کا مقدر بن سکتی ہے جٹ برادری کا ووٹ تقسیم ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری یوسف کسیلیہ اپنی سابقہ کارکردگی کی بنا جیت کے لئے پر امید نظر آتے ہیں ’’جٹ گروپ‘‘ کے چوہدری عثمان احمد وڑائچ کے بھائی چوہدری فیاض وڑائچ بھی اسی حلقہ سے پی پی پی کے ٹکٹ پہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ’’ وڑائچ فیملی‘‘ کو الیکشن کے ’’داؤ پیج ‘‘خوب آتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں یہاں پہ سخت محنت کی ضرورت ہے پارٹیوں کے نظریاتی ووٹوں کی حقیقت اپنی جگہ ایک مسلمہ ہوتی ہے لیکن حلقہ میں خاموش ووٹ ’’ہوا اور فضا‘‘ دیکھ کر اپنے قیمتی ووٹ کا فیصلہ کرتا ہے اور یہی خاموش ووٹ کسی بھی امیدوار کی فتح و کامرانی کا سبب بنتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران کون سا امیدوار چلتی ہوا کا رخ اپنی جانب موڑ کر ’’خاموش ووٹر‘‘ کی فضاکو اپنے حق میں کرتا ہے اس کا فیصلہ 25جولائی کو ’’ووٹر‘‘ہی نے کرنا ہے اور یہ ووٹر کس جانب جھکاؤ کرے گا قبل از وقت کہنا مشکل کام ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes