امریکا افغان طالبان سے برائے راست مذاکرات پر مجبور 

Published on August 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 245)      No Comments

میرافسر امان 
جیسے افغانستان میں بلند بالا پہاڑوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا اسی طرح اس کے باشندے ،افغانوں کو بھی محکوم نہیں کیا جا سکتا ۔ بڑے بڑے جابروں کو یہاں آکر پسپا ہونا پڑتا ہے۔ فلسفی شاعر حضرت علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندا صحرائی یا مر د کوہستانی 
دنیا میں اللہ نے ان دو طبقوں ، بندہ صحرائی یا مردا کوہستانی ہی سے ظالموں کو عبرت ناک سبق سکھایا۔ طاقت ور طبقے ہمیشہ، دبی ہوئی اللہ کی غریب مخلوق کو اس حد تک تنگ کریں کہ ان کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور چھلک جائے تووہ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کی تشریع بقول حضرت علیؓ کہ کفر کی حکومت توچل سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی۔ کیا قریب کی تاریخ میں بر طانیہ، روس اور اب شیطان کبیر امریکہ نے دنیا اورخصوصاً مسلم دنیا کو دکھوں سے بھر نہیں دیا ؟اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ اگر اللہ ایک طبقے سے دوسرے طبقے کو شکست سے سبق نہ سکھائے تو دنیا دکھوں سے بھر جائے ۔ اس کی تعبیر دنیا سے برطانیہ کا سیکڑ جانا اورسویت یونین کا شیرازہ بکھرناہے۔اور اب امریکا افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست و ریخت میں مبتلا ہوناہے۔ آہئے برطانیہ،سویت روس اور آخر میں امریکا کی شکست پر تجزیہ کرتے ہیں۔ 
برصغیر میں مغلوں کی۶۰۰؍ سو سالہ حکمرانی کی پسپائی کی شروعات کے وقت پرتگالی کپتان واسکوڈیگاما۱۴۹۸ء میں صرف تین بادبانی جہازوں کے دستے کے ساتھ جنوبی ہند کی کا لی کٹ بندرگاہ پہنچا اور گواہ کو مستحکم جنگی مرکز بنایا۔۱۵۰۱ء میں شاہ پرتگال نے فرمان کیا کہ جہاں بھی ممکن ہو موروں( مسلمانوں)کو قتل کیا جائے اور ہندوؤں کو تعلیم دے کر دفتری کام میں لیا جائے۔ انگریز اور دوسری یورپی قوموں کو ہند وستان میں قدم جمانے کے لیے۷۰؍سال تک آپس میں کش مکش کرنی پڑی تھی ۔ بلا آخر برطانویْ انگریز کامیاب ہوئے۔ انگریزسوداگروں کی سب سے پہلی تجارتی کوٹھی ۱۶۱۲ء میں سورت میں قائم ہوئی۔ بھر ریشادونیوں سے فرنگی سوداگر ہندوستان پر قبضہ جماتے ہوئے افغانستان تک پہنچ گئے۔ آ خر میں اپنی مغربی سرحد کو سرخ کیمونسٹ انقلاب سے محفوظ کرنے کے لیے۱۸۹۳ء میں افغانستا ن سے برطانیہ نے بین الاقوامی سرحد کا معاہدہ کیا۔ جو سر مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدلرحمان کے درمیان ہوا۔ اسی معاہدے کے نام سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ڈیورنڈ کہلائی۔ پھر مختلف وقتوں میں اس کی تجدید ہوئی۔ آخر میں۱۹۳۰ ء میں افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ سے تجدید ہوئی ۔اسی ڈیورنڈ لین کا قصہ افغانستان کی قوم پرست حکومت، جس نے قیامِ کے وقت پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا،نے شروع سے پاکستان کے ساتھ چھیڑے رکھا۔انگریزوں نے سرخ انقلاب کو دریائے آمو تک محدود رکھنے کی غرض سے افغانستان پر۱۸۳۸ء میں اپنے جنوبی پنجاب اور بمبئی کے مرکزوں سے حملہ کیا اور پٹھو شاہ شجاع کو تخت پر بٹھایا۔ اس کے بعد افغان قبائل نے انگریزوں پر حملے شروع کیے۔ کابل میں انگریز ایجنٹ سر الیک زنڈر برنیس کو قتل کر کے ٹکرے ٹکرے کر دیا ۔ اسی دوران دوست محمد خاں کا فرزند ، اکبر خاں اپنی جمعیت کے ساتھ حملہ آور افغان قبائل کے ساتھ آ ملا اور انگر یزوں سے کہا شاہ شجاع کود ست بردار کریں، انگریز سپاہ ملک خالی کریں اس وقت سیاسی اقتدار انگریز سفیر میک ناٹن کے ہاتھ میں تھا۔ اکبر خان نے اسے طلب کیا اس نے اکبر خان سے بدتہذیبی سے بات کی۔ اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا گیا۔ تمام توپیں اور گولہ بارود اکبر خان نے قبضے میں لے لیں۔ باقائدہ فوج جو پانچ ہزار اور گیارا ہزار لشکری تھے ۱۸۴۲ ء کو پشاور کی طرف روانہ ہوئے ان فوجیوں کو کابل کے تنگ درے میں غلزئی قبائل نے گھیر لیا اور ختم کر دیا کیوں کہ اس قبیلے پر انگریزوں نے بہت ظلم کیا تھا ۔مشہور ہے کہ پورے لشکر میں سے صرف ایک فرنگی ڈاکڑ واپس پشاورآیا۔کابل کی دوسری جنگ میں بھی انگریزوں نے بازی ہاری اور ۱۸۴۲ ء میں واپس ہوئی۔خدا کے سوا نہ کوئی افغانستان کے پہاڑوں کو ختم کر سکتا ہے نہ افغانوں کو۔ کیونکہ کہسار باقی …..افغان باقی۔ 
موجودہ افغانستان کی آزاد مملکت کا وجود احمد شاہ درانی نے رکھا۔ اس کی حکومت کابل سے پنجاب،کشمیر،سندھ،بلخ وبدخشان اور مشرقی ایران کے اضلاع تک پھیلی ہوئی تھی۔۱۸۰۹ء میں بارک زئی قبیلے کے پائندہ خان نے کابل کو فتح کیا۔ اس خاندان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کو سردار دؤد خان نے معزول کردیا ۔روسیوں نے داؤد کو بھی خاندان سمیت موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ اپنے پٹھو حکمران بے برک کارمل کو افغانستان پر مسلط کیے۔ تقریباً۳۵۰ سال سے زار روس کی حکومت اور اس کے بعد اشتراکی روس کی حکومت نے 
ترکی سے چین کی سرحد سنکیاک تک کے علاقے فتح کیے۔ سویت یونین دوسری طرف افغانستان کی سرحد دریائے آمو تک پہنچ گیا۔ روسی حکومت کے بانی حکمران ایڈورڈ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ دنیا میں وہ قوم حکمرانی کرے گی جس کے قبضے میں خلیج کاعلاقہ ہو گا ۔اس پلائنگ کے تحت روس نے ا فغانستان میں ظاہر شاہ کے دورحکومت کے دوران کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک وقت آیا کہ کابل یونیورسٹی میں اشتراکیوں کا قبضہ ہو گیا اور سارے افغانستان کو روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر کام شروع کر دیا گیا۔کچھ مدت بعد سردار داؤد نے ظاہر شاہ کو معزول کر کے افغانستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور ذلفقار علی بٹھو کی حکومت کے دوران پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔یہ چیز روس کو پسند نہ آئی اور آ خر کار روس نے سردار داؤد کو قتل کروا کر اسی بہانے ببرک کارمل روسی ایجنٹ کو روسی ٹنکوں پر سوار ہو کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغانوں نے دنیا کی سب سے بڑی مشین، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار کے علاوہ ہر قسم کے جنگی ہتھیار تھے کا مقابلہ درے کی بندوقوں سے شروع کیا۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم تھی۔ اس لیے روس مخالف بلاک امریکہ نے بھی اس جنگ میں اشتراکیوں کو شکت سے دو چار کرنے کے لیے جنگ میں تین سال بعد شرکت کی۔ مسلمان علماء نے اس جنگ کو جہاد کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے مسلمان اس جہاد میں شریک ہونے کے لیے افغانستان میں آنے لگے دنیا کے مسلمان ملکوں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس جنگ میں حصہ لیامگر یہ جنگ افغانیوں نے خود لڑی لاکھوں شہد ہوئے ،لا کھوں اپاہچ؍معذور ہوئے، لاکھوں نے پڑوسی ملکوں اور دنیا میں مہاجرت کی زندگی اختیار کی اور بلا آ خر روس کو شکت ہوئی ۔افغان تیس سال سے حالت جنگ میں ہیں مگر زندہ ہیں ۔اس فتح میں کلیدی امداد مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ سے اللہ کی طرف سے تھی ا س جنگ میں منطقی انجام امریکہ اور امریکی بلاک کی امداد اور اسٹنگر میزائل نے ادا کیا۔ دنیا نے افغانوں کے خون کی وجہ سے سفید ریچھ سے نجات حاصل کی اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں آزاد ہوئیں چھ اسلامی ریاستوں قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان کبھی بھی محکوم نہیں رہے۔ کیونکہ کہسار باقی… افغان باقی۔ 
پھر دنیا کے چالیس ملکوں کے نیٹو اتحادی ،امریکہ اور پاکستانی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ عرصہ۱۷ ؍سال سے افغانستان پر حملہ آور ہیں۔ پھر ظلم کی داستان شروع ہو ئی۔ بلگرام اور گوانتا موبے جیل کے قید ی ان ظالموں کی داستا نیں سنا رہے ہیں۔پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک فون کال پر ان کے سارے مطا لبات مان لیے۔ امریکہ نے تمام افغانستان کو نیست ونابود کر تورابورابنا دیا۔ مگر فاقہ کش افغانوں کے حوصلے پست نہ کر سکا۔ایک ایک کر کے نیٹو فوجی اپنے ملکوں کو چلے گئے۔ا مریکہ افغانستان سے فرار کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ امریکہ اپنی جنگ کو پاکستان میں لے آیا ہے۔ ہمارے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکا ہے ۔ہمارے کئی جرنلوں ، فوجیوں سمیت ۷۰؍ ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں۔ ڈرون حملے نے خود کش حملہ آور پیدا گئے۔ جنہوں نے پاکستان میں بربریت کی انتہا کر دی۔ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہوئیں۔غیر ملکی جاسوس ہمارے ملک میں انسانیت دشمن کاروائیاں کرتے رہے۔ بلیک واٹر دہشت گرد تنظیم ملک دشمن کاروائیاں کرتی رہیں۔ ہماری مساجد،امام بارگاہیں، بزرگوں کے مزار، ہمارے بازار، کرکٹ میچ کے مہمان،ہمارے سیاسی لیڈر اور ان کے بچے، ہمارے مذہبی رہنما،ہماری بچیوں کے اسکول سمیت ،ہمارے دفاحی اداروں پر حملے ہوئے۔ کیاکچھ ہے جو تباہ نہ ہو گیا ہو؟ اس پر بھی صلیبی امریکہ خوش نہیں ہے ڈو مور ڈومور کی رٹ لگا رہے ہیں ۔ پاکستان کے محب وطن لوگ چلاتے رہے یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔بلا آخر موجودہ سپہ سالار نے کہہ دیا کہ پاکستان نے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ اب دنیا ڈو مور کرے۔امریکا نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کی فوج کو افغان طالبان سے لڑا دیا جائے۔امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر افغان طالبان سے مذاکرات کے کئی دور کیے۔ مگر افغان طالبان کی ایک ہی بات ہے کہ ہمارے ملک سے بیرونی فوجیں نکل جائیں تو ہم مذاکرات کریں گے۔
صاحبو! امریکہ کو بھی اللہ شکست سے دوچار کرنے کے لیے افغانستان میں گھیر لایاتھا۔ اس کو بھی پہلی دو سپر طاقتوں، برطانیہ اور سویت یونین کی طرح فاقہ مست افغان شکست دے چکے۔ اب فیس سیونگ کے لیے امریکا نے افغان طالبان سے برائے راست مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔ امریکا جلد افغانستان سے نکل جائے گا۔انشاء اللہ۔ اللہ نے افغانستان کے کہساروں کو جب تک قائم رکھنا ہے افغانوں کو بھی قائم رکھے گا۔کیونکہ افغانستان کے کہسار باقی۔۔۔ افغان باقی۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes