سنگین مسائل اور سنجیدہ حل کی تلاش 

Published on September 25, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 216)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
ملک عزیز ایک طویل عرصہ سے اَ ن گنت مسائل کا شکار ہے ان میں سے بعض سنگین نوعیت کے ہیں جن کے باعث ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے سب سے بڑا مسئلہ کرپشن و بد عنوانی کا ہے جوہمارے اداروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلی ہوئی ہے ہر شعبہ اس کی زد میں ہے اس کے خاتمے کے لئے سخت قوانین و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے اور دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے نئی حکومت ابھی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے بے لگام اپوزیشن اس کے پیچھے پڑی ہے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے عمران خاں کی حکومت کو چڑیلوں نے آن گھیرا ہے تنقیدی مزائیلوں اور گولوں سے بمباری کا سلسلہ جاری و ساری ہے جب سے عمران خاں کی حکومت وجود میں آئی ہے عدلیہ اور فوج کی مخالفت کا زور ٹوٹ گیا ہے اور سارا زور اب ڈیم کی مخالفت میں لگ گیا ہے ۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ نئی حکومت کو چلنے نہ دیا جائے اور کسی آمر کو حکومت پر قبضہ کئے جانے پر مجبور کردیا جائے جوکہ اب نا ممکن نظر آتا ہے گذشتہ چند برسوں سے سابق حکمرانوں نے اپنا پورا زور مارشل لاء لگوانے میں لگایا ہے ہر حربہ استعمال کیا مگر ہمارے محب وطن جرنیلوں نے انکی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی انتخابات میں دھاندلیوں کے شور پر بھی کسی نے کان نہیں دھرے کرپشن کے مقدمات سے بچنے کے لئے کرپٹ سیاسی مافیا نے ہر حربہ استعمال کیا ہنگامہ آرائی اور احتجاجی صورتحال کو جنم دینے کا روئیہ اپنا یا مگر انہیں ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کا ایک بڑا حصہ تقسیم ہو چکا ہے اور اس تقسیم سے ملکی جمہوریت ، آزادی اور سلامتی کے خطرات پیدا ہونا فطری عمل ہے اس قسم کی صورتحال سے ملکی معشیت اور جمہوری روئیے خطرات کی زد میں ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی از سر نو تشکیل کریں سوچ کا نیا انداز اور نئی ترجیحات اپنائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پرانے طور طریقوں سے جان چھڑائیں اور اس تصور سے نجات حاصل کریں کہ سلامتی کو دیگر تمام چیزوں پر برتری حاصل ہے کیونکہ یہ تصور نہ صرف اجتماعی زندگی بلکہ ہر فرد کی زندگی کے پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے جن میں فرد کی عادات ، حالات اور پیشے حتیٰ کہ نئی زندگی تک متاثر کرتا ہے اس لئے لازم ہے کہ ہم ماضی کے مقاصد سے جان چھڑائیں ایک بات جو سیا ستدانوں کے لئے مشکل ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ عوام معاشرے کے لئے ضروری بعض نئے مقاصد سے آگاہ ہیں اور انہیں نئی صنعتوں اور نئے پیداواری طریقوں کی ضرورت کا احساس ہے البتہ لوگوں کو یہ علم نہیں کہ مستقبل میں کون سی راہیں اور طریقے استعمال کئے جائیں تاکہ معاشرے کو کم نقصان پہنچے بہر حال کسی نئی پالیسی کی کامیابی کی ضمانت نہیں مل سکتی سیاست اور معاشرہ جبلی طور پر ابھی تک پرانے معاشرتی دائرے میں گھوم رہے ہیں تبدیل شدہ معاشرے کے نئے مقاصد مشکل اور متبادل راہوں پر سفر اور انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں یہ سفر خوش قسمتی کا نہیں بلکہ مشکلات کا سفر ہوگا مستقبل کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم روحانی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ لچک کا مظاہرہ کریں ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت دکھ اٹھائے ہیں نہ صرف سینکڑوں فوجی ، پولیس کے اہلکار اور افسر شہید کروائے ہیں بلکہ عام شہریوں کی ان گنت ہلاکتیں ہوئی ہیں علاوہ ازیں کھربوں روپوں کی جائیدادیں اور قیمتی اثاثے ملیا میٹ ہوئے ہیں ہمارے دشمنوں نے دہشت گردی کی اس جنگ میں ہمارا بے جا نقصان کیا ہے کلبھوشن نے تو جو کیا سو کیا ہمارے سابق حکمرانوں نے بھارت میں ہونے والی ساری دہشت گردی ہماری محب وطن فوج پر ڈال کر دشمنوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ بین الا اقوامی اداروں کی حمائت حاصل کر کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طور پر نقصان پہنچائیں اور ملک پاکستان کو خارجہ پالیسی کے ذریعے تنہائی کا شکار کروائیں سابق حکمرانوں کے روئیے او ر سیاسی فلسفے کی سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہماری نئی حکومت کو اپوزیشن کے منفی ہتھکنڈوں او ررویوں سے چھٹکارا دلوایا جائے افسوس صد افسوس ہمارے عوام شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا نظر آتے ہیں اور “کرپٹ مافیا سیاسی شخصیتوں “کے جال سے باہر نہیں نکل پائے جب عوام یہ نعرے لگاتے پائیں گے یااللہ یا رسولؐ زرداری اور شریف خاندان بے قصور تو ان کا احتساب کیسے ہوگا سیاسی لوگوں کا یہ کہنا درست قرار پایا جائے گا کہ احتساب عوام کریں گے اور یہ انتخابات پر منحصر ہوگا اگر ایسی صورتحال جنم لیتی ہے تو کرپٹ مافیا سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کا عدالتی نظام نا کامی سے دو چار ہو کر رہے گا نئے وزیر اعظم عمران خاں کو چاہئیے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے جامعہ منصوبہ بندی کریں عوام سے جھوٹ مت بولیں ہر ماہ عوام کو ملکی صورتحال سے آگاہ کرتے رہیں عمران خاں سمجھتے ہیں کہ انکی راہ میں کتنے تیکھے کانٹے ہیں جو حکومتی پاؤں کو چلنے سے روکیں گے ایسے کانٹوں کی کٹائی کے لئے سنجیدہ عوامی حلقوں کو سامنے آنا ہوگا اور حکومت سے بے لوث مدد اور تعاون کرنا ہوگا عوام کو سمجھ لینا چاہئیے کہ 6ستمبر 1965کی جنگ ابھی جاری و ساری ہے اور ہمیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں کے ساتھ بھی پنجہ آزمائی جاری رکھنا ہے جو ہماری نظر یاتی سرحدوں کو بھی ناکارہ بنا رہے ہیں قوموں پر کڑے وقت بھی آیا کرتے ہیں ہم متحد ہو کر زور آزمائی کے قابل ہو سکتے ہیں بد قسمتی سے ہمارا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کرپٹ اور بد عنوانی کا شکار ہے جو ہمارے اندرونی معاملات کو بڑی بُری طرح متاثر کئے ہوئے ہے ہمارے ہاں ہر شخص لٹیرا ہے کس کس کو پکڑیں گے ایک موچی نائی سے لے کر صنعتکار اور جاگیر دار تک ہر شخص لوٹ مار میں شب و روز ملوث نظر آرہا ہے دودھ فروخت کرنے والا ہو ، شوز فروخت کرنے والا ہو ، کپڑا بیچنے والا ہو ، ادویات کے سٹو ر کا مالک ہو ، مٹھائی والا ہو حتیٰ کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا ملاوٹ کے ذریعے ناپ تول کے ذریعے بد دیانتی پر اُترا ہوا ہے کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکے ہمارے ترقیاتی منصوبوں میں انتہائی کرپشن ہے نالیوں کی تعمیر سے لے کر میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں تک مہا کی بد عنوانیاں ہیں ہر چھوٹے بڑے شہر کے سیوریج نظام کی ناکامی کرپشن کے باعث ہے صحیح سائز کے پائپ ڈالنے کے بجائے چھوٹے سائز کے پائپ استعمال کیے جاتے ہیں اسی طرح صاف شفاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی کرپشن کے باعث ناکامی سے دو چار ہیں ماہرین کہتے ہیں فنی تعلیم صنعتی انقلاب کی اساس ہے افسوس کہ ٹیوٹا کی انتظامیہ نے لوٹ مار کا ایسا نطام ترتیب دے رکھا ہے کہ ٹریننگ پر خرچ کرنے کی بجائے زیادہ تر فنڈز دعوتوں اور افسروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں آپ کسی شعبے کی ضمانت نہیں دے سکتے میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں دینا ٹیوٹا کا شیوہ رہا ہے اس محکمہ پر سابق وزیر اعلیٰ فخر کرتے رہے ہیں جبکہ سب سے زیادہ نقصان ٹیوٹا کے سیاسی چئیرمینوں نے کیا ہے ان لوگوں کا آؤٹ ہونا بھی ضروری ہے آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ کس کس کو پکڑیں گے یہاں تو ہر شخص لٹیرا ہے ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes