اقوام کی عظمت

Published on September 27, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 284)      No Comments

تحریر: میرزمان
کوئی قوم پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتی،جہاں نظام انصاف بے رعایت،فوری اور آسان نہ ہو،اللہ کریم خود انصاف کا حکم فرمائے اور قاضی و حاکم کے فرائض میں ہے ، فریضہ عدل کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کیساتھ فیصلہ کرو،سیرت پاک اور تاریخ خلفائے انصاف کی مثالوں سے بھری پڑی ہے،چنانچہ چند واقعات سیرت اور عہد خلفائے راشدین کی پیش کی جا رہی ہیں۔
غزوہ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چوری کر لی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئی تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کر دیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے)۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے لیے دعا مغفرت کیجئے، یا رسول اللہ! پھر دوپہر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کر لے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کر لی اور شادی بھی کر لی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی۔
حضرت عبد اللہ بن ابی حدودؓ کہتے ہیں ان کے ذمہ ایک یہودی کے چار درہم تھ قرض تھے،اس یہودی نے اس قرض کی وصولی میں حضورﷺ سے مدد لینا چاہی،اور یوں کہا کہ اے محمدﷺ میرے اس آدمی کے ذمہ چار درہم قرض ہیں اور یہ مجھے نہیں دیتے ،حضورﷺ نے ان سے فرمایا ان کا حق ان کو دے دو،اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،قرض ادا کرنے کی مجھ میں گنجائش نہیں،حضر ﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ اس کا حق ادا کر دو ،آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ تین دفعہ سے زیادہ نہیں فرماتے تھے،چنانچہ ابی حدودؓ بازار گئے اور چار درہم میں چادر فروخت کر کے یہودی کا قرض ادا کر دیا۔
حضرت اُمّ سَلَمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کے دو آدمی کسی ایسی میراث کا جھگڑا لے کر حضور صلی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کے نشان مٹ چکے تھے اور کوئی گواہ بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ حضور صلی اللہعلیہ وسلم نے فرمایا، تم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو اور جس کے بارے میں مجھ پرکوئی وحی نازل نہیں ہوئی، میں اس میں اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں، لہٰذا جس آدمی کی دلیل کی وجہ سے میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں جس کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کا حق لے رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کا حق ہر گز نہ لے، کیوں کہ میں تو اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں اور وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ یہ ٹکڑا اس کے گلے کا ہار بنا ہوا ہوگا، اس پر وہ دونوں حضرات رونے لگے اور دونوں میں سے ہر ایک نے کہا یارسول اللہ میں اپنا حق اسے دیتا ہوں، حضور ﷺ نے فرمایا، جب تم نے یہ ارادہ کر لیا تو جاؤ اور حق پر چلو اور اس میراث کو آپس میں تقسیم کرلو اور تقسیم کرنے کے لیے قرعہ اندازی کر لو اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد تم دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کو اپنا حق معاف کردے۔
ایک موقع پر حضرتﷺ نے فرمایا کہ حق کا ساتھ دینے والے لوگوں میں سب سے بہترین لوگ ہیں اور وہ امت پاکیزہ نہیں ہوسکتی جس میں کمزور آدمی بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے اپنا حق وصول نہ کرسکے،حضرت عمرؓ اپنے گورنروں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ حج کے موقعہ پر ان کے پاس آیا کریں،جب سب گورنر آ جاتے تو عام مسلمانوں کو جمع کر کے فرماتے ،”اے لوگو میں نے اپنے گورنر تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجے ہیں کہ وہ تمہاری کھال ادھڑیں تمہارے مال پر قبضہ کریں یا تمہیں بے عزت کریں،بلکہ میں نے تو صرف اس لیے ان کو بھیجا تاکہ انصاف قائم کریں،تمہیں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنے دیں۔
حضرت عمرؓ کو خبر ملی کہ بحرین میں ان کے مقرر کردہ گورنر حضرت ابن جارود کے پاس ایک شخص لایا گیا ،اس نے مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ خط و کتابت کر رکھی تھی،اور ان کے دشمنوں کیساتھ مل جانے کا ارادہ بھی تھا اور اس کے ان جرائم پر گواہ بھی موجود تھے،اس پر گورنر نے اسے قتل کر دیا،وہ شخص قتل ہوتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ اے عمر میں مظلوم ہوں ،میری مدد کو آئیں،اے عمر میں مظلوم ہوں میری مدد کو آئیں،حضرت عمرؓ نے اپنے اس گورنر کو خط لکھا کہ میرے پاس آ جاؤ چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،حضرت عمرؓ نیزہ گورنر کے جبڑوں پر مارنا چاہتے تھے لیکن مارا نہیں،حضرت جارود کہنے لگے اے امیر المومنین اس نے مسلمانوں کی خفیہ باتیں دشمن کو لکھی تھیں اور دشمن سے جا ملنے کا اس نے ارادہ بھی کر رکھا تھا ،حضرت عمرؓ نے فرمایا صرف برائی کے ارادہ پر تم نے اسے قتل کر دیا ،ہم میں ایسا کون ہے جس کے دل میں ایسے برے ارادے نہیں آتے اگر گورنروں کے قتل کرنے کا مستقل دستور بن جانے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں تجھے اس کے بدلے میں ضرور قتل کر دیتا۔حضرت عمرؓ کو بتایا گیا کہ ان کے مقرر کردہ گورنر کا قاصد خبر لایا ہے کہ ان کے علاقے میں مسلمانوں کے راستے میں ایک نہر پڑتی تھی،جسے پار کرنے کیلئے مسلمانوں کو کوئی کشتی نہ مل سکی تو ان کے امیر نے کہا کہ کوئی ایسا آدی تلاش کرو جو نہر کی گہرائی معلوم کرنا جانتا ہو،چنانچہ ان کے پاس ایک بوڑھے کو لایا گیا اس بوڑھے نے کہا کہ مجھے سردی سے ڈر لگتا ہے اور وہ موسم بھی سردی کا تھا لیکن امیر نے اسے مجبور کر کے نہر میں داخل کر دیا،تھوڑی دیر ہی میں اس پر سردی کا بہت زیادہ اثر ہو گیا اور وہ زور زور سے پکارنے لگا اے عمر میری مدد کو آؤ،اے عمر میری مدد کو آؤ ،،اور اسی طرح پکارت پکارتے وہ بوڑھا نہر میں ڈوب کر مر گیا،اس بوڑھے کی فریاد پر حضرت عمرؓ لبیک کہتے ہوئے گھر سے نکلے ،چنانچہ حضڑت عمرؓ نے اس امیر کو خط لکھا جس پر وہ مدینہ منورہ آگئے،مگر حضرت عمرؓ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو یہ حضرت عمرؓ کی عادت شریفہ تھی کہ کسی پر غصہ آتا تو اعراض فرما لیتے تھے،پھر امیر سے پوچھا جس آدمی کو تم نے مار ڈالا اس کا کیا بنا،اس نے کہا اے امیر المومنین میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا ،ہمیں نہر پار کرنے کیلئے کوئی بھی چیز نہیں مل رہی تھی،ہم تو صرف یہ چاہتے تھے کہ صرف یہ پتہ چل جائے کہ نہر کے پانی کی گہرائی کتنی ہے ،پھر بعد میں ہم نے اللہ کے فضل سے اتنے اتنے علاقے فتح کیے ،اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا مجھے تمھاری فتوحات سے ایک انسانی جان زیادہ عزیز ہے،اگر مستقل دستور بن جانے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا،تم اس کے رشتہ داروں کو خون بہا ادا کرو اور میرے پاس سے چلے جاؤ آئندہ میں تمہیں کبھی نہ دیکھوں۔
حضرت عمرؓ نے حضرت فیروز ویلمیؓ کو یہ خط لکھا ”اما بعد مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ میدے کی روٹی شہد کیساتھ کھانے میں مشغول ہیں،لہذا جب میرا خط آپ تک پہنچے تو آپ اللہ کا نام لیکر میرے پاس آ جاؤ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو”چنانچہ حضرت فیروز ویلمیؓ خط ملتے ہی مدینہ آ گئے،انہوں نے حضرت عمرؓ سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور حضرت عمرؓ نے اجازت دے دی وہ اندرجانے لگے تو ایک قریشی نوجوان بھی اندر جانے لگا،جس سے ان کا راستہ تنگ ہو گیا ،انہو ں نے اس قریشی کی ناک پر زور سے تھپڑ مارا کہ خون نکل آیا،وہ قریشی نوجوان اس حالت میں حضرت عمرؓ کے پاس اندر چلا گیا،اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا،حضرت عمرؓ نے اس نوجوان سے پوچھا تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا اس نے کہا حضرت فیروزؓ نے اور وہ اس وقت دروازے پر ہی ہیں،حضرت عمرؓ نے کہا اے فیروز یہ تو نے کیا کیا۔؟؟حضرت فیروزؓ نے عرض کیا امیر المومنین ہم نے کچھ عرصہ پہلے ہی بادشاہت چھوڑی ہے اور اس کا اثر ابھی ہم میں ہے،بات یہ ہوئی کہ آپ نے مجھے خط لکھ کربلایا اس نوجوان کو آپ نے خط نہیں لکھا،میں نے اندر آنے سے پہلے اجازت طلب کی آپ نے مجھے اجازت دی، اس نوجوان نے اجازت طلب نہیں کی،نہ آپ نے اسے اجازت دی، اس نے قاعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میری اجازت کا فائدہ اٹھا کر مجھ سے پہلے اندر داخل ہوناچاہا جس پر مجھے غصہ آ گیا
اور میں اسے مار بیٹھا،ان کی بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے کہا کہ آپ کو بدلہ دینا ہوگا،حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ تعالی عنہہ بدلہ دینے کے لیے اس نوجوان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور وہ نوجوان بدلہ لینے کہ لیے کھڑا ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے کہاذرا ٹھہرو میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ایک دن صبح کے وقت میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جھوٹے نبی (اسود عنسی) کو آج رات قتل کر دیا گیا اور اسے اللہ کے نیک بندے فیروز دیلمی نے قتل کیا ہے،جب تم نے ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن لی تو کیا تم اب بھی ان سے بدلہ لینا چاہتے ہو،یہ سن کر اس نوجوان نے کہا کہ نہیں میں اب انہیں معاف کرتا ہوں،اس کے بات سن کر حضرت فیروز رضی اللہ تعالی عنہہ نے کہا کہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں، انہوں نے مجھے خوشی خوشی معاف کر دیا ہے تو کیا اب میں اللہ کی پکڑ سے بچ جاؤں گا،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں اس پر حضرت فیروز رضی اللہ تعالی عنہہ نے کہا میں اس بات پر آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میری تلوار، میرا گھوڑا اور میرے مال سے تیس ہزار روپے اس نوجوان کو ہدیہ ہیں،یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے فرمایا اے قریشی نوجوان تم نے معاف کرکے ثواب بھی حاصل کر لیا اور تمہیں اتنا مال بھی مل گیا۔حیات اصحابہ
حضرت عمرؓ نے ایک لشکر کے امیر کو یہ خط لکھا کہ۔۔مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہارے کچھ ساتھی کبھی موٹے تازے کافر کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں، وہ کافر دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور خود کو محفوظ کر لیتا ہے، تو پھر اس سے تمہارا ساتھی فارسی میں کہتا ہے، مترس،یعنی مت ڈرو(یہ کہہ کر اسے امان دے دیتا ہے وہ کافر خود کو اس مسلمان کے حوالے کر دیتا ہے)پھر یہ مسلمان اس کافر کو پکڑ کر قتل کردیتا ہے (یہ قتل دھوکہ دے کر کیا ہے)۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! آئندہ اگر مجھے کسی کے بارے میں پتہ چلا کہ اس نے ایسا کیا ہے، تو میں اس کی گردن اڑادو ں گا۔ حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کسی نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کسی مشرک کو امان دے دی او روہ مشرک اس وجہ سے اس مسلمان کے پاس آگیا اور پھر مسلمان نے اسے قتل کردیا تو (یوں دھوکہ سے قتل کرنے پر) میں اس مسلمان کو ضرور قتل کردوں گا۔یہ اسلام کی اعلیٰ وارفع روایات ہیں کہ کافر دشمن کو جنگ میں بھی دھوکہ سے قتل کرنے سے منع کیا ہے ۔
حضرت علیؓ کے پاس دو عورتیں مانگنے کیلئے آئیں،جن میں سے ایک عورت عربی اور دوسری ان کی آزاد کردہ باندی تھی،آپ نے حکم دیا ان میں سے ہر ایک کو63من غلہ اور چالیس درہم دیے جائیں،باندی کو جو ملا تھا وہ لیکر چلی گئی لیکن عربی عورت نے کہا اے امیر المومین آپ نے اسے اتنا دیا ،حالانکہ میں عربی عورت ہوں اور یہ آزاد کردہ باندی ہے،اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت غور سے دیکھا تو اس میں مجھے اولاد اسماعیل علیہ الاسلام کو اولاد اسحاق پر کوئی فضیلت نظر نہیں آئی۔
ایک مسلمان اور اور ایک یہودی اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے حضرت عمرؓ کے پاس آئے،آپؓ نے دیکھا کہ یہودی حق پر ہے تو آپ نے اس یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا،اس اس یہودی نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ نے حق کا فیصلہ کیا ہے،اس پر حضرت عمرؓ نے خوشی میں آ کر اسے ہلکا سا کوڑا مارا اور فرمایا کہ تجھے پتہ چلا کہ حق کیا ہوتا ہے؟تو اس یہودی نے کہا کہ اللہ کی قسم تورات میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ کہ جو قاضی حق کا فیصلہ کرتا ہے اس کے دائیں جانب ایک فرشتہ اور بائیں جانب ایک فرشتہ ہوتا ہے،جو اسے صحیح راستے پر چلاتے ہیں اور اسے حق بات کا الہام کرتے ہیں،جب تک وہ قاضی حق کا فیصلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے،جب وہ عزم چھوڑ دیتا ہے تو دونوں فرشتے اسے چھوڑ کر شیطان چڑھ جاتے ہیں ۔
ایک مسلمان نے ایک ذمی کافر کو قتل کر دیا،حضرت ابو عبیدہؓ بن جراحؓ کے پاس یہ مقدمہ پیش کیا گیا،تو انہوں نے یہ مقدمہ حضرت عمرؓ کو بھیجا ،حضرت عمرؓ نے جواب میں یہ لکھا کہ یوں ذمی کافروں کو قتل کرنا اگر اس مسلمان کی مستقل عادت بن گئی ہے تو پھر اس کی گردن اڑا دو ،اگر طیش میں آ کر اچانک ایسا کر بیٹھا ہے تو اس پر چار ہزار کی دیت کا جرمانہ لگا دو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تستر کا محاصرہ کیا،آخر محاصرہ اور جنگ سے تنگ آکر تستر کے حاکم ”ہرمزان” نے اپنے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اترنا قبول کیا،میں اس کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،جب ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپؓ نے اس سے کہا: ”کہو کیا کہتے ہو؟”اس نے کہا”زندہ رہنے والے کی طرح بات کروں یا مر جانے والے کی طرح؟’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”لابائسَ” یعنی تم اپنے بارے میں مت ڈرو، بات کرو،ہرمزان نے نے کہا”اے قوم عرب! جب تک اللہ تعالٰی خود تمہارے ساتھ نہ تھے بلکہ اللہ نے معاملہ ہمارے اور تمہارے درمیان رکھا تھا، اس وقت تک تو ہم تمہیں اپنا غلام بناتے تھے، تمہیں قتل کرتے تھے اور تم سے سارا مال چھین لیا کرتے تھے، لیکن جب سے اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہو گیا ہے، اس وقت سے ہم میں تم سے مقابلہ کی طاقت بھی باقی نہیں رہی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے سے پوچھااے انس! (رضی اللہ عنہ) تم کیا کہتے ہو؟میں نے کہااے امیر المومنین! میں اپنے پیچھے بڑی تعداد میں دشمن اور ان کا بڑا دبدبہ چھوڑ آیا ہوں، اگر آپ اسے قتل کر دیں گے تو پھر اس کی قوم اپنی زندگی سے ناامید ہو کر مسلمانوں سے لڑنے میں اور زیادہ زور لگائے گی.(اسلیے آپ اس کو قتل نہ کریں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہامیں براء بن مالک اور حضرت حجزاء بن ثوررضی اللہ عنہما جیسے بہادر صحابہ کے قاتل کو کیسے زندہ چھوڑ دوں؟ (اس نے ان دونوں کو قتل کیا ہے)حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے خطرہ ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ضرور قتل کر ہی دیں گے تو میں نے ان سے کہاآپ اسے قتل نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ اس سے ”لا بائس” تم مت ڈرو اور بات کرو کہہ چکے ہیں(اور لا بائس کہنے سے جان کی امان مل جاتی ہے لہذا آپ تو اے امان دے چکے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامعلوم ہوتا ہے، تم نے اس سے کوئی رشوت لی ہے اور اس سے کوئی مفاد حاصل کیا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم! میں نے اس سے نہ رشوت لی ہے اور نہ کوئی مفاد(میں تو ایک حق بات کہہ رہا ہوں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہاتم اپنے اس دعویٰ کی (کہ لا بائس کہنے سے کافر کو امان مل جاتی ہے) تصدیق کرنے والا کوئی اور گواہ اپنے علاوہ لاؤ ورنہ میں تم سے ہی سزا کی ابتدا کروں گاچناچہ میں گیا، مجھے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ملے، میں ان کو لے کر آیا، انہوں نے میری بات کی تصدیق کی جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ہرمزان کے قتل سے رک گئے اور ہرمزان مسلمان ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے بیت المال میں سے وظیفہ مقرر کر دیا۔
حضرت علیؓ کے پاس اصبیہان سے مال آیا آپؓ نے اسے سات حصوں میں تقسیم کیا ،اس میں آپؓ کو ایک روٹی بھی ملی ،آپؓ نے اس کے ساتھ ٹکڑے کیے اور ہر حصے پر ایک ٹکڑا رکھ دیا ،پھر لشکر کے ساتوں حصوں کے امیروں کو بلایا اور ان میں قرعہ اندازی کی تاکہ پتہ چلے کہ ان میں سے پہلے کس کو دیا جائے۔
اوپر لکھے گئے چند واقعات سیرت مبارکہ اور حیات صحابہؓ سے پیش کیے گئے ہیں،فریٖہ عادلہ اقوام کی عظمت اور شرف میں ایک کلیدی کردار کا درجہ رکھتا ہے،حاکم وقت کے نزدیک طاقتور کمزور ہو یا کہ اس سے حق لیکر کمزور کو دیا جائے،اور کمزور طاقتور رہے کہ آسانی کیساتھ اسے طاقتور سے حق مل جائے۔
اللہ تعالیٰ نے سلاطین اور امراء پر مظلوم کی فریاد سن کر اس کی داد رسی کا فریضہ خود سونپا ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تم فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں،اور فرمایا انصاف کرو کہ انصاف تقویٰ سے زیادہ قریب ہے،اور سچی گواہی دینے سے گواہ انکار نہ کرے،مظلوم کو فوری انصاف ملے اور انصاف کے حصول میں کم سے کم اخراجات ہوں،انصاف میں تاخیر قانون الہی کی نظر میں مظلوم اور حقدار پر مزید پریشانی اور اذیت کا بوجھ ڈالنا ہے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچ پہلو اصلاح و احوال کی توفیق بخشے،(آمین) ثم آمین۔بحوالہ تالیف حیات الصحابہؓ مولانا محمد یوسف کاندھوی

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题