ہم زاد 

Published on October 19, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 846)      No Comments

تحریر: تسنیم سحر
دسمبر کی سرد ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی اور باہر کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔آدھی رات کے وقت ایسے کوئی آہٹ بھی انسان کو ڈرا کر رکھ دیتی ہے۔ منال ابھی اپنا کچھ کام کر رہی تھی سو ابھی جاگ رہی تھی۔اسکی عادت تھی لائٹس آف کر کے کھڑکی سے باہر جھانک لیا کرتی تھی۔آج بھی حسب معمول ایسا ہی کیا تھا مگر یہ کیا۔۔۔خوف سے اسکی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔تصدیق کیلئے اس نے دوبارہ کھڑکی سے باہر جھانکا تو بمشکل اپنی چیخ دبا سکی تھی۔ہراس کے عالم میں کھڑکی کے پردے برابر کیے، وہ تھر تھر کانپتی اپنے بیڈ پر آگئی تھی۔ دو کنال پر مشتمل اس گھر میں تین فیملیز آباد تھیں۔حویلی بہت پرانی تھی۔منال کے دادا بتاتے تھے کہ یہ جگہ ان کے باپ نے بنوائی تھی۔منال کے دادا اظہار احمد کے پانچ بچے تھے۔عمر احمد،کمال احمد اور شاہ جہان تین بیٹے تھے۔مہر النساء اور زیب النساء دو بیٹیاں۔زیب شادی شدہ اپنے گھر والی تھی جبکہ مہر کا انیس سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ عمر احمد کی ایک ہی بیٹی تھی منال۔کمال احمد کے دو بیٹے تھے شہریار اور اسجد۔ شاہ جہاں کا ایک بیٹا تیمور اور ایک بیٹی مشال تھی۔شروع سے اس گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔گھر کے رہائشی حصے سے تھوڑا ہٹ کر ایک طرف چھوٹا سا باغیچہ بنا ہوا تھا جہاں مختلف درخت اور پودے لگے ہوئے تھے۔اس باغیچے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہاں سب سے پرانا برگد کا درخت بہت گھنا اور بہت پر اسرار سا تھا۔باقی سب پودوں کی کانٹ چھانٹ کی جاتی تھی مگر اسے کبھی نہیں کاٹا گیا تھا آکاس بیل کی شاخیں برگد کے تنے اور اکثر شاخوں کے ساتھ بہت گنجھلک ہو کر لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔خوف کے مارے کتنی ہی دیر منال کی سانسیں رکتی رہیں اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ جس برگد کے قریب دن میں بھی کوئی نہیں جاتا وہاں رات کے اس پہر شہریار کھڑا تھا وہ بھی تنے سے ٹیک لگائے اتنے خنک موسم بنا کسی گرم کپڑے کے۔اسے گمان ہوا تھا جیسے اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو مگر جب اس نے دوبارہ دیکھا تو وہ شہریار ہی تھا آنکھیں بند کیے بازو پھیلائے کھڑا وہ کسی اور ہی دنیا کا باسی لگ رہا تھا۔خوف نے تمام رات منال کی نیند چھین لی تھی۔شہریار اس کا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ منگیتر بھی تھا۔دونوں میں اگرچہ کوئی خاص بے تکلفی نہیں تھی مگر آتے جاتے کھانے کی میز پہ روز کہیں نہ کہیں سامنا ہو جاتا تھا۔اسے ایک دم سے شہریار سے خوف آنے لگا تھا۔اور صبح ناشتے کی میز پہ اس نے ہمت کر کے شیری سے پوچھ لیا تھا۔شیری رات کو تم کہاں تھے۔چونکہ منال بہت کم گو تھی اور بہت کم شہریار سے مخاطب ہوتی تھی تو سب کا چونکنا لازمی امر تھا۔شہریار خود بھی حیران ہوا تھا۔ ’’اپنے کمرے میں تھا مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو خیریت؟‘‘اس نے انتہائی تحمل سے کہا تھا۔’’آدھی رات کو تم باہر نکلے تھے کیا؟‘‘ منال نے پھر پوچھا تھا۔’’توبہ کرو لڑکی اتنی ٹھنڈ میں آدھی رات کو باہر نکل کے میں نے اپنی قلفی جمانی تھی کیا؟‘‘منال حیران ہوئی تھی کیونکہ شیری کے لہجے میں کوئی جھوٹ کی آمیزش نہیں تھی۔منال الجھ گئی تھی اگر شیری نہیں تھا تو پھر کون تھا وہ۔۔۔منال الجھی تھی اگر وہ شیری نہیں تھا تو پھر شیری جیسا کون تھا؟اظہار صاحب کو تشویش ہوئی تھی۔انہوں نے پوچھا۔’’ منال تم کیوں پوچھ رہی ہوتم نے شہریار کو کہیں جاتے دیکھا تھا کیا۔‘‘’’نہیں دادا وہ بس میں کھڑکی بند کر رہی تھی رات کو تو اچانک باہر نظر پڑی تو مجھے لگا کہ برگد کے نیچے شیری کھڑا تھا۔میرا وہم ہو گا۔‘‘اظہار صاحب اور شاہ جہان کے چہرے کا رنگ اڑا تھا یہ سنتے ہی۔بظاہر سب نارمل بیٹھے تھے مگر ایک بھونچال اٹھا تھا جو صرف اظہار صاحب اور شاہ جہان کے اندر اٹھا تھا۔انہیں لگا وقت بیس سال پیچھے چلا گیا جب مہرالنساء ان کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھی بابا جان آپ رات کو برگد کے نیچے کیوں جاتے ہیں میں نے رات کو بھی دیکھا تھا کہ آپ وہاں کھڑے کسی سے باتیں کر رہے تھے۔اور اظہار احمد اس کی ذہنی حالت پر شک کر رہے تھے ۔اکثر ہی جب مہر النساء ایسا کہنے لگی تو انہوں نے نفسیاتی ڈاکٹر کو بھی دکھایا بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہ آیا پھر ایک رات یوں ہوا تھا کہ زیبا کے ساتھ لیٹی مہر النساء اچانک غائب ہو گئی۔جاگتی آنکھوں سے زیبا نے اسے غائب ہوتے دیکھا تھا۔اس نے چیِخ چیخ کر گلا خشک کر لیا تھا مگر کوئی بھی اس کے کمرے تک نہ آیا۔یہاں تک کہ وہ خوف سے بے ہوش ہو گئی تھی۔جب ہوش آیا تو مہر بھی ساتھ لیٹی تھی عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔زیبا نے ڈرتے ڈرتے مہر سے پوچھا تھا۔ ’’ مہر تم کہاں چلی گئی تھی۔‘‘کتنی دیر کے بعد وہ بولی تو بہت عجیب لہجہ تھااس کا۔’’میری شادی تھی زیبا تمہیں پتہ ہے ۔میں دلہن بنی تھی میرا دلہابہت خوبصورت تھا ۔وہ وہاں برگد کے پار بہت خوبصورت محل ہے ۔میں سارا دیکھ کر آئی ہوں۔‘‘ مہر کالہجہ بہت عجیب تھا ۔اسکی آنکھیں لہو رنگ تھیں۔زیبا کی پھر چیخیں نکل گئی تھی کیونکہ مہر کا چہرہ بگڑ رہا تھا۔چیخوں کی آواز سن کر شاہ جہان اور اظہار صاحب بھاگ کر آئے اسوقت گھر میں اورکوئی موجود نہیں تھا۔ زیبا کی چیخوں اور مہر کی عجیب حالت نے شاہ جہان کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا جب زیبا نے وہ سب بتایا جو مہر بول رہی تھی اور مہر کے غائب ہونے اپنے چیخنے بے ہوش ہونے تک کی ساری بات تو اظہار صاحب حقیقتا پریشان ہو گئے تھے۔ مہر کی اور زیبا کی حالت بتا رہی تھی کہ معاملہ کچھ اور ہے۔اپنے طور پر وہ عاملوں کے پاس بھی جاتے رہے۔ شاہ جہان اور اظہار صاحب نے اس معاملے کو مخفی ہی رکھا مگر اس دن کے بعد یوں ہواکہ مہر اکثر برگدکے آس پاس پائی جاتی۔وہ خوش رہنے لگی تھی اب اسے برگد تلے بابا نظر نہیں آتے تھے کوئی اور دکھتا تھا جس سے وہ ڈھیروں ڈھیر باتیں کرتی اسی دوران مہر کا رشتہ آیا۔مگر اس دن عجیب واقعہ ہوا تھا برگد کے درخت پر بغیر آندھی کے بہت طوفانی ہوا چلی تھی اور ہر طرف پتے اڑ اڑ کر عجیب ویرانی کا سا سماں پیدا کر رہے تھے۔اور مہر زیبا سے کہہ رہی تھی زیبا تو ابا کو بتا نا میری شادی تو ہو چکی ہے وہاں جو میرا گھر بڑا خوبصورت ہے۔ میں بھلا کہیں اور کیسے شادی کر سکتی ہوں۔اور اس دن پہلی بار ہم زاد مہر کے علاوہ کسی کے سامنے آیا تھا اظہار صاحب نے حیرت سے اس خوبرو جوان کو دیکھا جو ان کے علاوہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ غضبناک آنکھوں والا وہ شخص اظہار صاحب سے بہت تمیز سے لیکن سخت لہجے میں کہہ رہا تھا ۔ ’’مہر آپکو بتا چکی ہے کہ وہ میری بیوی ہے اور آپ عاملوں کے پاس جانا چھوڑ دیں ہم یہاں سے کہیں نہیں جانے والے۔اور مہر کی شادی کہیں کرنے کا سوچیں بھی نہ۔ ورنہ انجام کے ذمہ دار آپ خود ہو گے۔‘‘اتنا کہہ کر وہ برگد کی جانب چل دیا۔برگد کے نیچے جا کر وہ غائب ہوگیا۔اظہار صاحب کی آنکھیں سرخ تھیں۔ کچھ دن گزرے تھے جو لوگ مہر کے رشتے کے لیے آئے تھے وہ رشتہ پکا کرنا چاہ رہے تھے جس دن ان لوگوں نے رشتہ پکا کرنے آنا تھا اسی دن آتے ہوئے انکا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور لڑکے کی موت واقع ہو گئی باقی کسی کو خراش تک نہ آئی۔ کسی کو سمجھ بھی نہ آسکا تھا کہ حادثہ ہوا کیسے۔ کچھ وقت گزرا مہر کا برگد کے پیڑ کے پاس بیٹھنا بڑھتا گیا ۔کوئی اسے روکتا تو وہ بیمار پڑ جاتی۔ ایک بار اسے کمرے میں بند کر دیا مگر کچھ ہی دیر بعد دروازہ خودبخود کھل گیا تھا۔مہر برگد کے پاس نہ جاتی تو وہ مرجھا جاتا۔پھر یوں ہوا تھاکہ ایک رات پھر مہر پوری رات غائب رہی تھی اب تو سب گھر والوں کو یقین آ گیا تھا کہ مہر پر کسی بھوت پریت کا سایہ ہے مگر مہروز برگد والا نوجوان اس سے کوئی واقف نہیں تھا سوائے اظہار صاصب کے۔انہوں نے درخت کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ مہروز پھر آیا تھا۔’’اگر آپ نے درخت کاٹا تو آپکی بیٹی مر جائے گی۔‘‘ مگر اظہار صاحب نے اسے محض ڈراوا سمجھا۔ پھر جو ہوا تھا وہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔برگد کی ایک شاخ ابھی کٹ کر گری تھی کہ آندھی آگئی تھی زوردار آندھی۔ساتھ ہی مہرالنساء دم توڑ گئی تھی۔برگد کے تنے کے ساتھ کھڑا مہروز غضبناک چہرہ لیے چیخ رہا تھا جو سوائے اظہار صاحب کے اور کسی کو دکھائی دے رہا تھا نہ سنائی۔مہر کے مرنے کے بعد اظہار صاحب نے ساری بات شاہ جہان کو بتا دی تھی۔کتنے ہی دن برگد کے پیڑ سے رونے کی آوازیں آتی رہیں۔اور مہروز ہمزاد بن گیا تھا۔مہر کے جانے کے بعد اس نے اس گھر کے مکینوں کو کچھ عرصہ بہت تنگ کیا تھا کبھی کسی کا روپ دھار کے سامنے آجاتا کبھی کسی کا۔اکثر مہر کا روپ دھار کر اس کے پاس آکے بیٹھ جاتا جس کو ڈرانا ہوتا پھر اس گھر میں چیخوں کی آواز سن کر ہنستا۔پھر سب کی شادیاں ہو گئیں تو سوائے اظہار صاحب کے کبھی کسی کو نظر نہیں آتا تھا، تنگ بھی نہیں کرتا تھا البتہ برگد کی شاخوں کو کوئی نہیں چھیڑتا تھا۔اظہار صاحب حال میں لوٹ آئے تھے اب وہ منال کو شیری کے روپ میں نظر آیا تھا تو یقیناًیہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ منال یونیورسٹی چلی گئی تھی۔ شاہ جہان پریشان باپ کے پاس بیٹھا تھا۔ دونوں باپ بیٹا خاموشی سے قاری صاحب کے پاس گئے انہیں ساری صورتحال بتائی اور حل پوچھا۔شاہ جہان نے مہر کا حال دیکھا تھا وہ منال کو مہر نہیں بننے دینا چاہتے تھے۔ تمام صورت حال سن کر امام صاحب نے مشورہ دیا کہ جلد از جلد بچی کا نکاح کر دیں پھر وہ جن زادمنال کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ انہیں امام صاحب کو مغرب کی نماز کے بعد کا وقت دیا تھا نکاح کے لیے۔شاہ جہان نے نکاح خواں کا انتظام بھی کر لیا۔اظہار صاحب بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ منال ہو بہو مہر جیسی تھی۔شام کو اظہار صاحب نے خرابی طبیعت کا بہانہ کیا اور سب بچوں کو بلا لیا تھا اسی وقت انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ شہریار اور منال کا ابھی نکاح کرنا چاہتے ہیں۔کسی کی اگر مگر بابا جان نے کوئی بات نہ سنی گئی۔ انتظام توپہلے ہی مکمل تھا ،شاہ جہان اس سارے معاملے کا رازدار تھا۔منال اور شہریار ہکا بکا تھے۔ آناً فاناً سب کچھ ہو گیا تھا۔ مگر منال کو الجھن تھی ابھی رات کے واقعے سے وہ الجھی ہوئی کہ اٹھا کے ایک دم نکاح کا چکر۔ وہ بضد تھی کہ اسے بتایا جائے کہ سب ایسے کیوں۔اظہار صاحب نے اسکی ضد سے ہار مان لی تھی اور مختصراً ساری بات بتا دی۔ اظہار صاحب اور شاہ جہان مطمئن تھے۔برگد آج پھر رو رہا تھا مگر منال مہر بننے سے بچ گئی تھی۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy