فلیگ شپ ریفرنس، استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح مکمل

Published on November 5, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 323)      No Comments

اسلام آباد(یواین پی) نواز شریف کےخلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں استغاثہ کے اہم گواہ واجد ضیا پر طویل جرح مکمل کر لی گئی۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کےخلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت ہوئی جبکہ نواز شریف بھی احتساب عدالت میں موجود تھے۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی استعاثہ کے اہم گواہ اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔
خواجہ حارث کے سوال پر واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی۔ نواز شریف نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ 2001 سے 2008 کے دوران پاکستان میں قیام پذیر نہیں رہے جبکہ واجد ضیا نے کہا کہ نواز شریف نے اس دوران حکومت کو انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تفتیش کی تھی کہ نواز شریف نے چوہدری شوگر مل سے 110 ملین روپے کا قرض کیوں حاصل کیا ؟ جس پر واجد ضیا کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف 60 ملین روپے سے متعلق معلوم ہوا تھا اور اس 60 ملین میں سے 50 ملین روپے نواز شریف نے نیب کو دیئے ہیں۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے جاننے کی کوشش کی کہ نواز شریف نے نیب کو یہ رقم کیوں دی ؟ تو واجد ضیا نے کہا کہ مجھے ریکارڈ دیکھ کر بتانا ہو گا۔خواجہ حارث نے کہا کہ یہ کوئی ایسا سوال نہیں کہ آپ ریکارڈ دیکھیں کیونکہ اتنی بڑی بات سن کر آپ کے کان نہیں کھڑے ہوئے کہ نواز شریف نے نیب کو رقم کیوں دی ؟عدالت نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ واجد ضیا کو ریکارڈ دیکھ لینے دیں کون سا یہ پہلی بار ہے یہ 100 بار تو ریکارڈ دیکھ چکے ہیں۔واجد ضیا نے کہا کہ نیب کے عرفان منگی سے پوچھا تھا کہ نوازشریف نے یہ رقم کیوں دی تو انہوں نے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی ایک کاپی فراہم کی تھی جو والیم نائن کے صفحہ 362 سے صفحہ 375 پر موجود ہے۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ یہ آپ کو کب پتہ چلا کہ نواز شریف کی طرف سے نیب کو 50 ملین روپے دیے گئے ہیں ؟ واجد ضیا نے کہا کہ یہ ابھی مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کس دن پتہ چلا تاہم ہم نے ہائی کورٹ کے ا±س فیصلے کو پڑھا تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ کیا فیصلہ پڑھنے کے بعد آپ کے نوٹس میں آیا کہ نواز شریف کی طرف سے 50 نہیں 110 ملین روپے نیب کو دیے گئے تھے ؟ جس پر واجد ضیا نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوا زشریف کی جانب سے نیب کو رقم جرمانے کی مد میں دی گئی تھی اور یہ جرمانہ انسداد دہشتگردی کراچی کی عدالت اور احتساب عدالت اٹک کے فیصلوں کے بعد دی گئی تھی جب کہ ہمارے نوٹس میں آیا تھا کہ نیب یہ رقم لینے کا مجاذ نہیں تھا۔
خواجہ حارث کی جانب سے واجد ضیا پر جرح مکمل ہونے کے بعد اب کیس کے تفتیشی افسر کامران کل اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سوالنامہ فراہم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ سوالنامہ فراہم کر دیں تو ہم اگلے دن جواب جمع کرا دیں گے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کو سوالنامہ فراہم کیے جانے پر ہمیں اعتراض ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ باوثوق ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پراسیکیوشن کو سوالنامہ فراہم کر دیا گیا ہے تو پھر ہمیں بھی سوالنامہ ملنا چاہیے۔واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے علاوہ بارہ کمپنیاں قائم کیں جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویز حاصل نہیں کی جس میں کسی یو کے اتھارٹی نے حسن نواز کو فنانشل اسٹیٹمنٹ یا کمپنیاں بنانے سے متعلق شوکاز نوٹس جاری کیا ہو۔
جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے کوئی ایسی دستاویز حاصل نہیں کی کہ حسن نواز کا منی لانڈرنگ کا کوئی کیس یو کے میں چل رہا ہے یا ان پر یو کے میں کمپنیوں سے متعلق کسی جرم کا الزام ہو۔ نہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ جے آئی ٹی نے دوران تفتیش معلوم کیا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔ حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ یو کے کم عمری میں چلے گئے تھے۔واجد ضیا نے موقف اختیار کیا کہ فلیگ شپ انویسمنٹ لمیٹڈ کے قیام کے وقت حسن نواز 25 برس کے تھے، انہوں نے جےآئی ٹی کو بتایا تھا کہ انہوں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہائش پذیر ہوئے۔ سپریم کورٹ کی سماعتوں اور پانامہ لیک سے متعلق تمام کارروائی میں وہ لندن میں تھے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes