آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کا افتتاحی اجلاس

Published on November 23, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 358)      No Comments

کراچی (یواین پی ) ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اور تسلسل کے ساتھ ہونے والی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس 2018ءکے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب و نقاد شمیم حنفی نے اپنے مقالے میں کہاکہ ہم سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ ہم جدیدیت کی روح کو سمجھے بغیر جدید ہوگئے ہیں مگر فکری سطح پر یہ سودا سود مند ثابت نہیں ہوا بلکہ ہمیں اس سے فکری نقصان پہنچا ہے۔ادیب اور فنکار وہی کچھ پیش کررہے ہیں جو معاشرے میں انہیں نظر آرہا ہے، ہمارے آج کے مسئلے گزشتہ آنے والے کل کے مسائل حل نہیں کرسکتے، آج کے مسئلوں کا حل بھی آج ہی کے پاس ہونا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ادب کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے ہمارے تخلیقی احساسات اسی بیچ سے پھوٹتے ہیں مگراب ادبی اور ثقافتی معاشرہ فکری بصیرت سے عاری ہوتا جارہا ہے۔ زمین کو ہمارے لئے دُنیا بنایا گیا تھا مگر ہم زمین اور دُنیا کے تعلق کو بھولتے جارہے ہیں،انہوں نے کہاکہ ہم خود ہی اپنے معمار بھی ہیں اور خود ہی کو منہدم کرنے والے بھی، ہماری اجتماعی یادداشت اور بصیرت کی آزادی سب کچھ داﺅ پر لگی ہوئی ہے، گزشتہ بیسویں صدی کے خوابوں کو اگر ہم خاطر میں نہیں لائیں گے تو یہ ہماری غلطی ہوگی یہ بوجھ ہمیں ہی اُٹھانا ہے کیونکہ ناتواں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر عباس نیر نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ احمد شاہ کی سربراہی میں ادب و ثقافت پاکستانی کلینڈر کا اہم حصہ بن چکا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ادب تمام قرینوں میں پہلا قرینہ ہے، انہوں نے کہاکہ ہمارا عہد کتاب سوزی سے شروع ہوکر آدم سوزی تک جا پہنچا ہے پہلے کبھی کتاب میں کچھ غلط لکھ دیا جاتا تو اسے جلادیا جاتا تھا اور اب اگر کوئی انسان غلط بول دے تو اُسے جلادیا جاتا ہے اسی لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا عہد کتاب سوزی سے شروع ہوکر آدم سوزی پر آکر ختم ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ سوال اٹھانا محال ہوتا جارہا ہے جبکہ مسیحاﺅں کے انتظار میں ہمارے دن رات کٹتے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ جہاں واقعات کو دبا دیا جاتا ہے تو وہاں وہ عفریت کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اور ہمارا پیچھا بھی کرتے ہیں ہم پہلے عفریت خود پیداکرتے ہیں اور پھر اُسے کئی نسلوں کا خون پلاتے ہیں انہوں نے کہاکہ ایک ادیب اور فنکار ہی عفریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ادیب، فنکار اوردانشور سماجی اور تخیل دونوں دُنیا میں رہتا ہے۔قبل ازیں عالمی اُردو کانفرنس کے حوالے سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے نویں اور دسویں عالمی اُردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں پر مرتب کتب کی رونمائی بھی کی گئی۔افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے اراکین میں بھارت سے آئی ہوئی نور ظہیر، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی سمیت مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید اور دیگر شامل تھے۔ افتتاحی اجلاس میں دُنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سمیت شہر کی ممتاز سماجی شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر سیکریٹری آرٹس کونسل کراچی پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اظہارِ تشکر کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ہما میر نے انجام دی۔


دُنیا بھر میں کراچی اُردو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے؛مراد علی شاہ
کراچی (یواین پی ) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ دُنیا بھر میں کراچی اُردو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر پورے پاکستان کو جوڑتا ہے اس لئے ہم کراچی کو منی پاکستان کہتے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ گیارہ عالمی اُردو کانفرنسوں کے انعقاد پر احمد شاہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ قومیں اپنے ادیبوں اور فن کاروں سے پہچانی جاتی ہیں جب تک ہمارے ادیب و فن کار زندہ ہیں وہ اپنے کام سے ملک کا نام روشن کرتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آج کراچی میں دُنیا بھر کے مندوبین جمع ہوئے ہیں صاحب علم و دانشوروں کا ہمارے شہر میں آنا نیک شگون ہے۔ آرٹس کونسل اپنی ان سرگرمیوں کو جاری رکھے تو اس کی مزید مالی مدد کی جائے گی۔ اس ملک کے بہت مسائل ہیں تاہم ملک بھر کے لوگ امن کے ساتھ رہتے ہیں فرقہ پرستی کی بات کرنے والوں نے اس شہر کو لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب اس شہر کے عوام نے ایسے لوگوں کو مسترد کردیا ہے۔ آنے والا کل ہم سب کے لئے تابناک ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اس شہر کے بسنے والے پورے ملک کو چلاتے ہیں اس کے رنگ و روشنیوں کو بحال کریں گے۔ میں کراچی میں پیدا ہوا اور ساری تعلیم کراچی کی ہے۔ اس شہر میں کافی ہولناک دور شروع ہوا۔ 28، 30 سال کی بہت دردناک تاریخ ہے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی کو ہم نے اون کیا ہے۔کراچی کی آبادی جتنی زیادہ ہے اتنے ہی زیادہ مسائل ہیں ہماری کوشش سے کچھ بہتری ہوئی ہے مگر ہم نے اور آگے جانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شارعِ فیصل کو ذوالفقار علی بھٹو نے تعمیر کیا تھا اب ہم نے اس کی تعمیر نو کی ہے۔ کراچی کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہم کوشش کررہے ہیں اس حوالے سے وفاقی حکومت سے مدد کی درخواست ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سندھ ہر قسم کی مدد کرنے کے لئے آرٹس کونسل کواپنی سرگرمیاں اور تیز کرنا ہوں گی، ادیب شاعر اور فنکار ہماری مدد کریں۔اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ اُردو بولنے والوں کی اصل شناخت ان کا ادب ہے جس میں تعلیم نہ ہو وہ سب ولگر اور بے کار ہیں ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں سے یہ شہر آباد ہوا، پہلی عالمی اُردو کانفرنس کے موقع پر اس وقت اس شہر میں ہنگامے ہورہے تھے مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اس کانفرنس کو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچایا اس موقع پر فوج اور پولیس کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے شہر کی رونقیں بحال کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے میں ادیب اتنا ہی اہم ہے جتنا کوئی اور ہوسکتا ہے، سوسائٹیاں ان کے ادیبوں، شاعروں کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں۔ ماضی میں آرٹس کونسل کے ادارے کو ملنے والی سالانہ امداد 50لاکھ سے بڑھ کر 10کروڑ روپے ہوگئی ہے جس پر ہم سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے شکر گزار ہیں۔تقریب میں ملک کی معروف ادیب اور شاعرہ فہمیدہ ریاض کے سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ آرٹس کونسل جلد ہی اس نامور ادیبہ اور جمہوری حقوق کی ممتاز شخصیت کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کرے میں خود اس میں شرکت کروں گا۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme