موجودہ عہد سب سے زیادہ مزاح نگاروں کا ہے؛عروف شاعر افتخار عارف

Published on November 24, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 291)      No Comments

 


کراچی (یواین پی) معروف شاعر افتخار عارف نے کہا ہے کہ موجودہ عہد سب سے زیادہ مزاح نگاروں کا ہے، بڑے بڑے مزاح نگاروں کی موجودگی میں مشتاق احمد یوسفی بھی موجود رہے مگر دیگر مزاح نگاروں نے ہمیشہ اس بات کا اعتراف کیاکہ مشتاق احمد یوسفی ہم سے بہتر لکھتے ہیں اور بہت اچھا لکھتے ہیں، 1965ءمیں مشتاق احمد یوسفی سے میری ملاقات ہوئی اور پھر یہ رابطہ آخری دم تک جاری رہا، وہ مجھ سے بہت شفقت کرتے تھے، میں نے ان کے ساتھ مختلف سفر بھی کئے ہیںاور اس دوران انہوں نے اپنی شگفتہ باتوں سے بے شمار محافل کو زعفرانِ زار بنائے رکھا،ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے موقع پر دوسرے دن ”بیادِ مشتاق احمد یوسفی“کے حوالے سے منعقدہ ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ڈاکٹر فاطمہ حسن ، ڈاکٹر آصف فرخی، شہزاد شرجیل اور محمد احمد شاہ نے بھی مشتاق احمد یوسفی کی شخصیت اور ان کے فن کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا، نظامت شاہد رسام نے کی، افتخار عارف نے مشتاق احمد یوسفی کے حوالے سے مختلف دلچسپ واقعات کا حوالہ دیا اور ان کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں بتائیں جنہیں سن کر حاضرین بہت محظوظ ہوئے، انہوں نے بتایا کہ لندن میں ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا کہ افتخار تم کھانا پکانا سیکھ لو، میں نے کہا ٹھیک ہے ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ مشتاق احمد یوسفی نے مجھ سے کہا بازار کا کھانا ہی صحیح ہے، انہوں نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی اشعار کو بہت اچھی گرہ لگاتے تھے وہ ہمیشہ بہت عمدہ لباس زیب تن کرتے، انہوں نے کئی مواقعوں پر میری تربیت بھی کی ہے، وہ نخرہ کسی کا بھی برداشت نہیں کرتے تھے، ایک بار احمد فراز نے کسی سے کوئی کتاب منگوانے کے لئے کہا اس کتاب میں کچھ مواد مناسب نہیں تھا جس پر مشتاق احمد یوسفی نے فراز سے کہاکہ فرازآپ جب اپنی آپ بیتی لکھیں تو اس کا نام پاپ بیتی رکھیئے گا، فراز نے کہا مجھے تو کتاب لکھے بغیر ہی رائیلٹی مل جاتی ہے، افتخار عارف نے مزید بتایا کہ جب کرشن چندر کی کتاب ”گدھے کی سرگزشت“ چھپ رہی تھی تو مشتاق احمد یوسفی نے کہاکہ اس کا نام ” خرگزشت“ ہونا چاہئے تھاوہ کبھی بھی کوئی ایسا فقرہ نہیں بولتے تھے جس سے کسی کی دل آزاری ہو، میری دن میں ان سے دو بار فون پر بات ہوتی تھی، ان کی شفتگی ان کے مزاج کا خاصہ تھی، صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی اس دور کے سب سے بڑے ادیب تھے، مجھ سمیت سب ہی یوسفی صاحب کے مداح ہیں، مجھے اور اس ادارے کو ان کے جانے سے بہت نقصان ہوا ہے، احمد شاہ نے بتایا کہ یوسفی صاحب ان سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار ان کے لئے کہنے لگے کہ احمد شاہ ابدالی نے بھی وہ کارنامے انجام نہیں دیئے جو احمد شاہ نے انجام دیئے ہیں، انہوں نے کہاکہ میں نے ان سے کہا کہ اپنا اعتبار قائم کرنے کے لئے میں نے ایک جگہ آرٹس کونسل بنادی ہے، اب جو بھی شہر کے شاعر، ادیب اور فنکار ہیں وہ اس چھت تلے جمع ہیں، اس پر یوسفی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم نے اس ادارے کو بناکر ہماری زندگی اور بڑھا دی ہے، انہوں نے کہاکہ میں یوسفی صاحب کے گھر کا فرد بن گیا تھا، ان کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹتا، شاید ہمیں ان کی موت کا سوگ نہیں منانا چاہئے مگر میں کیا کروں یہ میرا شہر تو بڑے بڑے ناموں سے خالی ہورہا ہے، پہلی کانفرنس سے لے کر گیارہویں کانفرنس کے سفر تک کئی بڑے نام اس دُنیا سے جاچکے ہیں، اس ادارے کو یوسفی صاحب جیسے لوگوں ہی نے بنایا تھا، انہوں نے ہی ہمیں حوصلہ دیا ہے تو یہ ادارہ مضبوط ہوا ہے، اس ادارے کا ثانی اب اس ملک میں نہیں، ہمارے حوصلے بلند کرنے میں یوسفی صاحب جیسی قدآور شخصیات نے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ یوسفی صاحب نے ہی مجھے آرٹس کونسل سے نکل کر تحریر پر توجہ دینے کا مشورہ دیا تھا وہ ہمارے بزرگ تھے جب وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے تو میں ان کے گھر جاکر انہیں بستر سے اُٹھاتی، انہیں کھلاتی اور پلاتی کیونکہ گھر کے لوگ کوشش بھی کرتے تو وہ کھانے پینے کے لئے راضی نہیں ہوتے تھے، یوسفی صاحب جب بھی اپنے گھر سے نکل کر باہر جایا کرتے تھے تو وہ دو دکانوں پر ضرور رُکا کرتے تھے ایک سی ڈیز اور دوسری کتابوں کی دُکان پر، وہ وہاں سے اپنی پسند کی غزلیں اور کتابیں خریدتے ، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بتایا کہ انجمن ترقی اُردو بورڈ کی جانب سے شائع ہونے والا ماہنامہ رسالہ ”قومی زبان“ کا دسمبر کا شمارہ مشتاق احمد یوسفی نمبر ہوگا، انہوں نے کہاکہ کسی بھی گہری بات میں مزاح پیدا کرنا مشتاق احمد یوسفی کا ہی کمال تھا، ان کی پہلی کتاب ”چراغ تلے“ نے قارئین میں یہ شعور بیدار کیا کہ دوسروں پر ہنسنا ہے تو پہلے اپنے آپ پر ہنسو، ان کی کتاب ”آبِ گم“ میں یہ بات بہت نمایاں ہے ان کا اندازِ تحریر خاکہ نگاری ہے اور یہ خاکے اُن لوگوں کے ہیں جن کے وہ قریب رہے ہیں ان کے جملے لطیف طنز کے ساتھ قاری کو اصل صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں، وہ کبھی بھی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ شہرت ہمیشہ ان کے پیچھے بھاگی ہے، ممتاز شاعر اور کالم نگار شہزاد شرجیل نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی اس عہد کے سب سے بڑے مزاح نگار تھے ہلکی پھلکی باتوں کے ذریعے قارئین کے چہروں پر بہت زیادہ مسکراہٹ اور بعض اوقات قہقہے تک سجا دیا کرتے تھے، ایک بار ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ سے جب بعض لوگ انٹرویو کرتے ہیں تو ہمیں اس انٹرویو کرنے والی کی کم علمی کا احساس ہوتا ہے، وہ اس وقت بیمار تھے ہلکے سے ہاتھ اٹھایا اور نحیف آواز میں کہا دوبارہ سوال پوچھو ، ہم نے یہ سوال یہ سوچ کر دوبارہ کردیا کہ ہمارا سوال سن کر انہیں زیادہ اچھا لگا ہے اور زیادہ مزہ آیا ہے لہٰذا ہم نے دوبارہ سوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھ لیا کہ کیوں کیا مزہ آیا ہے؟ اس پر اس کی آنکھیں پھر ہلکی سی کھلیں، ایک بار پھر ہلکے سے ہاتھ ہلایا اور آہستہ سے بولے یہ سوال تو کوئی طوائف بھی نہیں کرتی، شہزاد شرجیل نے مزید کہاکہ آج کل الٹراساﺅنڈ کا زمانہ ہے لوگوں کو پہلے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیدا ہونے والا لڑکا ہے یا لڑکی، اگر لڑکی پیدا ہونے والی ہوتی ہے تو ہونے والی ماں ایسی چیزیں کھاتی ہے جس سے لڑکی گوری چٹی پیدا ہو لیکن اگر کہیں لڑکا پیدا ہونے والا ہو تو ہونے والی قطعی ایسی چیزیں نہیں کھاتی کہ جس سے لڑکا گورا پیدا ہو ، انہوں نے کہاکہ یوسفی صاحب سے مجھے شاہد رسام نے ملایاتھا ہمیں مشتاق احمد یوسفی کے جانے کا ماتم نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی قابلِ رشک کامیابیوں کا جشن منایا جانا چاہئے، ڈاکٹر آصف فرخی نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی کا انتقال اُردو ادب کے لئے بہت بڑا نقصان ہے ان کے انتقال سے نہ صرف یہ کہ ایک عہد ختم ہوگیا بلکہ ایک بڑا خلاءبھی پیدا ہوگیا، مشتاق احمد یوسفی جس انداز میں تحریر کرتے وہ قارئین کو خوشیاں فراہم کرنے اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے لئے کافی ہوتی تھیں، شاہد رسام نے کہاکہ میری تربیت میں مشتاق احمد یوسفی کا بہت اہم کردار ہے یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان کے ساتھ وقت گزارا ہے،ان کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاءپُر ہونا بہت مشکل ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes