تحریر مہر سلطان محمود
منظم انداز میں ہونیوالی کسی بھی سرگرمی کی کامیابی کو گٹھ جوڑکا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے اس سے ہٹ کر کہ مطلوبہ سرگرمیاں مثبت یا منفی رجحانات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہورہی ہیں اگر گٹھ جوڑ انسانی معاشرے کی تعمیرو ترقی کیلئے اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہا ہو تو اسے قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی گٹھ جوڑ کو مختلف حالات میں مختلف ناموں سے پہچانا اور پکارا جاتا ہے اسکی واضع مثال لاہور میں ہونیوالا ضمنی انتخاب ہے سات جماعتوں کے گٹھ جوڑ کو اکیلی حکمران جماعت نے شکست دی ہے آگے چل کرنتائج کیا ہوں گے یہ الگ موضع سخن ہے انٹرنیشنل سطح پر بھی متعدد گٹھ جوڑ ہیں جو دنیامیں اچھائی اور برائی کیلئے اپنی اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں پچھلی ایک دہائی سے اقوام متحدہ کے گٹھ جوڑ نے دنیاکو جہنم بنا رکھا ہے بظاہروہ اس ادارے کوبہت ہی مہذب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں فنڈز خرچ کرکے اقوام کو بیوقوف بناکر اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں اس مہذب جہنم کو جسکی تصویر روزانہ کی بنیاد پر کشمیر ،فلسطین ،عراق،شام ،مصر ،برما ،اندرون بھارت ،افغانستان اور یمن کے علاوہ دیگرممالک سے مہذب دنیا کے آئینے کو دھندلا کرتی ہے مگر منافقت ،دروغ گوئی کی لاامتناعی حدود اس پر پردہ ڈال کر بیٹھی ہے بدقسمتی کی انتہاء مسلم امہ پر ہے جو اپنوں کو بچانے کیلئے ہی گٹھ جوڑ نہیں کرسکی ہے انڈیاء نے پاکستان میں ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی آڑ میں منظور پشتین جیسے غداروں کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے ارض پاک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں کررہا ہے ۔
سیاسی جماعتوں اور سول بیوروکریسی کے مکروہ گٹھ جوڑ نے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں بک کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں نتائج کے طور پر ملک ہر لحاظ سے عدم استحکام کاشکار ہو چکا ہے اسکی موجودہ منظر کشی ایک چپڑاسی سے لیکر وزیراعظم تک سب اسی رسی میں دانوں کی مانند پروئے ہوئے ہیں سول بیوروکریسی کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتی ہے روزمرہ کے معاملات پر اگر اچٹتی ہوئی نگاہ سے بغور جائزہ لیا جائے تو مالیوں نے خود ہی چمن کو نوچ دیا ہے بجائے کہ کوئی چور ،ڈاکو باہر سے آکر ملیامیٹ کرتا نتائج یہ ہیں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اس گٹھ جوڑ نے اپنی تجوریوں میں بھر لیا ہے ملک بھر میں سپریم کورٹ کے اٹل حکم پر سرکاری اراضی واگزار کروائی جا رہی ہے زمینی حقائق کے مطابق صورتحال کچھ یوں ہے کہ پٹواریوں ،افسران ،سیاستدانوں اور پراپرٹی ڈیلرز کے علاوہ کالے کوٹ والوں نے سرکاری مال کو ہضم کر رکھا ہے سرکاری اراضی کو جعلسازی سے اپنے نام منتقل کروا رکھا ہے مختصرا چند سطریں یہاں پر رقم ہیں جیسے زمین سے بیج کی کونپل سینہ چیر کر باہر نکل ہی آتی ہے اور انجام کے طور پر ایک سایہ دار تناور درخت کی شکل میں آشیانہ فراہم کرتی ہے پنجاب کے ضلع قصور کے موضع بنگلہ کمبواں میں سرکاری اراضی ،187 ،202 ، 337کنال کے مختلف قطعات میں موجود تھی مگر سابقہ دس سالہ ن لیگی دور میں تقریبا بڑی سیاسی جماعتوں کے ڈونکی راجاؤں نے گٹھ جوڑکرکے وہ ہضم کرلی ہے جو کہ اربوں روپے مالیت کی ہے باقی کہانی بہت لمبی ہے اسی گٹھ جوڑ کے سرکردہ مہرے کو جو آج کل محکمہ ہیلتھ پرائمری اینڈ سکینڈری میں بطور ڈپٹی سیکرٹری تعینات ہے آئینہ دکھایا تو برا مان گئے ان سرگرمیوں کی انتہاء یہ ہے کہ سبھی اپنا اپنا طے شدہ کبھی کبھار بقدر جثہ حصہ وصول کرکے ہر گھپلے کو قانون کی رو سے جائز قرار دے دیتے ہیں۔
کسی بھی ادارے کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے جعلی ایمانداری کا بدبودار غلاف ہٹا یا جائے تو نیچے سے آستین کے سانپ نکلتے ہیں احتساب والے ادارے خود اس گٹھ جوڑ میں شامل ہونے کو باعث فخر سمجھتے ہیں سرکاری اداروں میں ہونیوالے آڈٹ میں آڈٹ پیراز کے خاتمے کیلئے بولی لگتی ہے پھر سب بدبودار کردار خشبو دار ہوجاتے ہیں محکمہ اینٹی کرپشن قصور و لاہور ریجن نے ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک محکمہ ایجوکیشن جعلی ڈگری کیس میں ملوث و ہولڈرز کے خلاف مقدمہ کا اندراج نہ کرکے بڑا اہم قومی فریضہ سرانجام دیکر اپنے گٹھ جوڑ کی اہمیت کو ثابت کردیا ہے ملک بھر میں ہسپتالوں کی حالت زار پر بابا رحمتا روزانہ ریمارکس دیتا ہے شاید انہیں پتہ نہیں کہ جناب کے حکم سے ذیادہ ان کرداروں کو اپنا گٹھ جوڑ عزیز ہے ہر طرف گھپلے ہی گھپلے ہیں سرکاری افسران بلا خوف و خطر کرپشن کرکے بحفاظت غیر ملکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی طرح نکل جاتے ہیں پنجاب کی خاتون وزیر صحت سے بڑی امیدیں ہیں لیکن امیدیں پوری ہوتی نظر نہ آئیں اللہ کرے کامیاب ہو الگ سے موضع سخن بنائیں گے تبدیلی والے وزیراعظم بھی کل آخر اس گٹھ جوڑ پر بول ہی پڑے ہیں کہ جو بیوروکریٹ کام نہیں کرتا اسے فارغ کردیں جناب وزیراعظم کتنوں کو فارغ کریں گے امور مملکت خلائی مخلوق نہی آنے چلانے ہیں ابھی تک قانون سازی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے قانون سازی کریں باضمیر وفادار باکردار لوگ موجود ہیں خلائی مخلوق سے مشورہ کرنے میں عار نہ محسوس نہ کریں اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کیلئے قانون کا شکنجہ سخت کریں یقینی طور پر نتائج مثبت ہی ہوں گے چند ماہ کی مشکلات سے حکومت وقوم کو گھبرانہ نہی چاہیے جو قومیں ثابت قدمی سے ایسے مکروہ گٹھ جوڑوں کا مقابلہ کرتی ہیں وہ سرخرو ہوجاتی ہیں ہمارے پاس چودہ سوسال پہلے کا ماڈل موجود ہے پھر بھی اگر چاہیں تو ہمسایہ ملک جس سے پریم نگر کے باسیوں کی ایکسپورٹ حیران کن طور پر بڑھ گئی ہے کا احتسابی ماڈل اپنا لیں یہ گٹھ جوڑ ٹوٹ جائے گا کسی بھی سائل کی فائل ہدیہ دیئے بغیر دوسرہ کمرہ تو دور کی بات اگلے میز تک نہی جاتی ہے ۔
آخر ی سطور میں جناب چیف جسٹس صاحب سابقہ حکومت کے کمپنیز سکینڈل اور لاہور میں قبضہ گروپس سے اگر فرصت ہو تو تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹروں معہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بننے والی ہیلتھ کونسلوں کا کسی متعبر ایجنسی سے فرانزک آڈٹ کروالیں گٹھ جوڑ توڑنے میں بہت کامیابی ملے گی ایم ایس صاحبان و اسسٹنٹ کمشنر صاحبان نے ایسے کھایا ہے جیسے کبھی دوبارہ موقع ہی نہی ملناتھا عدلیہ میں بھی ایسے ہی سخت احکامات جاری کریں تاکہ نظام انصاف کچھ تو تبدیل ہو ۔