انتہا پسندی

Published on February 14, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 291)      No Comments

\"unnamed(1)\"
ایک نجی ٹیلی ویژن پر ہونے والی لڑائی نما بحث ہماری پورے معاشرے کی تصویر کشی کررہی تھی جس میں عدم برداشت ، ایک دوسرے کی رائے سے اس حد تک اختلاف کہ سننا تک گوارہ نہیں اس پروگرام میں دو عدد مذہب کے پھیلانے کی ذمہ داری اٹھانے والے اور ایک عدد انسانی حقوق کی بہت بڑی علمدار بیٹحی تھیں جن کی باتیں اگر کو ئی جاہل بھی سنے تو وہ یہی اندازہ کرے گا کہ نہ ان میں سے کوئی دین اسلام کے پھیلانے کی ذمہ داری والا کوئی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کا پرچار کرنے والا مذہب کے ذمہ دار بغیر کسی دلیل کے بات کر رہے تھے اور بندوق کے زور پر شریعت نافذ کرنے والوں کے حق میں تقریرں کر رہے تھے لیکن شائستگی کے ساتھ جبکہ پروگرام میں موجود خاتون بہت زبردست بات کر رہی تھیں لیکن بغیر تہذیب کے اور بغیر تہذیب کے جتنی مرضی اچھی بات کیوں نہ کی جائے وہ بری سمجھی جاتی ہے اوپر سے پروگرام کے میزبان بھی ایک پارٹی بنے ہوئے تھے حالانکہ انکو اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ مہمانوں کا نقطہٗ نظر لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنے بیٹھے ہیں نہ کہ اپنا نقطہٗ نظر بیان کر نے ۔ اختلاف رائے زندہ انسانوں کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے مگر جب اپنی رائے کو دوسروں پرمسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فساد کی وجہ بنتا ہے جس سے معاشرے میں عدم برداشت ، قتل و غارت عام ہو جاتی ہے ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہم نے دین کو ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے جو دین کی اس بنیادی تعلیم سے ہٹ چکے ہیں جو کہ انسانیت پر مبنی ہے اور انسانی جان کی حرمت پر اس بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ ایک انسان قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا قرار دیا گیا ہے جبکہ وہ اہل علم جو کہ فتنہ و فساد سے دور ہیں دین کی صحیح تعلیم لوگوں کو پہنچا رہے ہیں وہ اس حد تک غیر محفوظ ہیں کہ سامنے آکر کوئی بھی فتوی دینے سے قاصر ہیں جبکہ دوسری طر ف ہمارے معاشرے میں موجود خامیوں کو بجائے دور کرنے کے ان کے نام پر پیسہ کمانے والے لوگ قابض ہیں اور انسانی حقوق کے برائے نام نمائندے ہیں ہیں وہ صرف ایسے مسائل پر ہی آواز اٹھاتی ہیں جہاں سے انھیں کچھ حاصل ہونے کی توقع ہوتی ہے کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جن پران انسانی حقوق کے نمائندوں کی طرف سے آج تک کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی قبائلی علاقوں میں خواتین کی خریدو فروخت ہونے سے لے کر انکے بے گھر بچوں کی تعلیم تک عدالتی نظام میں موجود خامیوں سے لے کر اربوں روپے بٹورنے والے قبضہ گروپوں تک یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں جامعہ حفصہ میں شہید ہونے والی خواتین پر بات کرتے ہوئے انکے پیٹ میں مروڑ اٹھتی ہے حالانکہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں تھیں لیکن وہ چونکہ انکے مفادات سے ٹکراتی ہیں اس لیئے ان پر بات کرنا اپنے مفادات پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے ۔ کتنے ہی ایسی خواتین جو حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے جسم فروشی تک مجبور ہوتی ہیں لیکن انکے زخموں پر مرہم نہ تو اسلام کے نام پر اپنی دکانداری چمکانے والے رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ اپنے جسم کی کسی معذوری کو پوری دنیا میں دکھا کر’’ بھیک مانگنے والے ‘‘ ہر کوئی اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے ۔
میری دین اسلام کی تبلیغ کرنے والوں اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں سے کچھ گزارشات ہیں ۔ اگر یہ ایسا کر لیں تو یقین مانیں کہ دین اتنی تیزی سے لوگوں میں پھیلے گا کہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہوگا اور ہر شخص کو اسکے بنیادی حقوق میسر ہونگے اور اسکے لیئے غیر ملکی سرمائے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی لیکن اسکے لیئے خلوص نیت اور صحیح لائن اور لینتھ پر گیندیں پھینکنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں مختلف مقامات پر مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں جن میں سے رائے ونڈ کے مقام پر تبلیغی اجتماع سب سے بڑا ہوتا ہے جس میں لوگوں کو دین اسلام پر چلنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں لاکھوں کا اجتماع ہوتا ہے اگر یہی اجتماع اسلام آباد میں کیا جائے اور اس اجتماع کو ایک احتجاج کی صورت دے دی جائے جس میں ہر سال ایک ایسا مسئلہ لے کر آیا جائے جو حکمرانوں کی تھوڑی سی کوشش سے حل ہو سکتا ہو جیسے ٹیکسیوں اور رکشوں پر میٹر لگوانا ، تمام بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کے ساتھ ساتھ دین کی تبلیغ بھی کی جائے اور عوام کی فلاح بھی جب تک حکومت یہ مسئلہ حل نہ کرے احتجاج نما دین کی تبلیغ جاری رکھی جائے اور بالآخر حکومت جلد ہی انکے مطالبہ مان لے گی اور اس سے دین کی جس طرح تبلیغ ہوگی اور دین کا خدمت خلق کا جو پہلو اجاگر ہوگا وہ ناقابل تصور حد تک لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گا دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں جتنا پیسہ خرچ کرتی ہیں اگر اس سے آدھا وہ تمام خواتین جو کسی مجبوری کی وجہ سے جسم فروشی کر رہی ہیں کے لیئے ایک ایسا ادارہ بنا دیں جس میں انکو تربیت دے کر معاشرے کا کارآمد شہری بنا دیا جائے ، وہ تمام بچے جو سڑکوں پر بھیک مانگیں ان کے لیے حکومت کے ساتھ ملکر سکولوں میں داخل کروانے کی مہم شروع کی جائے ، بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں پر بچیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے وہاں تک پہنچا جائے اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے جن علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے وہاں تک پہنچا جائے اور ان خواتین کو انکے حقوق کے بارے میں بتایا جائے ۔ ایسا کرنے سے معاشرے کا ہر وہ طبقہ جو انکے خلاف ہے وہ انکی حمایت میں بولے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا ۔
ہمارے معاشرہ اتنا برا نہیں تھا ہماری اپنی تہذیب تھی کچھ ثقافت تھی ہم نے اپنی ثقافت سے جڑا رہنے کے بجائے عرب،افغان، بھارتی اور مغربی ثقافت کو اپنانا شروع کر دیا جسکی وجہ سے ہمارے اندر یہ اختلافات بڑھتے گئے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے رہی سہی کسر ہم نے دین سے دوری نے کردی ہے ہم نے دین کو صرف آخر ت کو بہتر بنانے کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے جبکہ دین حقیقت میں زندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیئے آیا تھا دین تو رہن سہن ، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا غرض ہر وہ معاملہ جو آپکی معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے کے بارے میں آپکو بتاتا ہے ۔ اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے کونسے دین کو اپنانا ہے وہ دین جو زبردستی لوگوں پر مسلط کیا جا رہا ہے یا وہ دین جسکی تعلیم ہمیں نبی کریم ﷺ کی زندگی سے ملی ہے

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme