کیا پاکستان ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا؟ 

Published on February 24, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 324)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصودانجم کمبوہ
پاکستان اور جرمنی کے درمیان ترقیاتی تعاون کا آغاز 1961ء میں ہوا تھا اور اسے پاک جرمن تعلقات میں اہم مقام حاصل ہوا پیشہ وارانہ تربیتی منصوبوں کا سلسلہ ترقیاتی تعاون کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ۔ جرمن حکومت نے گزشتہ کئی عشروں میں مشترکہ ترقیاتی سرگرمیوں اور منصوبوں کے لیے 4.5ملین مارک سے زیادہ رقوم مختص کیں ۔ پالیسیوں اور منصوبوں پر سالانہ دو طرفہ بین الحکومتی مذاکرات میں غور و خوض کیا جاتا اور مذاکرات میں طے پانے والے سمجھوتوں کے مطابق منصوبوں پر عملدرآمد کیا جاتا ۔ 1995-96کی مدت میں فنی تعاون کے لیے 31ملین مارک (تقریباً) 787ملین روپے ) فراہم کرانے کا وعدہ کیا گیا ۔ جرمن امداد اس مقصد کو مد نظر رکھ کر دی جاتی ہے کہ امداد حاصل کرنے والے دوست ملکوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کرنے کے قابل بنایا جا سکے ۔ ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ، متعلقہ ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جرمن حکومت سماجی بھلائی اور تحفظ ماحول کے ماڈل منصوبوں پر عملدرآمد کو بہت اہمیت دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں بنیادی اقتصادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے لیے بھی تعاون کرتی ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غازی بروتھا بجلی منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والوں میں جرمنی شامل ہے ۔ جرمنی برسوں سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ منصوبوں کے مقاصد کے تعین اور ان پر عملدرآمد کے تمام مراحل میں ان لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیئے ۔ جنہیں ان منصوبوں سے فائدہ پہنچانا مقصود ہے ۔ مردان کا مربوط دیہی ترقیاتی منصوبہ اور بلوچستان کا دیہی اور امدادی پروگرام اس نقطہ نظر کی بہترین مثال ہیں ۔ حالیہ چند برسوں میں مختلف شعبوں میں کام کیا گیا ۔ سماجی ،توانائی ،قدرتی وسائل اور ماحولیاتی آلودگی ، دیہی ترقی اور ذرائع آمدنی میں اضافے کے پروگرام اور پیشہ وارانہ تربیتی منصوبے ، ان تمام شعبوں مین جرمنی کے تعاون کا مقصد ایسے منصوبوں میں مدد دینا شامل ہے جس سے پائیدار ترقی کے مقاصد حاصل ہوں ، جرمن ماہرین کی نگرانی میں منصوبے کے ایک مرحلے کی تکمیل کے بعد وہ منصوبہ مقامی ماہری کی نگرانی مین دے دیا جاتا ہے صوبہ پنجاب کے شہر پتوکی میں مویشیوں کی افزائش کا منصوبہ اس نظریہ کی بہترین مثال ہے مثلاً کاشتکاری کی تنظیم ادارا کسان کو دس سال تک جرمن ماہرین کا تعاون حاصل رہا جس کے بعد اس ادارے نے ترقیاتی منصوبے کی بجائے بلا منافع بنیاد پر خدمات انجام دینے والی تنظیم کی شکل اختیار کر لی اس ادارے کی ڈیری کی مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدنی کسانوں کی بہتری کے کاموں پر خرچ کی جاتی ہے ، جو اس تنظیم کے ممبر ہیں ان کی خدمات اور کاموں میں مویشیوں کا علاج معالجہ بہتر چارے کی کاشت ، خواتین کی ترقی اور صحت کے پروگرام کے علاوہ اور دودھ جمع کر کے پروسیس کرنے اور ادارہ کی پیداوار کو فروخت کے لیے جدید اور منافع بخش طریقوں پر عمل شامل ہے یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں متعدد ترقیاتی ، صنعتی ، پیشہ وارانہ عمور فنی تعلیم و تربیت ، ذراعت ، صنعتی و سائنسی تحقیق اور دیگر منصوبوں کی تکمیل میں جرمن کا تعاون مثالی رہا مگر ہماری بعض حکومتی شخصیات نے جرمن سے دوریاں بڑھا لیں جرمن نے پاکستان کی تجارتی و صنعتی اور تحقیقی سرگرمیوں میں انقلابی امدادی اقدامات کیے ، جرمن کی کوشش تھی کہ پاکستان کو تجارتی راہداری دے کر یورپ تک لے جائے۔ یہ بھی سچی حقیقت ہے کہ جرمن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان نے اپنی بعض مصنوعات کو معیاری بنایا پاکستانی مصنوعات کو یورپ میں متعارف کروانے میں جرمنی کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، اب بھی جرمن پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے صرف ہمیں قدم بڑھانا ہوں گے جرمن ہماری ترقی و خوشحالی میں انقلابی تعاون کر سکتا ہے ، ہمارے موجودہ حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ جرمن کے تجارتی منصوبوں میں مدد اور تعاون حاصل کرنے سے گریز نہ کرے دنیا کے ہر اس ملک سے رابطے بڑھائیں جو ہمارے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہو ، بلغاریہ نے بھی بعض ایک منصوبوں میں ہماری مدد کی تھی ، صنعتی و تجارتی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کیا جائے ملک کو صنعتی انقلاب سے مالا مال کیا جانا چاہیئے ، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہی ، بیورو کریسی کے تعاون کو حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیا جانا ضروری ہے ، تجربہ کار اور دیانتدار افسران کو زیادہ سے زیادہ مراعات دے کر ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل و تکمیل کا کام لیا جانا چاہیئے ۔ 

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes