اتحاد امت

Published on March 29, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 451)      No Comments

تحریر: حافظ فرحان علی 
دور حاضر کی اہم ضرورتوں میں اتحاد امت ایک اہم ضرورت ہےآغاز اسلام سے اب تک یہودو نصاریٰ دین الٰہی کے مخالف رہے ہیں اور ہمیشہ اسلام کو نقصان اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔وہ اپنا مال و دولت اس کام میں لگا رہے ہیں کہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق نہ پیدا ہو سکے۔ہر سطح پر وہ بھر پور کوششیں کر رہے ہیں۔ان کا مقصد صرف ایک ہیکہ امت مسلمہ کو ایک نہ ہونے دیا جائے۔اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرما یا مومنوں کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں ایسی ہے جیسے ایک بدن کی بدن میں جب کوئی عضو درد کرتا ہے تو سارا بدن اس میں شریک ہو جاتا ہے نیند نہیں آتی (مسلم) شاید کفا ر اس حدیث پاک سے واقف ہیں اسی لیے مسلمانوں کو ایک نہیں ہونے دیتے مختلف صورتوں میں مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچاتے رہتے ہیں وہ ہماری گروہ بندی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ خود بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمان دوبارہ سے ایک بن جائیں توکفار ایمان والوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اسی لیے مسلمانوں کو پارہ پارہ کر کے ان کے خلاف دن رات سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بکھیر کرکبھی جھوٹے نبی پیدا کر کے مسلمانوں کے دلوں کو چیڑا تو کبھی ان کا قتل عام کیا دہشت گردی کا نشانہ بنایا صرف اس وجہ سے کہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں یہ کسی طرح بھی ہمارہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔اگر ہم کفارسے دو ہاتھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے ایک ہونا پڑے گا کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے اقوام بنا کرتی ہیں۔مومن مومن کے لیے ایسے ہے جیسے عمارت میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو تھامے رکھتی ہے (الحدیث) اسی طرح ہر گروہ ایک اینٹ ہے جب سب گرہ مل کر ایک عمارت بن جائیں گے تب کوئی ان کے مخالف آنے کی غلطی نہیں کرے گا۔اتحاد و اتفاق ملت کی جو مثال رسول کریمﷺ نے قائم کی اس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکے۔اسلام کا پیغام لے کر جب اللہ کے رسول ﷺ آئے تو آپ نے صدیوں سے لڑنے والے قبیلے جو کئی دھائیوں سے لڑائی جھگڑے کر رہے تھے محبت کی ایسی رسی میں پرویا کہ مہاجر و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔وہ قوم جو گھوڑوں کی دور کی بنا پر،شاعری کی بنا پر،باپ داداؤں کی افضلیت کی بنا پر لڑا کرتی تھیں ان میں ایسی محبتیں پیدا کیں ایسا پیار بکھیرا کہ ندنیاکے سامنے انہیں ایک مثالی قوم بنا دیا۔ایک دفعہ اللہ کے رسولﷺ کاایک مہمان صحابی حضرت ابو طلحہ صاپنے ساتھ گھر لائے اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا مہمان لایا ہوں بیوی نے کہا ہمارے گھر تو کھانے کے لیے کچھ نہیں ہاں البتہ میں نے دو بچوں کے کھانے کا بندو بست کیا ہے دو بچوں کا کھانا ایک بڑے شخص کے لیے کافی ہے میں بچوں کو بہلا کر سلا دیتی ہوں آپ نے کہا جب تم بچوں کو سلا کر کھنا لے کر آؤ تو چراغ جلانے کے بہانے گل کردینا میں اندھیرے میں فرضی طور پر منہ چلاتا رہوں گا اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھا لے گا چناچہ اسی طرح ہوا مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھایااور گھر والے فاقے میں رہے آپ سوچیں کیا اس قوم سے لڑنے کا تصور کیا جاسکتا ہے جو مہمان کی خاطر اپنے خون اپنی اولاد کو بھوکا رکھے مسلمان تو پیار کرنے والا ہے۔مسلمانوں کا آپس میں نہایت پیار تھا محبت تھی خلوص تھا اسی تحاد و محبت کی وجہ سے تو مسلمان ترقی کر رہے تھے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو رہا تھا ہماری کیفیت یہ تھی کہ بیت المقدس پر ملک شام میں یمن کی وادیوں میں تین بڑے اعظموں میں اسلام کا پرچم لہرا ریا تھا جسے علامہ اقبال160ؒ نے یوں کہا 
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری 
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارہ 
اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور یہود یوں کو اپنی فکر ہو رہی تھی انہیں کچھ سمجھ نہیں آریا تھا کہ کس طرح مسلمانوں کو روکا جائے تب انہوں نے ایمان والوں کو ہی ایمان والوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا انہوں نے مسلمانوں میں فسادات کروانے کے لیے اپنے چند لوگ ظاہری طور پر مسلمان کروائے اور ان سے اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں مصروف رہے اورتاریخ کامطالعہ کیا جائے تو ان کی یہ ترکیب کام بھی کر گئی تھی جس سے مسلمان آپسی پھوٹ کا شکار ہوگئے۔کہاں وہ مسلمان جو مہمان کی خاطر فاقیکر لیتے تھے اور کہاں آج کا مسلمان جوگروہ بندی کی وجہ سیدوسرے مسلمان سے سلام لینا بھی گوارہ نہیں کرتا وہ اگرچہ تعداد میں کمزور تھے لیکن ان کے ایمان مضبوط تھے آج ہم تعداد میں زیادہ ہیں لیکن جتنے گروہوں میں ہم تقسیم ہو چکے ہیں اتنے ہی ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہیں گروہ بندی عروج پر ہے مساجد بے شمار ہیں لیکن نمازیوں کی تعداد اتنی کے ایک قطار بھی مکمل نہ ہو پائے دنیا نے مسلمانوں کی شان شوکت ان کے دور حکومت بھی دیکھیتھے ہیں جو صرف اتحاد کی وجہ سے تھے۔ہمیں آپس کیاختلافات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ان کا حل ممکن بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔اللہ کے اس کے رسولﷺ کے لیے د ین اسلام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ایک امت ایک قوم ایک جماعت بننا ہوگا گروہ بندی سے بالا تر ہو کر سوچنا ہوگا ہمیں پھر سیایک مثالی قوم بننا ہوگاکہ کفار ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کیا اسلام کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکے۔
جب ملتے ہیں پھول رنگین نمو دیتے ہیں گلدستہ
صرف ایک گل کی اہمیت نہیں ہوتی راہ میں

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes