موت کا ذمہ دار کون

Published on April 29, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 296)      No Comments

تحریر زکیر احمد بھٹی
ایک ماں باپ کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل کریں ماں گھر کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی دیکھ بھال کرتی ہے اور باپ اپنے بچوں کے لیے دن رات انتھک محنت کرتا ہے نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی دیکھتا ہے نہ ہی بارش دیکھتا ہے باپ کے دل اور دماغ میں اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ ہے اپنے بچوں کا اچھا مستقبل جس کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے نہ اپنی خوشیاں دیکھتا ہے اور نہ ہی اپنی بیماری دیکھتا ہے ہر وقت ہر پل اسے اپنے بچوں کا اچھا مستقبل ہی نظر اتا ہے افسوس کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ بچے اچھی پوسٹ پر چلے جاتے ہیں تو وہی بچے ماں باپ کو ایسے بھولتے ہیں جیسے وہ ان کو جانتے ہی نہیں ہیں ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے گھر کے پاس ہوا صبع کا وقت تھا جب میں ناشتہ لینے گیا تو پتہ چلا کہ چاچا انور نے خودکشی کر لی ہے میں ناشتہ لینا بھول گیا اور چاچا انور کے گھر کی طرف چل دیا جب اس گھر کے پاس پہنچا تو وہاں لوگوں کا کافی رش تھا میں نے کچھ لوگوں سے معلومات لی کہ اخر ہوا کیا ہے کیوں اس بندے نے خودکشی کی ہے تو ایک دوست نے بتایا کہ یہ بندہ کچھ دنوں سے کافی پریشان تھا میری بھی ایک دو بار ملاقات بھی ہوئی تھی اس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو اگے سے بس ایک ہی جواب دیتا تھا کہ جب انسان بچوں کے لیے حد سے زیادہ محنت کرتا ہے اور بچوں کی فرمائشوں کو اپنی اوقات سے زیادہ مدنظر رکھتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ اپنی پہنچ سے زیادہ سہولیات فراہم کا بچوں کو نقصان دے بھی ہو سکتا ہے تو پھر ایسے واقعات اکثر اوقات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر میں اس کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا تھا پھر میں نے اپنے گھر جا کر یہ بات بتائی کہ چاچا انور کچھ دنوں سے کافی پریشان ہے اور باتیں بھی عجیب عیجب کر رہا ہے جو میری سمجھ سے باہر ہوتی ہے میں ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتا یہ کل ہی کی بات ہے میری امی جان ان کے گھر آئی اور چاچا انور کی بیگم سے پتہ کیا کہ کیا ہوا ہے میرے بیٹے نے بتایا ہے کہ بھائی انور کافی پریشان اور بیمار ہے کچھ دنوں سے کیا ہوا ہے پھر چاچا انور کی بیگم نے میری امی جان کو بتایا کہ انور نے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے دن رات محنت کی اور بچوں کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کی کبھی بھی کوئی پریشانی نہ آنے دی بچوں کی زبان سے بات نکلنے سے پہلے بچوں کی ہر فرمائش ہر خواہش پوری کی جیسے کہ اپ کو پتہ ہے ہماری بڑی بیٹی نورین جو کہ ابھی دو سال پہلے ڈاکٹر بنی ہے اس کے لیے انور نے کبھی اپنی کوئی خواہش پوری نہیں کی جب بھی میں بولتی تھی کہ انور اپنی زندگی کے بارے بھی سوچا کروں اپنی صحت کا خیال رکھا کروں تو اگے سے یہی کہتا تھا کہ میرے لیے اپنے بچوں کی تربیت اور خواہشات ہی میری زندگی کا مقصد ہے ان کی خواہش ہی میری خوشی ہے نورین کی شادی کے لیے بھی انور نے کافی کچھ بنایا ہوا ہے انور کو یہ بھی خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی کی شادی بہت دھوم دھام سے کروں گا اپنی بیٹی کی خواہش کے مطابق کروں گا مگر انور یہ بھول چکا تھا کہ جس طرح اس نے بچوں کی ہر خواہش پوری کی ہے بچوں کے دماغ اب اس طرح کے نہیں رہے جیسے انور سوچتا تھا بچوں بڑے ہو گئے ہیں ان کی خواہشات وہ نہیں رہی جیسے ہم غریب ماں باپ سوچتے ہیں اور انور کو بھی یہی دکھ تھا جیسے ہی نورین نے میڈیکل کورس مکمل کیا اور ایک ہسپتال میں اسے اچھی نوکری مل گئی کچھ عرصہ تو وہ اپنے باپ کا سہارا بھی بنی رہی مگر ابھی کچھ ماہ سے نورین نے گھر بھی انا کم کر دیا اور خرچہ بھی دینا بند کر دیا میں بار بار انور سے کہتی رہی کہ بچی جوان ہے اس پر نظر رکھے مگر انور میرے ساتھ ہی جھگڑا کرنا شروع کر دیتا تھا کہ نورین بڑی ہو گئی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہے پھر نورین نے کئی کئی دن گھر سے باہر رہنا بھی شروع کر دیا جب بھی کبھی اتی تو ہم پوچھتے کہ گھر کیوں نہیں اتی تو جھوٹ بولتی کہ کام کی مصروفیات زیادہ ہوتی ہے اس لیے میں ہسپتال میں ہی ایک کمرہ لیا ہے وہاں ہی رہتی ہوں ابھی کچھ دن پہلے جب نورین گھر آئی تو کچھ پریشان تھی ہمارے بار بار پوچھنے پر نورین نے کچھ نہیں بتایا شام کا وقت تھا جب نورین کی طبعیت خراب ہو گئی تو ہم اسے لے کر یہ ساتھ والے ہسپتال لے گئے جب ڈاکٹروں نے نے بتایا کہ مبارک ہو آپ کی بیٹی ماں بننے والی ہے تو ہمارے تو پاؤں سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہو ہسپتال میں ہم لوگ تماشہ لگاتے اس سے بہتر ہم نے سمجھا کہ نورین سے گھر جا کر بات کرتے ہیں گھر پہنچ کر جب ساری بات نورین کو بتائی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہا ہے پہلے تو نورین خاموش رہی ہمارے باربار پوچھنے پر نورین نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ اپ لوگوں نے میرے لیے اج تک کیا ہی کیا ہے مجھے جو بہتر لگا میں نے وہ کیا اپنے اچھے مستقبل کے لیے اپنی اچھی زندگی کے لیے میں نے نکاح کر لیا ہے اپ کو مناسب وقت پر بتانا چاہتی تھی مگر نہیں بتا سکی جس کے لیے میں آپ لوگوں سے شرمندہ ہوں اور پھر نورین خاموش ہو گئی دوسری طرف انور کو پتہ نہیں کیا ہو گیا بس اتنا ہی بول پایا کہ میں نے آج تک تمھارے لیے کیا نہیں کیا میری عزت مٹی میں ملا دی ہے تم نے میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہا اس سے زیادہ ایک الفاظ بھی اپنی زبان سے نہیں نکلا اور اپنے کمرے میں چلا گیا دو دن تک نہ کچھ کھایا اور نہ ہی کوئی بات کی ۔ابھی ایک دو دن سے باہر نکل جاتا ہے اور کچھ دیر بعد واپس آ جاتا ہے اتنے میں میری امی جان نے پوچھا کہ نورین بیٹی کہاں ہے نظر نہیں آ رہی تو چاچا انور کی بیگم نے کہا کہ وہ ہسپتال چلی گئی ہے ابھی کوئی رابطہ بھی نہیں کر رہی نورین تو کم از کم باپ سے معافی ہی مانگ لے آ کر مگر آج کل کے بچوں کو اتنی عقل کہاں ہوتی ہے کہ کوئی ہمارا بڑا بھی ہے سر پر اتنے میں میری امی جان نے کہا اللہ تعالیٰ سب بچوں کو ہدایت دے اتنی بات کرکے امی جان واپس اپنے گھر آ گئی اور اگلے ہی دن یہ بری خبر ملی کہ چاچا انور نے پنکھے کے ساتھ راسی ڈال کر پھندا لے لیا افسوس کی بات یہ ہے کہ انور تو اب چلا گیا اس دنیا سے مگر وہ بیٹی جس کے لیے انور نے دن رات محنت کی وہ بیٹی باپ کو اخری بار دیکھنے بھی نہیں آئی نورین کو اتنا بھی احساس نہیں رہا کہ وہ باپ جس نے دن رات ایک کرکے نورین کو ڈاکٹر بنایا اچھی تعلیم دی اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا اب وہ باپ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا اسے ایک بار تو دیکھ لیتی مگر نورین باپ کو دیکھنے کے لیے بھی نہیں آئی

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes