تبدیلی اورمہنگائی

Published on April 29, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 297)      No Comments

تحریر ۔۔۔ علی رضا رانا
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مزدوروں ، کسانوں اور نچلے درجے کے ملازموں کو اپنا سیاسی اثاثہ سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے اور اس “سب کچھ”میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی شامل تھا، یہ ادارہ عرف عام میں ای او بی آئی کہلاتا ہے، یہ ادارہ مقاصد کے لحاظ سے شاندار تھا ، قانون کے مطابق ملک کے تمام پرائیویٹ ادارے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہوں کا ایک حصہ ای او بی آئی میں جمع کراتے تھے، حکومت اس حصے کے برابر اپنی طرف سے رقم جمع کرادیتی تھی ، اس رقم میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی، پیسے سے پیسہ بنتا تھا اور یہ پیسہ آخر ان لوگوں کو واپس کردیا جاتا تھا جن کی تنخواہوں سے کٹتا تھا، پرائیویٹ ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس فنڈ سے سرکاری ملازمین کے برابر پنشن ملتی تھی، یہ اگر دورانِ ملازمت معذور ہوجاتے تھے تو انہیں اس فنڈ سے باعزت معذوری وظیفہ بھی ملتا تھا اور اگر یہ انتقال کرجاتے تھے تو ان کے خاندان کو ان کی تنخواہ کے برابر ماہانہ امداد ملتی رہتی تھی، ای او بی آئی میںرجسٹرڈ تمام ملازمین پندرہ سال کے بعد پنشن کے اہل ہوجاتے تھے، 1976ءسے اب تک 71لاکھ 38ہزار مزدور اس ادارے میں رجسٹرڈ ہوئے، یہ ایک شاندار ادارہ تھا لیکن یہ ادارہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکی اداروں کی طرح زوال کا شکار ہوتا چلا گیا ، ادارے کو پہلی زک سیٹھوں نے پہنچائی، یہ اپنے ملازمین کو پورے حقوق نہیں دینا چاہتے تھے، یہ اپنے صرف دس فیصد ملازمین کو ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کراتے تھے۔ جبکہ ادارے کو دوسرا نقصان حکومت نے پہنچایا، بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں 1995میں حکومت نے اپنا شیئر بند کردیا یوں یہ ادارہ آہستہ آہستہ سسکنے لگا لیکن یہ اس کے باوجود ملک کا امیر ترین ادارہ تھا، یہ ملک بھر میں 238ارب روپے کی جائیداد اور 150روپے کے نقد فنڈز کا مالک تھا، یہ فنڈز اور یہ جائیدادیں 2009ءتک محفوظ رہیں لیکن پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا تیسرا دور آگیا اور یہ فنڈز اور یہ جائیدادیں گوندل فیملی کے ہتھے چڑھ گئیں۔
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت2013میں آئی اور تب بھی حالات کچھ بہتر نہیں ہوسکے مہنگائی عروج پر آپہنچی سونے کی قیمتوں میں ماضی کی حکومتوں کی طرح اضافہ ہوا۔ پٹرول کی قیمتوں سمیت دیگر مصنوعات بھی تیزی سے بڑھ گئیں مگر پیپلز پارتی حکومت سے مختلف حکومت نواز حکومت تھی، کچھ معاملات نواز حکومت میں درست ہوئے مگر امیر ترین مزید امیر ہوگیا اور غریب شخص مزید غریب ہوگیا اور نواز شریف صاحب کے دعوے بھی دعوے ہی بن کر انکو نااہل کرواگئے مگر دعوے نہ پورے ہوئے۔
مگر ملکی تاریخ میں ایک سورج جو چاند گرہن کی طرح بڑے بڑے سیاسی لیڈروں پر گرہن لگا گیا ہے۔ جنہوں نے پاکستان میں بار بار حکومت قائم کی اور بڑے بڑے دعوے بھی کئے مگر وہ وعدے ہی کیا جو وفا کرتے یہ لوگ عوامی عدالت نے اس بار 25جولائی 2018بروز بدھ کو بار بار باریاں لینے والوں ، ملک اور قوم کے ٹیکس کے پیسے کھانے والوں اور دعوے کرکے بھول جانے والوں کو یکسر مسترد کردیا اور تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے عمران خان کو اکثریتی طور پر منتخب کرلیا ہے اور اب عمران خان قوم کی امیدوں کا مرکز سمجھے جارہے تھے مگر ہم بھول گئے تھے کہ انسان کی فطرت تبدیل ہوسکتی ہے مگر انسان ہی مشکلات اور جبر کا دور ابھی ختم نہیں ہوا ہے مہنگائی کا نیا دور شروع ہوچکا ہے اور لوڈشیڈنگ میں بھی مزید اضافہ ہوچکا ہے ڈالر انتہائی مہنگا ہو چکا ہے بے روزگاری عام ہے پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مگر یہ سب اتنا آسان بھی نہیں کہ جلد ٹھیک ہو جائے مگر حالات کی نسبت صورت حال قدر خراب ہوتی جارہی ہے اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے بھٹو صاحب کے دور کی ترز کا ختم ہوا یہ ادارہ جہاں مزدوروں کو ریلیف مہیا کیا گیا ہے یہ اس دور کی اہم ترین ضرورت ہے اور ساتھ ہی میرٹ پر نوکریوں کا عمل فوری وقت کی اہم ضرورت ہے خان صاحب امید کا محور ثابت ہوں یہ عوامی خواہش ہے مگر آخر میں یہ عرض کرنا چاہو گا کہ ذمہ داری احساس کا نام ہے اور احساس ذمہ داری کا محور ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes