انداز گفتگو

Published on June 28, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 920)      No Comments

کہکشاں اسلم ۔۔۔پتوکی
انسانوں اور جانوروں کے مابین ایک بنیادی فرق زبان کا فرق ہے – تمام مخلوقات میں سے انسان اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اسے کلام کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے – تاہم محض کلام پر قادر ہو جانا ہی کافی نہیں ہے – کلام یا گفتگو میں انداز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے – بعض اوقات ایک عام سی بات شیریں انداز کی وجہ سےکہی زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے – دانشمندانہ بات بھی اگر بُرے انداز میں کی جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا – لہٰذا گفتگو کے اجزاء کی طرح گفتگو کا انداز بھی بہت اہمیت رکھتا ہے –
سورۃ لقمان میں اللہ تعالی نے حضرت لقمان کی بعض نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں – ان نصیحتوں میں سے ایک یہ تھی کہ : واغضض من صوتک ان انکرالاصوات لصوت الحمیر(آیت:19)ترجمہ:” اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیوں کہ (اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں کی) سب سے بُری آواز گدھوں کی ہے” – اس قرآنی آیت میں بظاہر اونچی آواز کو ناپسند کیا گیاہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرے – بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر یہ واضح کیا گیاہے کہ نا پسندیدہ آواز کیسی ہوتی ہے – بعض اوقات اونچی آواز میں بولنا ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے – ایسی صورت میں اونچی آواز میں بولنے میں کوئی حرج نہیں -اونچی آواز میں کلام کرنا اس صورت میں ناپسندیدہ ہے جبکہ اس کا مقصد کسی پر رعب جمانا اور اپنی برتری ظاہر کرنا ہو –
اندازِ گفتگو کے بارے بہترین رہنمائی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے ملتی ہے -حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم لوگوں کے کلام کی طرح بغیر توقف کے گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا شخص اسے یاد کر لیتا”-حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندازِ گفتگو کے بارے میں فرماتے ہیں”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات سمجھانے کے لیے اسے تین مرتبہ دہراتے تھے “-ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اندازِ گفتگو میں ٹھہراؤ شائستگی کی علامت ہے – بلاوجہ تیز تیز بولنا وقار کے منافی ہے -اسی طرح بلا ضرورت اونچی آواز میں بات کرنا بھی تہذیب کے برعکس ہے – اگر گفتگو میں کوئی اہم بات کی جا رہی ہو تو اسے دہرا دینا بہتر ہے تاکہ سننے والا اچھی طرح بات سمجھ جائے- گفتگو کا مقصد اپنا مدعا دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہے-لہٰذا گفتگو میں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ انداز سامع کی فہم و استعداد سے مطابقت رکھتاہو- ایسے الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے کہ جو سامع کے لیے اجنبی ہوں-جس زبان میں کوئی بات کرے اسے اسی زبان میں جواب دیں یہ نہ ہو کہ کوئی پنجابی میں بات کریں اور آپ اپنا رعب جھاڑنے کی خاطر اس سے انگریزی زبان میں جواب دیں ایسی صورت میں آپ اپنی اہمیت اور عزت اس کی نظروں میں کم کر بیٹھے گے.- اگر کوئی شخص آپ سے کوئی ایسی بات پوچھے جس کا تسلی بخش جواب آپ کے پاس نہ ہوں( یہ نہ کہ اپنی قابلیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے اس کے راستے سے بہکا دیں اپنی لا علمی اور کم فہمی کا کھوکھلہ رعب مت جھاڑنے لگ جائے) تو ایسی صورت میں آپ اس سے شائستگی سے معذرت کر لیں اور ساتھ ہی کسی ایسے شخص کی طرف رہنمائی کردیں جس سے اس کی تسلی وتشفی ہو سکے –
اندازِ گفتگو کسی بھی انسان کی شخصیت کو جانچنے اور پرکھنے کا بہترین پیمانہ ہے-کسی شخص کی گفتگو سے سننے والے پر جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ اس کی شکل وصورت اور ظاہری حالت سے کہیں زیادہ اہم اور دیرپا ہوتا ہے – ایک بد صورت آدمی بھی محض اپنے شیریں کلام کی ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتاہے – اسی طرح ایک انتہائی خوبصورت شخص اگر اندازِ گفتگو میں جاہلانہ طور اپنائے تو لوگ اس سے بیزار ہو جاتے ہیں-گفتگو سوچ کا عکس ہوتی ہے اور سوچ عمل کی بنیاد بنتی ہے – اس لیے گفتگو کی مدد سے کسی انسان کے باطن کو جانا جا سکتا ہے – لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ اپنی گفتگو میں الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں- اسی طرح الفاظ کی ادائیگی میں ٹھہراؤ اختیار کریں- بات چیت میں بناوٹ سے کام نہ لیں – درشت لہجہ اپنانے سے حتی الامکان گریز کریں – اپنے لب و لہجے میں میٹھاس پیدا کریں – جب بات کرنی ہو تو سچ کو لازم پکڑے اور جھوٹ سے دور رہے -حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”صدق و سچائی کو لازم پکڑو اس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے – آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے, حتٰی کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے – جھوٹ سے بچو, اس لیے کہ جھوٹ گناہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور انسان جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے, حتٰی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے “-(متفق علیہ) اندازِ گفتگو میں سچائی اختیار کرنے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور دلی سکون اور راحت ملتی ہے -جب بات میں جھوٹ کی ملاوٹ کی جاتی ہے تو انسان اپنی ہی نظروں میں گر جاتاہے ہر وقت اسے یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ پتا نہیں کب اس کی بات کا پول کُھل جائے اور وہ لوگوں کی نظروں میں بُرا بن جائے گا, ایسا شخص دلی سکون سے محروم رہتا ہے اسے ہر وقت بے چینی گھیرے رکھتی ہے -اندازِ گفتگو میں جاہلانہ طرز اور متکبرانہ لہجے سے اجتناب کرنا چاہیے- ایسا نہ کہ ہماری کہی کسی بات سے کسی شخص کی دل آزاری ہو جائے اور اس کی آہ لگ جائے-
کیونکہ سخت لب و لہجے اور حقارت سے کی گئی گفتگو لڑائی جھگڑے کا موجب بن جاتی ہے – ایسے حالات میں انسان گالی گلوچ پہ اُتر آتا ہے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور ایسی لڑائیاں دیرپا چلتی رہتی ہے – ترمذی میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ” مومن ,لعن طعن کرنے والا بد خلق اور فحش گو نہیں ہوتا “-اللہ تعالی کے ہاں وہ شخص سب سے زیادہ مغبوض ہے جو سخت جھگڑالو ہو”-ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی بات چیت میں فحش کلام سے بچیں اور حیاء کو لازم پکڑیں – حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں ,رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا “حیاء ایمان کا حصہ ہے “-جب انسان اپنی گفتگو میں حیاء ترک کر دیتاہے تو وہ ایسے ہو جاتا ہے کہ جیسے وہ طبعاً ہر بُرائی کے ارتکاب پر مامور تھا-اندازِ گفتگو ایسا ہو کہ سننے والے کہ دل میں آپ کی بات گھر کر جائے آپ کی بات کا مثبت اثر ہوں -گفتگو میں مناسب اچھے الفاظ استعمال کرنے چاہئیے – سب سے اہم بات جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ اس بات کو مدت نظر رکھیں کہ دورانِ گفتگو ہماری بات کا مرکز و محور کون ہے – اگر کوئی چھوٹابچہ ہے تو اس کے ساتھ نرم مزاج بن جائیں- انتہائی میٹھے اور رسیلے لہجے میں بات کریں- جو بات سمجھانی مقصود ہو اسے احسن انداز میں بتانے کی کوشش کریں- اگر(بھائی ,باپ بیٹا یا شوہر) یا کوئی بزرگ بات کامرکز ہوں تو اس سے بات کرتے ہوئے ادب سے پیش آئے ان سے سخت لہجے یا غصے سے بات نہ کریں- ضعیف عمری کے سبب ان کی قوتِ سماعت کمزور ہے تو ان سے درشت لہجے میں بات نہ کریں- نرمی اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کریں- ایک دفعہ بتانے پے انہیں بات کی سمجھ نہ آئے یا سنائی کم دیں تو انہیں پیار اور محبت سے دوبارہ بتائیں – جس سے بھی بات کرنی ہوں ان کا مقام ومرتبہ محلوظِ خاطر رکھیں -( ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بات کرتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے الفاظ پھولوں کی لڑیوں میں پروے ہوئے ہوں موقع ومحل کی نزاکت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر اپنی بات بار بار دہرانی پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کرتے تھے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے – آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام کرتے ہوئے نہ تو اونچی آواز میں بولتے تھے کہ سننے والے کی سماعت پہ گراں گزرتا نہ ہی اتنا آہستہ کلام کرتے کہ سننے والا سن ہی نہ پاتا. بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوازن لب و لہجہ سے گفتگو فرماتے تھے – آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندازِ گفتگو میں ٹھہراؤ اور شائستگی کا رنگ چھلکتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لب و لہجہ شیریں اور میٹھا ہوتا تھا جو کانوں میں میٹھے رس گھولتا تھا – ہم ایسے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازِ گفتگو اپنانا چاہئیے) آگر آپ بات کر رہے ہوں تو مد مقابل صنف نازک ہوں (ماں, بہن, بیٹی یا کوئی بھی رشتہ ہوں) تو انتہائی ادب و احترام سے گفتگو کریں- بات کرتے ہوئے انہیں تکریم دیں – اپنی نگاہیں جھکا کر بات کریں- سخت لب و لہجہ یا آپ کے کلام کے کاٹ انہیں توڑ کہ رکھ دے گی ,ایسے وہ آپ سے ڈرے گی اور بات کرتے ہوئے گھبرائے گی ایسے بہت سے نازک معاملات ,حساس باتیں جو وہ آپ کو بتانا چاہئے گی نہیں بتاپائے گی نتیجاً وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر اس طوفان کا مقابلہ کریں گی اور کمزور ہو جائے گی -اگر آپ اس کے باپ, بھائی,بیٹے یا شوہر ہیں تو وہ آپ کے سخت لب و لہجے کی وجہ سے آپ سے دور ہو جائے گی – آپ کے لہجےکی کاٹ انہیں توڑ کہ رکھ دیں گی – یہ سختی کبھی کبھی نا قابل تلافی نقصان کا باعث بنتی ہے – اپنے عزیز رشتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے لازم ہے کہ آپ ان سے پیار و محبت سے بات کریں ان کی کسی غلطی یا کوتاہی کو گرفت میں نہ لیں بلکہ درگزر کر دیں اور انہیں پیار سے سمجھائیں -اپنے غصے کو قابو میں رکھیں- کسی راہ گیر یا اجنبی مسافر سے بات چیت کا موقع ملے تو حسن خلق اور خندہ پیشانی سے پیش آئیں ان کی عزت کا خیال رکھیں –
کسی سے بات کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم کس جگہ پر کھڑے بات کر رہے ہیں.. گھر کی چار دیواری ہے یا گلی محلہ یا کوئی چوک چوراہہ… اس کے علاوہ ایسی جگہ (مثلاً سکول, کالج ,پارک, سٹیشن اور ہسپتال وغیرہ )جہاں لوگوں کا بے پناہ رش یا ہجوم ہوں بات کرتے ہوئے اپنے اندازِ گفتگو کو بہتر رکھیں اپنے لب و لہجے پر قابو رکھیں – یہ ہمارا اندازِ گفتگو ہی جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ لوگ ہمیں کس قسم کا انسان سمجھتے ہیں – بات چیت کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ اگلے بندے کو بھی بولنے کا موقع ملیں اس کی بات کو بھی توجہ سے سننا چاہئیے بغیر کسی وجہ اور بلا ضرورت اپنی بات کا رعب نہیں جھاڑنا چاہئیے – کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تو اپنے غصے کو قابو میں رکھیں اور مجلس کے احترام کا خیال رکھیں – بھری محفل میں کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے اور نہ دوسروں کی نظروں میں اپنا اور اپنی عزت کا تماشا بنائیں – انسان کی زندگی تو چند پل کی ہے گنی چنی سانسیں ہیں ہمیشگی تو ہے نہیں ایسے میں اگر ہمیں لوگوں کے دل ودماغ میں زندہ رہنا ہے تو اپنے مذہب اندازِ گفتگو اور اچھی باتوں کی وجہ سے دوام حاصل کر سکتے ہیں.. ایسی صورت میں ہمارے مرنے کے بعد لوگ ہمیں اچھی لفظوں میں یاد کریں گے اور ان کے دل سے ہمارے لیے دعائیں نکلے گیں -اندازِ گفتگو میں بنیادی اہمیت ہماری زبان اور ذہن کی سوچوں کو حاصل ہیں اگر ذہن میں پلنے والی سوچیں عمدہ ہو گیں تو زبان شیریں کلام کرے گی.. اگر سوچیں زہریلی اور کڑوی ہو گیں تو ہماری زبان بھی زہر اُگلے گی طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ”جس شخص نے اپنی زبان کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا”- انسان کو جو شر یا تکلیف پہنچتی ہے تو وجہ اس کی زبان ہوتی ہے – ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندازِ گفتگو کو بہتر کریں اس سے کسی کو اذیت نہ پہنچائیں -اسی میں ہماری بھلائی اور عزت ہے-

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Premium WordPress Themes