نجکاری کا فائدہ کسی کو ہوگا؟

Published on February 28, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 514)      No Comments

\"Ghulam
’’بدلہ ہے پنجاب بدلیں گے پاکستان کو‘‘کا نعرہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے پوسٹرز پر نمایاں دیکھاگیا ۔ابھی اس بات کو ایک سال مکمل نہیں ہو ا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جونعرہ’’بدلہ ہے پنجاب بدلیں گے پاکستان‘‘پر عمل شروع کردیا ہے۔جس سے پاکستان کے چند خاندان کے اثاثہ جات میں جون 2014ء سے قبل اربوں ڈالر زکا اضافہ ہو گا۔ پی پی ایل، او جی ڈی سی ایل اور یو بی ایل کے 26 فیصد شیئرز فروخت کردئیے جائیں گے۔ حکومت کو نجکاری کے اس عمل سے ڈیڑھ سو ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔حکمران ملک میں کنٹریکٹ ملازمین کو بے روزگار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں،167ادارے فروخت کیے گئے اور 174ارب روپے اسے ملے اور ایک طرح کی لوٹ سیل لگائی گئی۔حکومت کے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں کہ وہ یہ معلوم کرے کہ جن قومی اداروں کو فروخت کیا گیا ان کی فروخت کے بعد ان کا کیا بنا اور وہ آج کس پوزیشن میں ہے۔ایک طرف کہتے ہیں کہ اسٹیل مل،پی آئی اے ،ریلوے خسارے میں ہے اس لیے اسے نہیں چلا رہے لیکن دوسری جانب جگہ جگہ میٹرو بس چلا رہے ہیں۔12ادارے ایسے ہیں جن کی نیب نے تحقیقات کی ہے لیکن23سال میں کسی بھی رپورٹ کو سامنے نہیں لایا گیا۔
یہ بات بھی قابل غورہے کہ پاکستان میں صنعت کاروں کی ایک غالب تعداد اور بڑے کاروباری لوگوں نے عوام میں مختلف قسم کی فرضی اقتصادی حکایات پھیلا کر انہیں ایک مخصوص صورتحال کا اسیر بنادیا ہے۔ ان فرضی کہانیوں میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت سرکاری شعبہ کی بری کارکردگی کے باعث شدید متاثرہو رہی ہے اور اس صورتحال کاواحد حل نجکاری یا پرائیویٹائزیشن ہے۔ یہ کہانی سنائی جاتی رہی اور بڑے بدلحاظ انداز میں اب ایک بار سنائی جا رہی ہے اور نجکاری کی اسکیمیں لائی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قومی اثاثے چند مخصوص افراد کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور یہ سب کچھ ملک کی اکثریت کی قیمت پر ہوگا اور اس صورتحال کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اس عمل کے ذریعے ہزاروں پاکستانی فالتو، فاضل اور زائد از ضرورت قرار پائیں گے، یہ سرمایہ داری کی بدترین شکل ہے۔ اس قوم کو اپنے اثاثے محض اس لئے نہیں بیچ دینے چاہئیں کہ یہ حکومت ان اثاثوں کو اور اداروں کو مناسب طور پر نہیں چلا سکتی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شادی کیلئے گھر کی ساری چاندی بیچ دی جائے اور اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کیلئے کچھ بھی نہ بچا کر رکھا جائے۔ موجودہ حکومت جس طرح نج کاری کے بارے میں سوچ رہی ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اس کے پاس واحد منصوبہ یہی رہ گیا ہے۔ اس کا مقصد اشرافیہ کا ایک مستقل طبقہ پیدا کرنا ہے جو اپنی مرضی اور منشا سے ریاست اور پاکستان کے غریب عوام کا استحصال کرتا رہے۔ اس سوچ کے معماروں اور ان کے دوستوں میں بڑی آب و تاب نظر آ رہی ہے، نجکاری کے بہروپ اور بھیس میں قومی اثاثوں کو ذاتی اثاثوں میں تبدیل کرنے کے عمل کو یقینی طور پرروکا جانا چاہئے۔دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں نجکاری کاعمل کامیاب رہا، مگر یہ ان کی اقتصادی تاریخ کا ایک امتیازی نشان رہا۔ دوسری طرف پاکستان بنیادی طور پر اپنی ترقی کے مختلف زاویوں میں مختلف مراحل پر ہے جن میں ایک مرحلہ یہ ہے کہ اب مزید نجکاری کا نتیجہ لازمی طور پر بڑے پیمانے پر غریبوں کے استحصال کی صورت میں نکلے گا۔ اس عمل سے امیر طبقہ کو یہ صلاحیت حاصل ہو گی کہ وہ ریاستی پابندیوں کو ہنرمندی سے اپنے حق میں استعمال کرے، بے لگام نجکاری کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ نجی اجارہ داریوں، قیمتوں کی سطح بلند رکھنے کی صنعت کاروں کی استطاعت اور بیروزگاری کو دوام بخشاجائے اور یہ عمل ہمیں مساویانہ ترقی کے حسب خواہش مقصد سے مزید دور کردے گا۔ نواز شریف کے سابق دور اور مشرف دور کی نام نہاد نجکاری نے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا کہ اس نے بیروزگاری، غیر رسمی معیشت اور قرابت دار کاروباری اشرافیہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا اور اب وہ اشرافیہ اس حد تک طاقتور ہو گئی ہے کہ وہ دوسروں کے کام میں دخل اندازی کرتی ہے اور جمہوری ووٹ کو اپنے حسب منشا موڑ لیتی ہے۔ نجکاری کے فوائد بتانے میں کافی شیخی بگھاری جاتی ہے کہ اس سے علوم کی منتقلی ہوتی ہے اور ٹیکس ریونیو بڑھ جاتا ہے اور نجی سرمایہ کاری کو سہارا ملتا ہے۔ محنت کشوں کو کھپانے کا موقع ملتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عمل سے پیداواری سیکٹر سرے سے غائب ہے اور اگر ہمارے ترقی کے اس مرحلہ پر جبری نجکاری ہوئی تو پیداواری سیکٹر غائب ہی رہے گا۔ دنیا کی پھلتی پھولتی معیشتیں اب بھی موثر انداز میں ذہانت کے ساتھ سرکاری شعبے اور سرمائے کے اتصال سے فروغ پارہی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین نے بے مثال اقتصادی ترقی کی ہے جہاں گزشتہ30 برسوں سے معیشت کی شرح نمو 9.5 فیصد چلی آرہی ہے۔ اس معیشت میں 150 سب سے بڑی کمپنیوں کی موجودگی میں حکومت اور ریاست سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔
مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونین رہنمانے نجکاری کے عمل کو معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قومی ادارے قوم کا اثاثہ ہیں حکمرانوں کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حکم پر ان اداروں پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے قومی اداروں کی نجکاری کسی قیمت پر نہیں ہونے دی جائے گی،نجکاری محنت کشوں اور مزدوروں پر ڈرون حملہ ہے۔نجکاری کا بھیانک کھیل عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کی سازش ہے۔ ملک میں گزشتہ 24برسوں میں نجکاری کا عمل ناکام رہا ہے،اس کے بہت بھیانک نتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ نجکاری پالیسی سے ملکی سلامتی اور آزادی کو بھی خطرات ہو سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل اعلیٰ تحقیقاتی کمشین قائم کیا جائے، جو نجکاری کے سارے عمل کا جائزہ لے اور اپنی رپورٹ پیش کرے۔قومی اداروں کی تباہی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے،14مارچ کو لاہور میں نجکاری کے خلاف ریلی منعقد کی جائے گی۔
ضرورت امر کی ہے کہ دہشت گردی کے باعث ملک کو معاشی حوالے سے 78 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ نجکاری کا بھیانک کھیل عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کی سازش ہے۔جس سے مزید حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ملک کو مزید معاشی نقصان سے بچانے کیلئے حکومت کونجکاری کے عمل کو روکنا چاہیے۔

 
Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Themes