ویلنٹائن ایک مہلک بیماری

Published on February 13, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 319)      No Comments

نرگس نور، لاہور
محبت وقت کی محتاج نہیں ہے نہ خلوص و اعتبار پھولوں کی مرہون منت. پہلے زمانے میں کام زیادہ ہوتے تھے محنت زیادہ ہوتی تھی لوگ ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے اتنے زیادہ روز مرہ کے کاموں کے باوجود رشتے پورے خلوص کے ساتھ نبھائے جاتے تھے ایک دوسرے کے لئے وقت نکالا جاتا تھا گھر آئے مہمان کو وقت دیا جاتا تھا رشتوں کی قدر کی جاتی تھی بچے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھتے تھے ان کی ہر بات توجہ کے ساتھ سنتے تھے رشتہ داروں کو شادی بیاہ کی تقریب پر کافی دن پہلے بلا لیا جاتا تھا اور ہر تہوار کو محبت اور خوشی سے مل کر منایا جاتا تھا. بیماروں کی تیمار داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تھی جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی مشینی دور آتا گیا انسان محنت کش سے کاہل ہوتا چلا گیا رشتے مختصر ہوتے گئے محبت وقت کی محتاج ہوتی گئی ہم لوگ اپنے اسلامی تہوار اتنے جوش و خروش سے نہیں مناتے جتنا انگریزوں اور غیر مسلم لوگوں کو کاپی کر رہے ہیں محبت پھول کی محتاج ہے نہ وقت کی. کیا سال میں ایک دن ہی ہے جو ہم اپنے پیاروں کو پھول دے کر اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہیں نہیں ہم یہ دن بھی اپنے پیاروں کو نہیں دیتے سب جھوٹ ہے دکھاوا ہے کبھی سنا بیٹے نے باپ کو پھول دیا ماں کو بیٹی نے یا بہن نے بھائی کو یا بھائی نے بہن کو پھول دے کر اپنے خلوص کا اظہار کیا ہو بیوی یا شوہر یہ دونوں ہستیاں بھی کم ہی ایک دوسرے کو پھول عطا کرتے ہونگے بلکہ سب گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا رولہ ہے دوستی کے نام کو آڑ بنا کر گل دے کر گل کھلائے جاتے ہیں میری بات کڑوی لگے گی ہم مسلم ہیں ہم ان غیر اخلاقی تہواروں کو سیلیبریٹ کرنے میں کیوں لگ گئے ہیں کتنی فضول خرچی ہم کر جاتے ہیں تو وہ پیسہ ہم کسی غریب مسکین یتیم پر کیوں نہیں خرچ کرتے ہم اپنے رشتوں کو وقت دیں اور وقت نکالتے رہا کریں سنت کے مطابق تحفے تحائف اپنے رشتہ داروں کو دیتے رہیں اس کے لئے ہمیں کسی مخصوص دن یا وقت کی ضرورت نہیں. 14 فروری ویلنٹائن ڈے… اس ناقابل برداشت دن کی ابتدا کیسے ہوئی یہ مہلک بیماری ہمیں کیسے لگی” فارغ گروپ ”کی نئی تحقیق کے مطابق ولنٹائن ڈےپنجابی ثقافت کا ایک جزو تھا جسے انگریزوں نے ہائی جیک کر لیا کہتے ہیں کہ آوارہ پنجابی لڑکے سائکلوں پر لڑکیوں کے کالجوں کے باہر پھرتے اور آوازے کستے.” ویلیاں نوں ٹائم دے” جو بعد میں انگریز نے بگاڑ کر ”ویلنٹائن ڈے ”رکھ لیا
فرہنگ زوجیات کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہوا جب پنجابی شوہر اپنی بیویوں کے نافرمان ہوئے تو انکی بیویوں نے ان کو سدھارنے کے لئے آلہ گول روٹی” ویلن” کا استعمال شروع کیا کثرت استعمال کی وجہ سے ان لمحات کو ویلن ٹائم(کثرت مار) کہا جانے لگا شوہر اپنی بیویوں کے تشدد سے بچنے کے لئے ان کو پھول اور تحائف دینے لگے یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیاں و بیاں میں ارتقاءہوا اور ویلن ٹائم کو” ویلنٹائن ڈے” کہا جانے لگا لیکن میں ذاتی طور پرویلنٹائن ڈے کو انگریزوں کی عطا کی ہوئی مہلک بیماری ہی کہوں گی اس دن بہت غیر اخلاقی حرکات دیکھنے میں آتی ہیں جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی ہماری نسلیں ایسی ناپسندیدہ مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر تباہی کی طرف جا رہی ہیں اس ڈے کا جتنی جلدی خاتمہ کر دیا جائے بہتر ہوگا.. ہمیں اسلامی طریقے سے اپنے رشتوں کو وقت دینا چاہئیے.آگے آپ سب خود سمجھدار ہیں اپنی قوم کو بچا لیجئیے تباہی سے غیر اخلاقی سر گرمیوں سے..آپ نے دیکھا تو ہوگا جب 14فروری کو گھر سے باہر نکلیں تو ہر گلی ہر موڑ پر لڑکے گلاب کے پھول لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور ہماری بہنیں بیٹیاں اپنے گھر والوں سے بہانہ کر کے ان آوارہ لڑکوں سے پھول وصول کرنے کے چکر میں اپنے گھر والوں کی عزت پہ دھول ڈال رہی ہوتی ہیں اپنی محبتوں کو جتانے کا کتنا غلط راستہ چن لیا ہے ہم نے اور یہ دن ہم پکا اپنے اوپر ایک تہوار کی شکل میں مسلط کرتے جا رہے ہیں ہماری آنے والی نسلیں اس دن کو فرض کی طرح سمجھتی جا رہی ہے ہم خود اپنی نسلیں برباد کر رہے ہیں کوئی روٹھے ہوئے رشتہ داروں کو منانے کا ڈے رکھ لو کوئی بزرگوں کے احترام میں ایک ڈے رکھ لو کوئی یتیموں اور مسکینوں کی مدد کے لئے ڈے فکس کر لو اس مارا ماری کے دور میں چلو کچھ وقت اچھے کاموں کے لئے نکلے ہمارے بچوں کو اچھا سبق ملے ان میں اچھے کام کرنے کا جزبہ پیدا ہو… جو ہم کریں گے وہی کل کو ہمارے بچے کریں گے اور بلا چھچک کرتے رہیں گے پھر ہم چاہتے ہوئیے بھی ان کو روک نہیں سکیں گے آپس میں خوشیاں ہی بانٹنی ہیں تو مہزب راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے…افسوس ہے ہم اپنے پا¶ں پر خود کلہاڑی مار کر سمجھ رہے ہیں کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اگر آپ کسی کی بہن یا بیٹی کو پھول دے کر ویلنٹائن ڈے منا رہے ہیں تو لازمی ہے کوئی آپ کی عزت پر بھی پھول اور دھول ڈال رہا ہوگا خدارا اس فضول دن کو منانے سے گریز کیا جائے اس کی بروقت روک تھام کی جائے کچھ اشعار پیش کرتی ہوں
فر مسجد تے مندر جھاڑ
پہلے اپنا اندر. جھاڑ
اپنی نیعت نوں باوضو کر لے
عشق والی نماز تاں ہوسی
اڈ جان اعتبار دے جد پنچھی
پہہ دلاں دے وچ لکیر جاندی
اس حوالے سے ایک غزل پیش خدمت ہے
غزل. ویلنٹائن ڈے دا رولا
سارا جے خرچے دا رولا
اسی مہزب ہو جانا سی
کاش اگر.تے جے دا رولا
پڑھنا ایڈا اوکھا نئی جے
قلم دوات بستے. دا رولا
صبر محبت پیار دا دشمن
مینوں بس دے دے دا رولا
اپنی کوئی پہچان نئی نور
رہ گیا پچھے کھے دا رولا

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题