خواتین کا عالمی دن اوربچاری عافیہ

Published on March 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 313)      No Comments

\"aqeel
انسان کی ابتدا ایک مرد اور عورت سے ہوئی ’’یعنی حضرت آدم ؑ اور اماں ہوا‘‘ یو ں عورت روز اول سے ہے اور اس کو صنف نازک کا نام ملا۔ صنف نازک ہونے کے باوجود عورت کا ظرف سمندر سے بھی زیادہ ہے۔ عورت بڑ ی سے بڑی مشکل کا سامنا صبرو تحمل سے کرتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھاجاتا تھا۔ عورت کا دائرہ کار صرف گھر تک محدودتھا۔ بیوی کا مقام ایک غلام سے زیادہ نہ تھا ۔ عورت کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ الغرض عورت انسانیت کے درجے سے بھی بہت دور تھی۔ پھر اسی تاریک دور میں اسلام روشنی کی کرن بن کر آیا اور عورت کو معاشرے میں ہر لحاظ سے باعز ت مقام دیا۔
سب سے پہلے عورت کو ماں کے روپ میں بلند ترین درجہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی قدر بہت زیادہ دی ہے کیونکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ا س کے بعد بہن اور بیٹی کا مقدس رشتہ بنا کر ایک اعلیٰ مرتبہ دیا۔ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا ۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور لڑکیوں کا گھر میں ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ اسلام میں ایک واقعہ یوں ہے کہ ’’ایک آدمی حضرت محمد ﷺ کے پاس آیا اور رونے لگا تو رسول اکرم ﷺ کے پوچھنے پر اس آدمی نے بتایا یارسول اللہ ﷺ مجھے سے بہت بڑا گنا ہ ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا ایسا بھی کیا ہوا؟ تو اس آدمی نے کہا میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جو معافی کے قابل نہیں ۔ پھر بتایا کہ میرے گھرمیں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے اس کو قتل نہیں کیا اور اب وہ پانچ سال کی ہوگئی ۔ ایک دن باہر کھیل رہی تھی تو لوگوں نے مجھ سے کہا توکیسا بے غیر ت ہے کہ بیٹی کو رکھا ہوا ہے۔ جس سے مجھے بہت غصہ آیا اور میں اپنی بیٹی کو لیکر جنگل میں چلا گیا۔ راستے میں ننھی سے بچی نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ جب میں جنگل میں پہنچ گیا تو میں نے ایک گڑھا کھودا۔ جب میں گڑھے سے مٹی نکا ل رہا تھا تو مٹی میرے کپڑوں پر گرگئی تو وہ میرے کپڑے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی اور میرا پسینہ بھی صاف کرتی رہی مگر مجھے اس پر رحم نہیں آیااور میں نے بچی کو گڑھے میں ڈال دیااور مٹی ڈالنا شروع کردی۔ بچی چلاتی رہی ،روتی رہی مگر پھر بھی میرے دل میں رحم نہیں آیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے بدنصیب شخص تو یہاں سے چلا جا کیونکہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
اس جدید دور میں بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ لڑکیوں کو باعث شرم سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کا ہونا احساس کمتری اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ ہے ہمارے اسلام کی تعلیم جو ہمیں اور ہماری سوچ کو بھی نہیں بدل سکتی؟ بہت سے لوگ بیٹیوں کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔
عورت کی مثال موم بتی کی سی ہے جو خود تو جلتی ہے مگر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ بیوی کے روپ میں چراغ خانہ ہے جو کہ پورے گھر کو روشن رکھتی ہے ۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارے ضمیر اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہماری تہذیب عورت کو صرف نام کے حقوق دیے جارہے ہیں۔’’عورت کے حقوق ‘‘ایک عام سے جملہ ہے ۔اگر کسی بھی شخص یا حکمران کو عورت کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے تووہ اسی جملے پر گھنٹوں تقریر کردیتے ہیں مگر عملی طور پر اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
آج عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق عورت کے دماغ کا وزن 44اونس ہے جبکہ مرد کا 46اونس ہے۔ جس کی وجہ سے مرد قدرتی طور پر ذہین زیادہ ہیں اس کے باوجود عورت ہرشعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ استاد بن کر قوم کی رہنمائی کرتی ہے اورکبھی سائنسی تجربے میں رہنمائی کرتی ہے ۔ یوں تعلیمی میدان میں بھی آگے ہے مگر اس جدید دور میں بھی کچھ گاؤں اور دیہات کے لوگوں میں عورت کی پڑھائی کو معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے دین میں تعلیم کے بارے میں یہ ہے ’’ علم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر فرض ہے‘‘ جب اسلام نے عورت کو حق تعلیم دیا ہے تو ہمارا معاشرہ کیوں اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
آج جب پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کے لیے آوازیں اٹھائی جارہی ہیں۔ کہیں پر ریلیا ں نکالی جارہی ہیں تو کہیں پر سیمینار منعقد ہورہے ہیں مگر ہم لوگ اپنی ایک بہن ، بیٹی کوامریکہ کی قید میں ڈال کر کیوں بھولے گئے ہیں۔ کیا آج کے دن پاکستان کے حکمران اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ بھی اٹھا ئے گی؟کیا آج کے تمام سیمیناراور ریلیاں منعقد کرانے والے عہد کریں کے ہم اپنی بہن کو امریکی چنگل سے آزاد کرائیں گے۔
پاکستان کی بیٹی جو اپنوں کی مہربانی سے پچھلے گیارہ سالوں سے امریکہ کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور ایک ایسے جرم کی سزا پارہی ہے جو اس سے سرزد بھی نہیں ہوا ۔ہماری غیر ت تو دیکھو کہ ہم گیارہ سال سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں بس ایک دو بار میڈیا پر اس کے حق میں آواز اٹھا کر پھر سوجاتے ہیں۔جس نے رہائی دلانی ہوتی ہے وہ طوفان کی طرح آتے ہیں اور سب کچھ ساتھ اڑاکر لے جاتے ہیں۔ امریکہ کا ریمنڈڈیوس جوایک قاتل تھا اس کو امریکہ نے کیسے آزاد کرایا؟ ریمنڈڈیوس کا پاکستان کی عدالتوں میں چلنے والا مقدمہ منٹوں میں حل ہوا اور امریکہ طوفان کی طرح ریمنڈ ڈیوس کو اڑا کر اپنے ملک میں لے گیا۔
آج جب پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کی باتیں ہورہی ہیں تو پھر امت مسلمہ بالخصوص مسلم ممالک اور ان سب سے بڑھ کر ہمارے حکمران ، اپوزیشن ارکان، این جی اوزاور دنیا کے چوتھے ستون صحافی برادری سے التماس ہے کہ آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی تک خامو ش نہ بیٹھیں۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی بیٹی ہے اور اسکی آزادی اسکا حق ہے جو ہم سب کو ملکر دلانا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری بہن کو جلد از جلد رہائی دلائے۔ آمین

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy