کرونا وائرس کی وبا یا بداعمالیوں کی سزا

Published on April 6, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 184)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ
ہارون رشید کے دور میں ایک بہت بڑا قحط رو پذیر ہوا ۔ اس قحط کے اثرات ثمر قند سے لے کر بغداد اور کوفہ سے مراکش تک جاپہنچے ہارون رشید نے اس آفت سے نمٹنے کے لئے کئی ایک مربوط اقدامات کئے ۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا اس قحط کے خاتمے کے لئے انہوں نے اپنی سلطنت کے ماہرین و دانشوروں سے آراطلب کیں۔ غلے کے گودام کھول دیئے سارے ٹیکس معاف کرد یئے تمام امراءاور تاجر وں سے کہا گیا کہ وہ عوام کے اس مسئلے کو حل کرنے میں انکی مدد و تعاون فرمائیں ۔ پوری سلطنت میں لنگر خانے کھول دیئے گئے ۔ہر وہ قدم اٹھایا گیا جس سے اس مسئلے سے نمٹا جا سکے مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہونے پائی آخر کارانہوں نے اپنے وزیریحیٰی بن خالد کو دربار عالیہ میں طلب کیا اور اس سے کہا کہ وہ اس مسئلے کا حل بتائے ۔ یہ وہ وزیر تھا جس نے ہارون رشید کی بچپن سے لے کر بادشاہ بننے تک تربیت کی ۔ ہارون رشید نے اپنے وزیر سے کہا کہ وہ ایسا حل بتائے جس سے اس کے دل کو قرار آجائے ۔بادشاہ کی صحت روز برروز خراب ہوتی جا رہی تھی ۔نیند اڑ گئی تھی اور طرح طرح کی پریشانیاںانکی جان کھانے لگی تھیں ۔ آخر کار یحییٰ بن خالد نے انہیں ایک ایسی داستان سنانا شروع کی جسے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں لکھی پڑھی تھی کسی جنگل میں ایک بند ریا رہتی تھی جس کا ایک بچہ تھا وہ کسی کام کے سلسلہ میں کسی دوسری سلطنت میں جانا چاہتی تھی ۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو جنگل کے بادشاہ کے سپرد کر دے ۔ لہذٰا وہ جنگل کے بادشاہ شیر کے پاس گئی اور اس نے شیر سے استدعاکی کہ وہ اس کے بچے کو اپنے پاس رکھ لے۔شیر نے بند ریاکی بات مان لی اور بچے کو اپنی گود میں لے لیا ۔ اس نے بندریا کے بچے اپنے کاندھے پر بیٹھا لیا اور اپنے معمولات کے امور میں مصروف ہوگیا ۔ چیل نے موقع پاکر بچے کو اپنے پنجوں میں لیا اور آسمان کے اندر چھپ گئی ۔ شیر نے بڑے ہاتھ پاﺅں مارے چینخو پکا ر کی مگر چیل تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ اسی اثنا میں بندریا واپس آپہنچی اور شیر سے بچے کی واپسی کا مطالبہ کیا شیر بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سا ری حقیقت بتاد ی ۔ بندریا چیخی اور چلائی اور شیر کوکوستی رہی ۔ کہ تو کیسا جنگل کا بادشاہ ہے جو بچے کی حفاظت نہیں کر سکا ۔ تم جنگل کی کیا حفاظت کر پاﺅ گے۔شیر نے کہا کہ اگر زمینی آفت ہوتی تو میں اپنی پوری طاقت استعمال کرتا ۔ یہ آسمانی آفت تھی جس کا مقابلہ میری ہمت سے باہر تھا ۔ میں زمین کا بادشاہ ہوں اس لئے آسمانی قوت سے لڑنا میرے بس میں نہیں ہے۔ یہ کہانی سننے کے بعد وزیر نے کہا کہ آپ بادشاہ نہ بنےں آ پ فقیر بنیں تو یہ آفت ٹل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں آفتیںدو قسم کی ہیں۔ایک زمینی اور دوسری آسمانی ۔ زمینی آفت کو متحد ہوکر روک سکتے ہیں۔ جبکہ آسمانی آفت سے نبردآزما ہونے کی ہم میں کوئی ہمت نہیں ہے۔ ہم اپنے رب سے معافی مانگیں گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی قرآنی سبیل پیدا کرےں ۔ وہ رب جلیل ہے وہ ہی ہماری ساری خطائیں معاف کرسکتا ہے۔زمینی آفت کے لئے بادشاہ کا اچھے اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے اور وسائل کا ہونا بھی ۔وزیر نے کہا اے بادشاہ سلامت ہمیں چاہیے کہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑائیں انشااللہ ہماری یہ آفت ہماری جان چھوڑ دے گی۔ ہم ایسے انسان ہیں جو جاءنماز اور ماتھے کے درمیان چند انچ فاصلے کو پاٹ نہیں سکتے ۔ جبکہ ہم سمندر عبور کر سکتے ہیں ۔ چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر سکتے ہیں کفار کی بھاری نفری کوتباہ وبرباد کرسکتے ہیں لیکن اللہ کی طرف سے جنم لینے والی آفت کا مقابلہ کرنا ہمارے قطعی بس میں نہیں ہے۔ اب ہمیں بھی ایک خطرناک وبا نے آن لیا ہے۔ پوری دنیا اسکی لپٹ میں آچکی ہے۔ تمام ادارے بند ہیں عبادت گاہیں بھی بند ہیں حتیٰ کہ( خانہ کعبہ) اللہ کے گھر میں جانے پر بھی کڑی پابندی ہے۔ کر و نا وائرس کی صورت میں ایک ایسا عذاب آن پڑا ہے۔ جس سے پوری دنیا کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ جو مسلما نوں کونیست ونابود کرنے کی بڑھکیں مار رہا تھا بڑی بری طرح عذاب الٰہی کے شکنجے میں آچکاہے اسکی جدید ٹیکنالوجی بھی اس کے اپنے کام نہیں آرہی جبکہ چین جس کو وہ اپنی نسبت حقیر جان رہا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی ہے کہ وہ اس وائرس سے نجات پا لےگا ۔ا س کی اصل وجہ یہ ہے وہ اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ مسلمان کے پاس آسمانی قوت ہے وہ یہ بھی مان گیا ہے ۔ کہ کوئی ایسی روحانی قوت ہے۔ جس سے مسلما ن بچے ہوئے ہیں۔دنیا کی معاشی اقتصادی منڈیاں ویران ہو چکی ہیں جہازوں کا سفر رک گیا ہے گھر میں انسان بند ہو گئے ہیں ہر قسم کی سر گرمیاں ختم ہو چکی ہیں ۔ لوگ بھوک سے مرنے لگے ہیں۔ قحط زدگی کی سی صورت حال بن چکی ہے۔ اس وائرس کے خاتمے کے لئے ہر قسم کے وسائل استعمال ہونے لگے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم اللہ کی ناراضگی کو دور کرنے کے لئے دن رات اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو گا۔ یہ آفت ہمیں زندہ درگور کردے گی۔ اللہ کو ناراض کرنے کے لئے دنیا کے انسانوں نے جو جو بے غیرتیاں کیں ہیں، فحاشی کے گندے کھیل کھیلے ہیں، ننگی فحاشی کو عام کرنے کے لئے پورے یورپ اور مغرب نے ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی ہے۔ بہن، ماں، اور دیگر رشتوں کا تقدس پامال کیا ۔ ایسی ایسی ویڈیوز تیار کیں جس سے معاشرے کو گندگی سے بھر دیا گیا۔جنسی کھیل عام کر دیا گیا یورپ اور مغرب نے اسے جنسی تسکین قرار دے کر اس گندے کھیل کو موبائیلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی نئی نسل کو گندے کھیل میں مصروف کر دیا ہے۔ ہر نوجوان کے ہاتھ میں گندگی کا کھلونا ہے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题