ہومیو پیتھک علاج پر بے جا تنقید کیوں

Published on April 12, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 483)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو جرمن کے ایلوپیتھی ڈاکٹر ہایئنمن نے دریافت کیا اس طریقہ علاج پر بہت سے ایلوپیتھک ڈاکٹر وں نے بلا وجہ بے جا تنقید کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے حالانکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایم اے بھٹی اپنی پریکٹس میں ہومیوپیتھک ادویات کو استعمال میں لاتا ہے۔ اور اس نے اس کے فروخ کے لئے کئی ایک عملی اقدامات کر رکھے ہیں انکے کئی ایک سمیناروں میں شرکت کر چکا ہوں ۔ انکے ان عملی اقدامات سے نہ صرف ہومیوڈاکٹر وں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ہومیوفارماسٹس کوبھی ہومیوطریقہ علاج پر سیر حاصل آگاہی ہوتی ہے۔آج میں ہومیوپیتھک ادویات کی فہرست میں شائع ہونے والی میڈیسن پر کچھ لکھنے والاہوں ۔ کر یازوئم ایک ایسی میڈیسن ہے جو کئی ایک اہم امراض میں کام آتی ہے کریازوئم میں مزاج میں تیزی اور جلد غصہ آجاناکیمومیلہ سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن کیمومیلہ کا مزاج ہی غصہ والا ہوتا ہے۔ جبکہ کریازوٹ میںیہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔ بیماری کی شدت سے مریض چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے طبیعت میں کیمومیلا کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیمومیلا کا مریض تندروست ہو یا بیمار ہو ہر حال میں غصے والا ہی رہے گا۔ اور اس کے مزاج میں بد خلقی اس کی سرشت بن جاتی ہے۔
کریازوئم میں خون کے اضراج کی وجہ سے ماﺅف حصہ پھیل جاتا ہے۔اور جلن ہوتی ہے۔ اگر اس کے ااخراجات سیاہی مائل ہوں تو ان میں بدبوھی پائی جاتی ہے۔ کریازوئم رات کو بچوں کے پیشاب نکل جانے کی بہترین دوا ہے۔ جو میں نے متعدد مریض بچوں پر آزمائی ہے۔ بعض اوقات پیشاب کی حاجت اس قدر شدید ہوتی ہے۔ واش روم جانے سے پہلے پیشاب جارج ہوجاتا ہے ۔ گرم غذا سے مریض بہتر محسوس کرتاہے۔ جبکہ ٹھنڈی غذاسے بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ معدے میں کھچاﺅ اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ کینسر کے رجحان والے مریض میں بھی کریازوٹ مفید ہے۔ خصوصاً معدے کے کینسر کے آغاز میں کو نیم کے ساتھ ملا کر دی جائے ۔ توفائدہ پہنچاتی ہے۔ بیماری کی پوری علامتیں نظر آئیں تو فوراًشروع کر دینی چاہیے ورنہ اگر یہ علامات مکمل نظر آئیں تو اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کینسر قابل علاج مریض ضرور ہے۔ مگر شروع میں پتا جائے تو علاج ممکن ہے وگر نہ بہت بہت مشکل گو ادویات کے درست استعمال سے عرصہ حیات بڑھ سکتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جو مریض کو مکمل صحت عطا کر سکتا ہے۔ زندگی کے کچھ سال بڑھ سکتے ہیں باقی ساری زنگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو طویل عمر عطا کر سکتاہے۔ بیماری اور شفا کا یہی فلسفہ ہے لہذا سہی علاج سے مقررہ مدت تک عمر لمبی کی جا سکتی ہے ۔ بیماری عمر کو کم کر دیتی ہے۔ اور صحت کو عمر تک لے جانے میں مدد دیتی ہے۔ کریا زوٹ گرمیوں کے اسہال میں بھی کام آتی ہے کیوں کہ سخت گرم موسم میں جو اسہال شروع ہو جائیں ان میں بسااوقات کریا زوٹ کی علامتیں پائیں جاتی ہیں اسی طرح ذیا بیطس (شوگر) کے مریض کو بھی مکمل شفا بخشنے کی طاقت رکھتی ہے۔ میں نے اس میڈیسن کو بھی آزمایا ہے۔ اکیر ثابت ہوئی ہے۔ کریازوٹ میں زبان پر سفیدی مائل تہ جم جاتی ہے۔ ہونٹ سرخ جن میں خعن بہنے کا رجحان ہوتا ہے۔ منہ کا زائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ کھلی ہوا سردی کے موسم ، ٹھنڈے پانی سے اور نہانے اور لیٹنے سے تکالیفیں بڑھ جاتی ہیںجبکہ گرمی سے عموماً تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس طریقہ طریقہ علاج کی از خود سر پرستی کرے اس کے فروخ کے لئے جدید ٹیکنالوجی امپورٹ کرے یہ طریقہ علاج پوری دنیا میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔اس پر تحقیقی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ بلکہ بھارت میں ہومیوں کے ساتھ ساتھ تو الیکٹروہومیوپیتھی بھی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ ایک نیشنل یونیورسٹی کے تحت 450سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس طریقہ علاج کا موجد ائلی کا ایک شہری تھا جو ہومیوپیتھی کا گریجوایٹ تھا ۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ماہرین کے حسد سے ہر ادارے کو برباد کو رکھا ہے۔ بی اس سی انجیئر ڈپلومہ ہولڈر ز کو ترقی کرنے نہیں دیتے جبکہ ایم بی بی ایس ہومیواور طب کو ترقی نہیں کرنے دیتے ۔ یہ ایک المیہ ہے جو ہمیں ترقی کرنے سے روک رہا ہے۔ حالانکہ بعض ڈپلومہ ہولڈرز ان ڈگری ہولڈرز سے زیادہ زہیں ہیں۔ ڈی اے ای کو بی ٹیک کی سہولت حاصل ہے۔ مگر افسوس کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بی ایس ای انجیئنر تسلیم نہیں کر رہے یہی طب یونانی اور ہومیوپیتھی کا حال ہے ۔ حکومت چاہیے کہ وہ ا س معاملے کا سخت نوٹس لے اور طب یونانی ہومیوپیتھی کی ترقی کے لئے وبوط اقدامات اٹھانے کی منتظم کوشش کرے یہ ملک ہمارا ملک ہے اس میں حسد اور بغض کو دخل حاصل نہیں ہونا چاہیے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme