نئے ڈی سی قصور وچیلنجز

Published on April 14, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 436)      1 Comment

تحریر:مہرسلطان محمود
تبدیلی سرکار کے دو سال ضلع قصور کی حالت زار میں بہتری کی امید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی چونکہ ماضی کے دریچوں پر پڑی کرپشن اقرباء پروری،سیاسی مداخلت اور کرپشن کی ان گنت داستانوں کی گہری دھند وکینسر کی طرح پھیلی جڑوں نے تاحال مایوسی ہی پھیلائی ہے۔تیس لاکھ سے زائد آبادی والا ضلع انتظامی وسیاسی قیادت کی لاپرواہی کاروناروتے اب نئی حکومت وکپتان سول ایڈمنسٹریشن کی طرف سوالیہ نگاہوں سے کچھ رحم وکرم کامتلاشی ہے بزدار سرکار کے بہترین افیسر کی تعیناتی سے کچھ بجھتی ہوئی امیدوں نے تازہ کونپلیں نکالنے کاعزم صمیم کیاہے اب امتحان محترم منظرجاوید صاحب کاہوگا کہ وہ کیسے ہر لحاظ سے محرومی وتباہ حالی کے شکار منظر میں ازسرنو روح پھونکتے ہیں۔اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اس باغ میں دوبارہ لالہ وگلزار کومہکاکر تاریخ کے اوراق میں امر ہوتے ہیں یاپھر ماضی کے اکادکاہیروں کے علاوہ وہی پراناکھٹارہ سسٹم چلاکر تبدیلی کے منتظرعوام کی امیدوں پر سیاہی ڈالتے ہیں۔تعلیم وصحت پر فوکس انتہائی ضروری ہے تیس لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 01 ڈسٹرکٹ ہسپتال،01 کارڈیک سنٹر،01 ٹراماسنٹر،04 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال،اگیارہ رورل ہیلتھ سنٹر اور 81 بنیادی مراکز صحت ہیں ٹوٹل 450 سرکاری ڈاکٹرز ہیں تیس لاکھ آبادی کے حساب سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد کو صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے ضلع بھر میں کل 14 وینٹی لیٹرز ہیں جن میں چار سرکاری اور10 پرائیوٹ سیکٹر میں ہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال ضلع بھر کی عوام کیلئے ناکافی ہے۔تعلیمی سیکٹر میں بھی ماسوائے ایک ویٹرنری یونیورسٹی کے کیمپس کے سرکاری ادارے نونہالان وطن کو نئی منزلوں سے روشناس کروانے سے مکمل طور پر قاصر ہیں سکول وکالجز دونوں ہی کچھ ڈلیور کرنے میں اپاہج ہیں۔الفاظ واعدادوشمار کاگورکھ دھندہ اورسکہ رائج الوقت سے عوامی مفاد میں بولنے والے ضمیروں کومیٹھی نیند سلادیاجاتاہے نہ سونے والوں کو نشانہ عبرت بنانے کیلئے ہر تھرڈ کلاس حربہ نام ونہاد مہذب کہلوانے والے استعمال کرتے ہیں۔سسٹم کودرست کرنے کیلئے ضلعی اداروں میں بیٹھے متعدد ناسور نماء قابض افراد کوجوسیاسی،سکہ رائج الوقت ودیگر دلفریب اسباب کواستعمال کرتے ہیں میں اکھاڑ پچھاڑکئے بناء بہتری کے آثار محض دیوانے کاخواب ہی ہے مثال پیش خدمت ہے قصور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تباہی کے ذمہ دار آج بھی جونک کی طرح چمٹ کرخون کاآخری قطرہ بھی چوسناچاہتے ہیں ایک بیس ہزار ماہانہ سیلری پر بھرتی ہونے والا آڈٹ افیسر اب کم وبیش ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ کیسے لے رہاہے لاہور کی مہنگی ترین ہاوسنگ سوسائٹیوں میں کرائے پر رہائش کیسے افورڈکرتاہے جبکہ کوئی دوسرازریعہ معاش نہ ہے ڈیفنس کے مہنگے سکول میں بچوں کی پڑھائی ولگژری طرز زندگی موجودہ پرفتن دور میں ممکن نظرنہی آتی ہے عیش وعشرت کے اسباب مہنگے شاپنگ مال سے خریداریاں یہ سب سوالیہ نشان ہیں معمولی دفتری کلرک بلنگ انچارج کی سیٹ کاچارج ملنے پر اب لاکھوں روپے میں غل غپاڑے اڑاکر اس ادارے کی تباہی کاجشن منارہاہے انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی سرکاری خبررساں اداروں کی کارکردگی بھی یہاں صفر نظرآتی ہے حقیقت کو سامنے رکھ کر۔275 کل ٹینریز ہیں جن میں سے پچیس کے قریب بند ہوچکی ہیں بند شدہ ٹینریز کانام کسی نئی ٹینریز والے کوکیسے فروخت کیاجاتاہے اس کے کتنے دام وصول کیے جاتے ہیں!کیا اس کام کیلئے کوئی درخواست بھی وصول ہوتی؟کیا ڈی سی یا پی ایم کوبھی اندھیرے میں رکھاجاتاہے۔پانی کے بلز کی تاریخوں میں از خوداضافہ وجرمانے کیسے معاف کئے جاتے ہیں۔مشینری کی مرمت میں سرکاری خزانے کو چوناکبھی سرکار کو پوچھ کربھی لگایاجاتاہے یا مادرپدرآزاد ی ہے ”مال مفت دل بے رحم“ پچھلے تمام ڈی سی صاحبان کی طرف راوی نہ بھی اٹھائے تب بھی انگلیاں اٹھتی ہیں چمڑے کی صنعت سے وابستہ افراد کو توچونالگناتھا عوام کی صحت کیساتھ بھی بھیانک کھلواڑ کیاجاچکاہے۔ گڈگورننس کاجو حشرنشر سابقہ خودساختہ ایماندارو حسن پرست ڈی سی کرگئے ہیں اس کی بحالی بھی چیلنجز کااہم حصہ ہوگی موصوف نے ضلع کاہرلحاظ سے بیڑہ غرق کرنے میں شاید ہی کوئی غلطی کی ہو۔سیاسی قیادت بھی بے بس تھی کچھ نادیدہ قوتوں کے سامنے کم ازکم میں نے مسلم لیگ ن کے د ور حکومت میں بھی ایسی بے بسی نہیں دیکھی ہے سرکاری زمینوں کی خریدوفروخت میں وہ داستانیں رقم ہیں لکھنے والا بھی اس سمندر میں غوطہ لگانے کے چکر میں خود ڈوب جائے گا زرا برابر بھی کسی نے شرم وحیا نہیں کی ہے۔کالم کی آخری لائنیں تحریر کرکے منظر جاوید صاحب کامنتظررہوں گاکہ کب وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اس تباہ حال گلشن میں ازسرنوہریالی وتازگی کی روح پھونک کر دیکھنے والی آنکھوں کوخیرہ کرتے ہیں عرصہ داراز سے اہم سیٹوں کوچمٹی ہوئی انسان نماء جونکوں کوکیسے عوامی مفادات کاخون چوسنے سے روکنے کاپلان تشکیل دیتے ہیں کالونی برانچ میں ہونی والی لوٹ مارکے ذمہ داروں کوکیسے احتساب کے کٹہرے میں لاتے ہیں ماتحت ملازم افسران بالا کی ملی بھگت کے بغیر سرکاری چٹھیاں زندہ درگورنہیں کرسکتے ہیں۔تجاوزات کے بے قابو جن کو کیسے عمرو عیار کی زنبیل میں بند کرتے ہیں محکمہ ہیلتھ میں بہتری کیلئے ایک جامع پلان کی اشد ضرورت ہے کیاسیاسی قیادت اور ضلعی انتظامیہ سنجیدگی کیساتھ کوئی لائحہ عمل تشکیل دیکر تاریخ کے اوراق میں امر ہوگی یاپھر ضلع کی عوام کو لولی پوپ ہی ملے گاموجودہ صورتحال میں کیاحفاظتی سامان معقول حد تک مہیاء کیاگیاہے یا پھر ڈنگ ٹپاو پالیسی چلائی جارہی ہے کروناوائرس کے بعد ڈینگی مچھر بھی پھن پھیلائے تیار بیٹھاہے کروناوائرس پر تحصیل کونسل کوٹ رادھاکشن کی کارکردگی شاندار ہے کیاتعلیمی یونیورسٹی اور ٹیچنگ ہسپتال کے قیام کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا کیاڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے معاملات بہتر ہوسکیں گے یاہر طرف مافیاء کی سرکار چھائی رہے گی۔سرکاری ملازمین کی پرموشن کیا میرٹ پر ہوسکے گی جن کی حق تلفی ہوچکی ہے ڈی سی آفس کے؟سرکاری ملازمین کے زرائع آمدن واثاثہ جات کی چھان بین ہوسکے گی۔”جاری ہے“۔

Readers Comments (1)
  1. Gulzar says:
    پاکیزہ شعبوں کو پلید یہی کالی بھیڑیں بناتی ہیں, میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کا ظلم کے خلاف جہاد ہے
    بہت خوب




Free WordPress Theme

Weboy