فلسطین اور کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہو گی ؟

Published on September 8, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 250)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں پر فوج کے جبر و استبداد روز افزوں بڑھتے جارہے ہیں ۔آئے روز کے روح فر سا مناظر اور دہشت گردی کے واقعات اس بات کے مقتاضی ہیںکہ بھارتی اور اسرائیلی فوج اور پولیس کو مسلمانوں کے قتلِ عام کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے پر امن و سلامتی کے بین الاقوامی ادارے بھی ان دہشت گرد فوج کے مظالم روکنے میں کسی سیاسی مصلحت کا شکار ہو چکے ہیں ۔ انسانی حقو ق کے تحفظ کے علمبردار امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کی خاموشی بھی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتلِ عام کے متمنی ہیں حالانکہ یہی ممالک کویت پرعراقی فوج کا ظلم ہوتا دیکھ نہ سکے تھے ۔عراقی فوج کے اس فعل پر اسے فوری کڑی سزا دی گئی بلکہ ایک طویل عرصہ تک کویت پر ہونے والے مظالم اورنقصانات کے بدلے عراق سے لئے جاتے رہے ۔کشمیری اور فلسینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے والوں کے کردار و افعال کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور امن و سلامتی کے یہ نام نہا د محافظ اور علمبردار دو ہرا معیار اپنا کر صرف اور صرف اپنی بالا دستی قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ان کے مفاد اور کاز کی بات ہو تو ایک انسان کا خون پوری دنیا سے مہنگا نطر آتا ہے۔ لیکن جہاں ان کے مفاد کی بات نہ ہو وہاں سینکڑوں انسانوں کے قتلِ عام پر ان کے کانوں میں جُوں تک نہیں رینگتی ۔ کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے فوجی اور پولیس مظالم اور جبر و ستم کے خلاف ساری دنیا چیخ رہی ہے اور امن و سلامتی کے عالمی اداروں سے یہ پُر زور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کشمیری اور فلسینی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں اور انکی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے منظم اور فعال کوششیں کی جائیں ۔
حق تو امریکہ کا بنتا ہے کہ وہ اِن سنگین معاملات کے حل کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکہ ہی اس معاملے کو طول دیتا چلا آرہا ہے حالانکہ کل ہی کی بات ہے کہ بو سینیا کے معاملے پر امریکہ اور یورپ نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے مظالم فوج کے افسران کو عالمی عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی ۔عالمی میڈیا نے بھی اس سنگین مسئلہ پر اپنا فرض اد ا کیا تھا پریس میڈیا صفحہ اول پر آٹھ کالمی شہ سرخیوں اور دل ہلا دینے والی تصا ویر شائع کر رہا تھا اور لکھ رہا تھاکہ کیمپوں میں بھوک سے نڈھال مسلمانوں کو شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں سے ہلاک کرکے انہیں بھوکے کتوں کے آگے پھینک دیا جارہا تھا اور کئی نوجوانوں کو ایشین نسل کے کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا رہا جو ان بے کس اور بے بس نوجوانوں کی بوٹیاں نوچ لیتے ۔ کشمیری اور فلسینی مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے ہی دکھ پہنچایا جارہا ہے ۔سوشل میڈیا پر مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کے واقعات پوری دنیا دیکھ رہی ہے مگر افسوس کہ عالمی ادارے ستُو پی کر سوئے ہوئے ہیںسوشل میڈیا پر دکھائی جانیوالی جبر و استبداد سے بھرپور ویڈیوز دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے افسوس کہ ہم بھی کچھ نہیں کر سکتے صرف اپنے آپ کو کوس کر رہ جاتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس ہمراہ یورپی طاقت کے ان ایشوز پر کلیدی کردار اد اکر سکتے ہیں جیسے بو سینیا پر لیا گیا تھا مگر افسوس کہ ان ممالک نے بھی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں اسرائیلی اور بھارتی حکمران جی بھر کر مسلمانوں کو ذلت و رسوائی سے نواز رہے ہیں پاکستان نے اسی لئے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ عرب ممالک ایک ایک کر کے ہتھیار پھینکتے جارہے ہیں ایک وہ دور تھا جب عرب ممالک کا مضبوط اتحاد تھا اور سویت یونین کے بلاک میں شامل تھا مگر سویت یونین کے حکمرانوں کی سرد مہری اور منافقت سے یہ اتحاد پارہ پارہ ہوگیا بالآخر امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا عربوں کی مکاری و عیاری نے نہ صرف مسلمانوں کے کاز کو نقصان پہنچایا بلکہ عربوں کو بھی ۔ یہ وہ امریکہ ہے جس نے آج تک 5کروڑ انسانوں کا خون کیا ہے ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں ۔ ویت نام ، جاپان ، جرمن ، لیبیا ، عراق اور اب شام میں خون ریزی کر وا رہا ہے دنیا میں سب سے بڑا قاتل امریکہ ہے حالانکہ چاہتا تو آج فلسینی اور کشمیری آزادی کی نعمت سے مستفید ہو چکے ہوتے ۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر سکتے ہیں اور وہی سب کچھ کرسکتا ہے ظالموں کو کڑی سزا اور مظلوموں کو انصاف دے سکتا ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog