رواداری اسلامی فریضہ

Published on March 21, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 485)      No Comments

\"DSC09488\"
تحریر:ڈاکٹر خالد فواد (استاد جامعۃ الازہر)۔
دین اسلام نے مکمل زندگی گذارنے کے اصول و ضوابط وضاحت و صریح دلائل کے ساتھ بیان کر دیے ہیں۔اسی طرح اسلام نے انسانیت کودوسرے انسانوں کے ساتھ بالعموم اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ رواداری کا معاملہ کرنے کی ترغیب دی ہے اسی کو ہم یہ کہتے ہیں کہ رواداری اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ۔ہر مسلمان کو اس کے اپنانے میں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے ،خاص طور سے جو لوگ دعوت و ارشاد کے میدان میں کام کررہے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ رواداردی کو بہر صورت اپنی دعوت پیش کرتے وقت بطور ہتھیار استعمال کریں۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ذکر فرمایاہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا کہ ’’ہم دیکھتے ہیں آپ چھوٹوں میں سے ہیں تو جواب میں حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایاکہ ’’اے میری قوم میں جھوٹوں میں سے نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں‘‘اس آیت میں یہ نکتہ دیاگیا ہے کہ جہلاء کے سب وشتم کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔حضرت ھود علیہ السلام اپنی قوم کی سب و شتم پر متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ وہ جو اللہ کی جانب سے بھیجا گیا ہے اس میں اور اس کی قوم میں مہیب فرق مسلم ہے اللہ کے مختار شدہ بندے میں حلم و عفوودرگذر کا عنصر موجود ہوتاہے اس لیے وہ سب و شتم یا برے کلام کا جواب برے انداز میں نہیں دیتا۔یہ لازم ہے کہ اللہ کا نبی نرمی اور حلم کے ساتھ اللہ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچائے چناچہ حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایا’’میں آپ تک اللہ کا پیغام پہنچاتاہوں اور میں تمہیں امانت داری کے ساتھ نصیحت کرتاہوں‘‘۔بہترین داعی کی صفت یہ ہے کہ وہ ادب و آداب کے ساتھ دعوت منتقل کرتاہے جھکڑے ومخاصمت سے اجتناب اختیار کرتاہے۔
حقیقت میں دعوت دینے والے اور جس کو دعوت دی جارہی ہے ان کے مابین تعلق و علاقہ قائم کرناضروری ہے اس لیے وہ عقل ودانش سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیکر دعوت کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کوتمام تر دعوتی اسلوب کی دعوت وتعلیم دی ہے۔ایک موقع پر ایک اعرابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے معاونت طلب کی تو آپ ﷺنے اس کو کچھ مال عطاکیا، اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا کافی و بہترہے تمھارے لیے ؟تو جواب میں اس نے کہا کہ نہیں یہ بہتر نہیں میرے لیے !!اس پر صحابہ نے غضب کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اس گستاخی پر سبق دینے کی ٹھانی تو آپﷺنے منع فرمایا اور اس اعرابی کو اپنے گھر لے کر گئے اور کچھ اور مال عطا کیا تو اس پر سوال کیا کہ اب بہتر ہے ؟اس پر اعرابی نے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں اللہ آپ کو اور آپ کے اہل کو بہت جزا ئے خیر عطافرمائے!!!اس پر آپ ﷺ نے اس اعرابی سے فرمایا کہ جو تم نے پہلے کلام کیا اس پر صحابہ کے دلوں میں کدورت بیٹھ گئی ہے تم سے متعلق لازم ہے کہ جو کلام ابھی تم نے کیا یہی ان کے سامنے کر دو تاکہ ان کے دلوں میں سے تیرے متعلق جو کچھ ہے دور ہوجائے؟تو اس پر اعرابی نے جواب دیا جی ہاں!!دوسرے دن وہ اعرابی حضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا ۔اس پر آپ ﷺ نے صحابہ کو تعارف کرایا کہ یہ شخص گذشتہ روز آیا تھا اور مدد طلب کی ہم نے اس کو عطاکیا اور اس نے دعادی !!اس پر آپﷺ نے اعرابی سے استفسار کیا کہ ایسے ہے؟؟اس نے جواب میں جواب دیاجی ہاں اللہ آپ کو اور آپ کے اہل کو بہت جزا ئے خیر عطافرمائے۔اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ میرے اور اس اعرابی کی مثال اس آدمی کی ہے جس کی اوٹنی بھاگ جائے اور لوگ اس کوپکڑنے کے لیے اس (اوٹنی)کا پیچھاکریں اور وہ اوٹنی ڈر و خوف کے سبب مزید تیز بھاگے ،اور ایسے میں وہ اوٹنی کامالک لوگوں کو بلاکر کہتا ہے کہ آپ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو(آپ کے مدد کرنے کا شکریہ)، میں اس کا دوست و مالک ہوں ،میں اس کو تم سے بہتر جانتا ہوں،تو وہ اوٹنی کی جانب متوجہ ہوتاہے اس کو ہاتھوں سے اشارہ کرتاہے تو وہ قریب آجاتی ہے اور وہ اس کو پکڑ کرپیار کر کے بیٹھالیتاہے اور پھر اس پر سوار ہوجاتاہے۔اگر میں آپ کو چھوڑ دیتا اس پر جو اس نے کہا میرے سامنے تم اس کو سزا دیتے تو وہ جہنم میں داخل ہوجاتا۔حضورﷺ بہت رحمت والے نبی ہیں کہ جنہوں نے اس سے اعرابی سے حسن سلوک کا معاملہ کیا اگر صحابہ اس پر جبر کرتے اور وہ ضد و عناد میں ڈٹ جاتااپنی بات پر تو لازما وہ جہنم میں داخل کیاجاتا،آپ ﷺ نے اس اعرابی کو اپنی غلطی کے ازالہ کا موقع فراہم کیا یہ سب آپ ﷺکی رحمت وشفقت کا اثر ہے۔اللہ کے نبی کی رحمت کے سبب اعرابی ہدایت سے سرفراز ہوااور شیطان کو سازش میں ناکامی پرذلت کا سامنا کرنا پڑامسلمانوں کو سادہ لوح مسلم بھائی میسر آگیا۔
اس لیے دین کی دعوت وارشاد سے منسلک افرادجن کا کام بہت بڑاو عظیم ہے دعوت دینے کے طریقہ میں ان پر لازم ہے کہ وہ رحیم ہوں اور لوگوں کو اپنی جانب مانوس ومتوجہ کریں اس امر پرصرف بہتر سلوک کے اعتبار سے نہیں عمل کرنا بلکہ یہ ایک لازمی فریضہ ہے ۔آج کے تمام داعیوں پر لازم ہے کہ وہ رواداری کو اپنا شعار و امتیازبنائیں اور کامیابی اسی راستہ سے ہی ممکن ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Blog