قراردادلاہور

Published on March 22, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 891)      No Comments

\"imtiaz
تئیس مارچ یوم پاکستان ۔قوم یہ دن ہرسال نہایت محبت ،عقیدت واحترام ۔تزاک واحتشام اور قومی جذبے سے مناتی ہے ۔ 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہورمیں قائداعظم محمد علی کی زیر صدارت مسلم لیگ کے اعظیم الشان اجتماع میں قراردادلاہورمنظور کرکے دو قومی نظریے پرقیام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اور پھر سات سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان کو ایک آزاد ریاست بنا کرتاریخ مسلم کو وہ سنہرا باب دیا جس کے سنہرے حروف قیامت تک چمکتے رہیں گے ۔حضرت علامہ اقبال نے یہی قرارداد 1930ء کوالہ آباد میں منعقدآل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پیش کردی تھی جس میں انھوں نے صاف صاف الفاظ میں فرما دیا تھاکہ انگریزی تسلط کے اندر یاباہرہندوستان کے ان علاوقوں پر مشتمل جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔بہرحال مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا قیام نا گزیر ہوچکاہے۔ حضرت علامہ اقبال نے تحریری قراراد پیش نہیں کی تھی ۔حضرت علامہ اقبال کے اس خطبے نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ایک نیا جوش بخشاء ۔پھر حضرت علامہ اقبال ہی کے اصرار پر قائداعظم محمد علی جناح ہندوں ستان واپس آئے جن کی بے لوث قیادت میں مسلمان ہند اپنے لئے ایک آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوے۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نا ہوگا کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو دنیاکا سب سے بڑا اسلامی ملک یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان تحفے میں دیا ،میرے اعظیم قائد نے اپنی ساری زندگی ذاتی مفادات کی پرواہ نہیں کی اپنا ماضی ،حال اورمستقبل ۔اپنا علم ،اپنی عقل ،اپنا جان ومال،یہاں تک کہ اپنی صحت اورنیندبھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وقف کردی ۔قائداعظم محمدعلی جناح عالم اسلام کی عظیم ترین اورمثالی شخصیت تھے ۔محمد علی جناح کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا خاص تحفہ ملا ،میرے خیال میں اگر باباقوم کو برصغیر کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔خالق کائنات نے محمد علی جناح کوتمام انسانی صفات سے نوزاتھا۔دیانت،فراصت،عقل وشعور،عزم واستقامت،خلوص اوراصول پسندی ان کے قردارسے عیاں تھی اصولی سیاست میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔نہ صرف مسلمانوں بلکہ وہ اقلیت آبادی کے حقوق کے بھی پاسبان تھے انھوں نے بارہا فرمایا پاکستان میں سب اقلیتوں کو اپنی مذہبی زندگی گزارنے کا پورا،پورا حق حاصل ہوگا۔لیکن باباقوم پاکستا ن میں تمام غیر جمہوری رویوں کے شدید مخالف تھے،انھیں آفسر شاہی ،جاگیر درانہ نظام اور مارشل لا سے سخت نفرت تھی مگر بدقسمتی سے ہم آج تک قائد اعظم محمد علی جناح کے نقش قدم اور اصولوں پر عمل پیرا نہ ہو سکے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں تھوڑی بہت جمہوریت تو ہے لیکن جاگیرداری اورآفسر شاہی پہلے سے بھی زیادہ ہو گی ہے اور جو تھوڑی بہت جمہوریت ہے وہ بھی جاگیرداراورآفیسرطبقے کے گھر کی لونڈی بنی پڑی ہے،غریب کا بچہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود سفارش حاصل کرنے کی غرض سے ان پڑھ جاگیر دار کے گھر کے باہرکھڑا دکھائی دیتا ہے، جاگیر دار کسی ایک شخص یا کسی فرقے کا نام نہیں بلکہ میرے خیال میں جاگیر داری صرف ایک سوچ کا نام ہے ایسی سوچ جو ساری دنیا کو کھا جانا چاہتی ہے ۔اور یہ سوچ تقریباً پوری دنیا میں پائی جاتی ۔کوئی گاؤں ہو یا شہرکوئی ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پزیر ملک۔ یہ کمبخت جاگیردرانہ سوچ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ یہ سوچ صرف اور صرف دولت اور طاقت کے نشہ میں مست لوگوں کی میراث ہے ۔ دور حاضر میں سب سے بڑا جاگیر دار امریکہ ہے ۔ او ر ایک حقیقی مسلمان معاشرے سے اس کا دور، دورتک کوئی واستہ نہیں۔اسلام دنیا کا وہ واحدمذ ہب ہے جو جاگیر دارنہ سوچ اور نظام کی شدید مخالفت کرتا ہے ۔جس کی کھلی مثال یہ کے جب مسلمان نماز کے لیے صفوں کو درست کرتے ہیں تو سب کوکندھے سے کندھا ملانے کا حکم ہے۔اور یہ حقیقت دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں کے جب لاکھوں مسلمان ایک ہی وقت میں اپنے رب کو سجدہ کرتے ہیں تواس وقت نہ تو کوئی غریب ہوتا ہے اور نہ کوئی امیر ہوتا ہے۔نہ تو کوئی جاگیر دار ،وڈیرہ ہوتاہے اور نہ ہی مزارہ اور کمی ہوتا ہے۔ اس وقت سب مسلمان ہوتے ہیں ۔ جب بارگاہ الہی میں پنچے توسبھی ایک ہوئے۔ نہ کوئی بندہ رہا بندہ نواز۔امیر ،غریب ،جاگیر دار،وڈیرے اور مزارے ،کمی کا فرق مٹانے والے دین اسلام کی حکمرانی کا خواب حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھا ۔او ر اللہ تعالی ٰ نے حضرت محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اقبال کے خواب کی تعبیر کی صورت میں آزاد پاکستان عطا کردیا۔ محمد علی جناح سچے مسلمان تھے جو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔اور ان کی سوچ عین اسلام کے مطابق تھی ۔بابا قوم قایداعظم کی خواہش کے مطابق اگرہم پاکستا ن کو نوکرشاہی، بدعنوان سیاست، اورجاگیردرانہ نظام ۔ سے پاک کر کے روزگار کے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنا پاتے تو آج حالات کچھ اور ہوتےْ اور پاکستان ایک پرامن اورخوشحال مسلم ریاست ہوتا ۔ میرے ہم وطنوں اگر آج بھی ہم پاکستان کی حقیقت اور اہمیت کا ادراک کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں توکچھ بھی مشکل نہیں ۔اگر ہم دین اسلام،کو سمجھنے والی،نظریہ پاکستان کی حقیقتوں سے شناسا،دلیر اور ایک مخلص قیادت لانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم آج بھی پاکستان کو دنیا کے نقشے پر حقیقی معانوں میں مثالی اور خوشحال ریاست بنا کے بابا قوم کے خوبوں کو پورا کرسکتے ہیں۔جیسے کے بابا قوم شروع سے ہی نوکر شاہی کے شدیدمخالف تھے ان کو اس بات کا باخوبی اندازہ اور پختہ یقین تھا کہ جب تک نوکر شاہی ختم نہ ہوئی تب تک ،اسلامی جمہوریہ پاکستا ن ،نہ تو سہی معانوں میں اسلامی ریاست بن پاے گا اور نہ ہی جمہوریت پھل پھول سکے گی اور اگر جمہوریت نہ رہی تو اقتصادی ،معاشی، ترقی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کے سرکاری ملازمین کی آفاقی ذہنیت کو کیسے بدلا جاے تاکہ وہ عوام کے آقا نہ بنیں بلکہ خدمت گزار رہیں ۔ بابا قوم نے ایک موقعہ پر سرکاری ملازموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا آپ حاکم نہیں ہیں آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes