ضمیر فروش

Published on November 2, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 223)      No Comments

تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
ایک طو طی اپنے طو طے کے ہمراہ دور دراز کا سفر طے کرتی ہوئی ایک ایسے شہر میں پہنچی جہاں کی تمام تر سڑکیں خواہ وہ اندرون شہر کی تھیں یا پھر بیرون شہر وں کو جانے والی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے نہ صرف شہری افراد بلکہ دور دراز کو آ نے جانے والی ٹریفک ذہنی اذیت کا شکار ہو چکی تھیں سیوریج کا نظام مکمل طور پر تباہ بر باد جس کی وجہ سے گلیوں محلوں اور سڑکوں پر کھڑے گندے پا نی سے وہاں کی عوام مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی ٹریفک پولیس کی مجرمانہ خاموشی کے نتیجہ میں ٹریفک کا نظام بے لگام ہو کر رہ گیا تھا جس کی وجہ سے آئے روز چھوٹے بڑے ایکسیڈنٹ شہریوں کے مقدر بن کر رہ گئے تھے پولیس کا عملہ اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگاﺅ اور مال کماﺅ کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر رہ گیا تھا جس کی وجہ سے مظلوم افراد کو عدل و انصاف ملنا بس ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا تھا ریلوے اسٹیشن تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو نے کے بجائے دن بدن پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکے تھے تفریح پارکوں پر خواہ ضلعی حکومت کے ریکارڈ کے مطا بق کروڑوں روپے خرچ آ چکے تھے درحقیقت نہ تو وہاں پر بچوں کے کھیلنے کیلئے پگھوڑے وغیرہ تھے اور نہ ہی وہاں پر اعلی قسم کے پودے ہاں البتہ وہاں پر جتنے بھی درخت لگائے گئے تھے اُن میں بھی زیادہ تر وہ درخت تھے جو مخیر حضرات نے تحفے میں دیئے تھے جبکہ ضلعی حکو مت مذکورہ تفریح پارکوں کی کینٹین اور سائیکل سٹینڈ کی مد میں لاکھوں روپے بھتہ وصول کر نے میں مصروف عمل تھی سرکاری خیراتی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوسنے میں مصروف عمل جبکہ اُن بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بنے غریب مریضوں کے ساتھ ہتک آ میز اور ظالمانہ رویے کو اپنانا اپنا فرض عین سمجھتے تھے یہاں تک کہ مذکورہ ڈاکٹرز غریب مریضوں کی ادویات اور ٹیسٹ وغیرہ اپنے ذاتی کمیشن کے حصول کی خا طر تجویز کرتے تھے محکمہ رجسٹرار کے تحصیل دار و دیگر عملہ رجسٹری اور انتقال کی مد میں آئے روز لاکھوں روپے بغیر کسی ڈر اور خوف کے جگا ٹیکس وصول کرنے میں مصروف عمل تھے مذہبی و سیاسی شخصیات ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساز باز ہو کر قومی خزانے کو لوٹنے میں مصروف عمل تھے قصہ مختصر اُس شہر کے تمام ادارے خواہ وہ صوبائی یا پھر وفاقی رشوت خوری کی آ ماجگاہ بن کر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے لا قانونیت کا ننگا رقص ہر طرف جاری تھا جس کی وجہ سے عدل و انصاف سے لا تعداد مظلوم افراد محروم ہو کر رہ گئے تھے ان گھناﺅ نے حالات کو دیکھ کر طوطی نے اپنے طو طے سے کہا کہ یہاں پرایسا کیوں ہو رہا ہے یہ سن کر طو طے نے طو طی سے کہا کہ یہاں پر یقینا کسی اُلو کا بسیرا ہے جس کی نحو ست سے یہاں پر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے طوطے کی اس بات کو ایک اُلو نے سن لیا اور وہ دوڑتا ہوا طوطے اور طو طی کے پاس آ کر کہنے لگا آپ مجھے یہاں پر پردیسی نظر آتے ہیں لہذا آج کا کھا نا آپ میرے ساتھ کھا ئیں یہ سن کر طو طا اور طو طی اُس اُلو کے ساتھ کھا نا کھا نے چلے گئے کھا نا کھا نے کے بعد طو طا اور طو طی وہاں سے جا نے لگے تو اُلو نے طو طی کو پکڑتے ہوئے طو طے سے کہا کہ یہ اب میری بیوی بن چکی ہے لہذا تم اب یہاں سے اکیلے جاﺅ یہ سن کر طو طا پریشانی کے عالم میں اُس شہر کے حاکم یعنی کہ قاضی کے پاس پہنچا جو از خود پرلے درجے کا ضمیر فروش اپنے عہدے اور انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ تھا جس کی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے شہر کی سرکاری زمینوں کو بھاری رشوت کے عوض اونے پونے داموں فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری دفاتروں کے رشوت خور اعلی افسران و دیگر عملہ کی سر پرستی کر نا اپنا فرض عین سمجھتا تھا اگر کوئی مظلوم شخص رشوت خور اعلی افسران و دیگر عملہ کے کالے کرتوتوں کی رپورٹ مذکورہ قاضی کے ارباب و بااختیار کو کرتا تو مذکورہ قاضی اُن کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کو کی واپسی رپورٹ صادق اور امین کہہ کر تحریر کرتا یہی کافی نہیں مذکورہ قاضی اپنی کوٹھی پر آ نے والے بااثر افراد سے بھینس اور گھوڑے گفٹ کے طور پر وصول کرنے میں بھی ماسٹر ماہنڈ تھا قصہ مختصر طو طے کی تمام کہا نی کو سننے کے بعد قاضی نے اپنے ہمراز منظور نظر اہلکار کو اُلو کو بلانے کیلئے اُس کے پاس بھیجا اُلو نے اُس منظور نظر اہلکار کو رشوت دیکر مذکورہ قاضی کی عدالت میں پہنچ کر یہ فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا اس فیصلے کو سن کر طو طا وہاں سے مایوسی کے عالم میں جانے لگا تو اُلو نے طو طے کو بلا کر کہا کہ تم اپنی طو طی کو اپنے ساتھ لے جاﺅ یہ سارا ڈرامہ میں نے آپ کو سمجھانے کیلئے کیا ہے کہ الوﺅں کے بسیرا کرنے سے ملک یا شہر تباہ و بر باد نہیں ہوتے بلکہ ضمیر فروش قاضیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں لہذا آج کے بعد تم جس ملک یا شہر میں ایسے حالات دیکھو تو تم یہ بخوبی سمجھ لینا کہ اُس ملک یا پھر شہر کے قاضی پرلے درجے کے ضمیر فروش ہیں

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme