قصور کس کا تھا

Published on December 14, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 248)      No Comments

تحریر ۔۔۔ زہرہ کوثر
دروازے مین داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر بڑا سا لان ، جس کے آخری کنارے پر جالیوں سے دیوار بنی ہوئی ہے ان کی جالیوں کو کٹنگ کرکے سائیڈ پر ایک دروازہ بنا تھا ۔ ان جالیوں کے دوسری طرف ایک انیکسی بنی تھی گھر میں داخل ہوکر صحن اور برآمدہ سامنے ایک ایک ساتھ تین کمرے بنے تھے ۔ ان جالیوں نے زندگی کو آخرری کنارے پر لاکھڑا کیا تھا ۔
کھانے کی میز پر تین لوگ آرام سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ قدموں کی آواز پر فاطمہ بیگم کے چہرے کا زاوریہ بگڑا آنے والے نے کنکھار کے ساتھ آنے کا اعلان گیا ، اقبال احمد نے اپنی جگہ سنبھالتے ہی اپنی دونوں بیٹیوں کی طرف دیکھا انعم کے چہرے کا ڈر انہیں اندر تک سکون دے گیا ۔ جبکہ افشین اسی انداز سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی ۔ اس پر تو سمجھو جوں تک نہ رینگی ۔ افشین نے سلائیس لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔ اس کی آستین انتہائی فیشن دار کہنیوں سے ذرا ہی نیچے تھی ۔اقبال احمد نے نہایت غصے سے بیٹی کو دیکھا ۔ باپ کے چہرے کا بگڑتا زواریہ دیکھ کر انعم کے ہاتھ سے چائے کا کہ چھلک گیا ۔ آفشین ! بازار میں کپڑا ختم ہوگیا تھا ؟ انتہائی غصے میں یہ بات کی گھر کے درو دیوار ہل گئے ۔ بھول گئی ہو کس کے گھر میںموجود ہو ۔ جس کی شرافت کی گواہی پورا محلہ دیتا ہے ۔ اس کی بیٹیاں اب فیشن کرینگی ۔۔ کبھی ماں کو دیکھا ہے فیشن کرتے ہوئےَ؟ افشین نے اسی پر سکون انداز میں باپ کو دیکھا اور پھر ماں کو اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی ۔انعم جو سہم کر ناشتہ کرکے فارغ ہو ئے ٹائم دیکھ جانے لگے تھے کہ اچانک بتانے کے کچھ بتانے کےلئے بیوی کو دیکھا اور کہا : او ہاں سنو تہمینہ کا فون آیا تھا ۔ اس کے جیٹھ کی بیٹی کی شادی ہے۔ مین تو جا نہیں سکتا ان کی دونوں میں سے کسی کو بھیج دینا خالہ جی کے ساتھ ۔۔ یہ کہ کر وہ چلے گئے
خالہ جی اقبال احمد کی خالہ تھیں جنہیں پورا خاندان بچے بڑے سب خالہ جی کہتے تھے
فاطمہ بیگم برتن سمیت کر اپنی بیٹیوں کے کمرے میں آئین انعم اپنا اسائمنٹ تیار کررہی تھی اور افشین موبائل پر کوئی مووی دیکھ رہی تھی ۔اپنی امی کو دیکھ کر سیدھی ہو کر بیٹھی ۔امی حد ہو تی ہے ہر چیز کی ایک فیشن ایبل آستین کے پیچھے کتنی باتیں سنائی ہیں۔مجھ سے تو یہ سب ناقابل برداشت ہے ، وہ جو اتنی دیر سے منہ بند کئے بیٹھی تھی اپنی ماں کو دیکھ شروع ہی ہوگئی ۔ اچھا چپ ہو جاﺅ تمہارے ابا کہ رہے تھے پنجاب جانا ہے ، کون جائے گا ؟ بھئی میں تو نہیں جاﺅنگی ۔ افشین جلدی سے بولی ۔ باپ کے اصولوں کے خلاف ہر کام کرنے کو وہ اپنا سر فرض سمجھتی تھی ” تم سے تو مجھی یہی امید تھی“ فاطمہ بیگم افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ انعم تم جاﺅں گی ؟ میں۔۔میں کسی کے ساتھ جاﺅنگی ۔۔و ہ جو ان دونوں کی باتوں سے لطف اندوز ہورہی تھی ایک دم گھبراگئی ۔ لیکن میں کیسے ۔۔ مطلب کس کے ساتھ “ خالہ جی کے ساتھ جانا ہے “ فاطمہ بیگم اس کا چہرہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں۔ہاں ہاں تم ہی جانا ابو کی ہا؟ں کی ہاں میں ہاں تو تم ہی ملا تی ہو ۔
ابو کی لاڈو‘ افشین کو چڑ ہوتی تھی جب انعم ابو کا ہر کام آگے سے آگے کرتی تھی ، اگلے دن صبح چھ بججے کی ٹرین تھی اس نے اپنی تمام تیاریا ں بھی کر لی تھی ۔ خالہ جی بھی رات کو آٹھ بجے آگئیں ۔ ڈنر ان لوگوں کے ساتھ ہی کیا ۔ ؟صبح جلدی آٹھ کر قرآن پڑھا ۔ جانے کی تیاری کی ۔ سب سے مل کر اسٹیشن کےلئے روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر چار سورش دیکھ کر انعم بہت پریشان ہوئی ۔سفر کے دوران مسلسل دعائیں پڑھتی رہی ۔ اسلام آباد پہنچ کر ٹرین رکی ، اترے ہی خالہ جی ایک سمت ہوکر کھڑی ہوگئیں ، اسلام علیکم ، فران نے آگے بڑھ کر دونوں کو سلام کیا ، اس کے ہاتھ سے بیگ لیا ، وہ گاڑی میں سوار ہوکر گھر تک پہنچے ، سب لوگ لان میں جمع تھے ، وہ خالہ جی کے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان سب تک پہنچی ، سب سے سلام عا کے بعد کھانا اور میز پر ہی ایک دوسرے کے حال احوال معلوم کئے ۔
نمرہ بیٹا ۔ انعم کو اس کا کمرہ دکھاﺅ ، پھپھو نے اپنی بیٹی کو مخاطب کیا ، جو کھانے کے برتن جمع کررہی تھی …….. آجاﺅ …. ، انعم سے کہا ، نہیں میں آج کھالہ(خالہ ) جی کے کمرے میں ہی رہوں گی ، چلو کوئی بات نہیں ، پھپھو نے پیار سے اس کا چہرہ تھپتھپایا ۔ خالہ جی بیڈ پر لیٹی تھیں ، وہ جاکر ان کے پیر دبانے لگی ، انہوں نے نرمی سے اس کے ہاتھ ہٹائے ۔ انعم میرا بیگ کھولو ، یہ کہہ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں ۔ انعم نے ان کا بیگ کھول کر ان کے سامنے ، ہاں یہ شاپر نکال لاﺅ ، انعم نے خالہ کی بت سنتے ہی شاپر نکال کر ان کے سامنے رکھا ، یہ میں دو سوٹ تمہارے لئے لئے تھے ۔ مجھے پتہ تھا تم کیسے سوٹ لے کر آﺅ گی ۔ انعم تھوڑی شرمندہ ہوئی ۔ اچھا اب ایک کام کرو ، اپنے سارے کپڑے نکال کر مجھے دو ، میں انہیں ڈرا فیٹنگ میں کردوں ۔ خالہ جی نے اس کو کہہ کر باہر دیکھا ، وہاں سے انہوں نے نمر ہ کو آواز دے کر اس سے مشین رکھوائی اور اس کے جاتے ہی انعم نے دروازہ بند کردیا ۔ خالہ جی نے اس کا سوٹ فیٹنگ میں کیا ۔ پرپل کلر کا سوٹ اسے دیا ۔ یہ لو پہن لو ، انعم تم بہت پیاری ہو ، مگر اپنے حلیہ سے نہیں لگتی ۔ تمہارے ابا نے تمہیں قید پرندوں کی طرح رکھا ہے ۔ خالہ نے اسے پیار سے دیکھا ۔ جہاں معصومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آیا ۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا ۔ خالہ نے ڈھیلا ڈھالا لائٹ پنک کلر کا سوٹ بالوں کی سیدھی مانگ نکل کر پیچھے چٹیا کی ہوئی ، ڈرا ، سہما سا چہرہ ۔ سوٹ تبدیل کرکے اس نے خود کو آئینے میں دیکھا ، وہ واقعی ہی خوبصورت تھی ۔ مگر باپ کے اصولوں کے مطابق اسے خوبصورت دکھنے کا حق نہیں تھا ۔ کپڑے بدل کر آئی تو خالہ جی نے اس کے بال بنائے ، خوبصورت اور لمبے بال سائڈ کی مانگ نکال کر پیچھے کیچر لگادیا ۔ اب جاﺅ ، انعم باہر ، جب سے آئی ہو ، میرے ساتھ ہی ہو ، انعم کمرے سے باہر آگئی ۔ او ہو ، یہ صبح والی لڑکی ہے ، تم نے وہ اپنا چولا اتار دیا، سلمان نے اسے دیکھتے ہی شرارتی انداز میں کہا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ کہتا ، پھپھو نے اسے کام کے لئے بلا لیا ۔
سلمان انعم کے چاچو کا بیٹا ہے ، اس کے ابا کے برعکس چاچو بہت مختلف انسان ہیں ، سلمان 13سال کا تھا ، جب ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ، انہوں نے دوسری شادی کرلی جن سے ان کی دو بیٹیاں عمیرہ اور رابیل ہیں ، اسی لئے سلمان زیادہ تر پھپھو کے گھر ہی رہتا تھا ، اس کو اپنی نئی اسی بالک پسند نہیں ۔
سلمان کے جاتے ہی وہ کچن میں آئی ، جہاں نمرہ پہلے سے ہی چائے بنانے میں مصروف تھی ، کیا ہورہا ہے ۔ انعم نے خوشگوار انداز میں پوچھا ، نمر ہ نے مڑ کر اسے دیکھا ۔ یہ وہ صبح والی لڑکی تو نہیں ، نمرہ نے مسکر اسے دیکھا ۔ یہ وہ صبح والی لڑکی تو نہیں ۔ نمرہ نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔ شام کے چھ بجے چائے کون پیتا ہے ۔ انعم نے نمرہ کو دوکپوں میں چائے ڈالتے دیکھ کر سوال کیا ۔ وہ ، دیکھو ، نمرہ نے کچن کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا ۔ جولان میں کھلتی تھی ۔ لان میںدو کرسیوں پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے تھے۔ لڑکے کو تو وہ جانتی تھی ۔ وہ اسد تھا ، نمرہ کا بڑا بھائی ، البتہ لڑکی سے انجان تھی ، یہ کون ہیں ؟…. انعم نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ یہ تو اسد بھائی ہیں اور وہ نرگس باجی ہیں ۔ ہمارے محلے میں ہی رہتی ہیں ۔ اسد بھائی کی ہم مزاج ہیں ۔ جب یہ دونوں مل کر بیٹھتے ہیں تو تیسرا کوئی نہیں بول سکتا ۔ …. نمرہ نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔ ” آجاﺅ “ ، نمرہ ٹرے اٹھاکر جاتے ہوئے بولی ۔ ” ہاں آئی “۔ انعم ابھی تک ان دونوں کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ یہ روز کا کام تھا ۔ نرگس ہر شام کو چائے کے وقت ان کے ساتھ ہی ہوتی تھی ۔ گھر کے سب لوگ اسے پسند کرتے تھے ۔ سوائے نمرہ اور سلمان کے ، اب انعم کو بھی اسے بہت چڑ تھی ، آخری راحیلہ کی شادی کے دن بھی آہی گئے ۔ اس کی مہندی کا فنکشن تھا ، وہ بہت نک سک سے تیار ہوئی ۔ ، بالو کو آدھا کیچر میں باندھے اور آدھا کھلے چھوڑے ۔ جلدی جلدی کمرے سے نکلی ، اور جلدی جلدی برآمدہ پار کرکے لان میں ائی ۔ ان جالیوں کی دیوار کے پاس سے بھاگتے ہوئے اس کا دوپٹہ اٹک گیا ۔ اس نے جیسے ہی دوپٹہ نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ، اچانک کسی ہاتھ نے اس کا دوپٹہ نکال دیا ۔ جیسے ہی دوپٹہ چھوٹا وہ بھاگئی ہوئی باہر آئی ، جہاں نمرہ اور سلمان کافی دیر سے اس کا انتظار کررہے تھے ۔ وہ بھولی ہوئی سانوں کے ساتھ ان تک پہنچی ۔ …………اف اﷲ …. وہاں پہنچ کر اس نے گہرا سانس لیا ۔ ’ان جالیوں میں ہاتھ تھا “، انعم نے ان دونوں کو دیکھ کر بتایا ۔ سلمان اور نمرہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے ۔ کیا ہوا ؟ …. انعم کو ان کے مسکرانے پر حیرت ہوئی ۔ وہاں تو کچھ نہیں ہے ۔ بس خالی انیکسی ہے ، او ہ اچھا …. ، نمرہ کے بتانے پر وہ خاموش ہوگئی ۔ مہندی کا فنکشن رات کو دو بجے ختم ہوا ۔ وہاں سے واپس آکر نمرہ کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی اور دونوں برات سوٹ ڈسکس کرنے لگ گئیں ۔ تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کو گڈ نائٹ کہہ کر سوگئیں ۔ صبح تو بہت ہی مصروف انداز میں ہوئی ۔ برات والے دن اس کے ابا آگئے ۔ اس نے ابھی اپنا سامان پیک کرلیا ۔ اس کا ارادہ ابا کے ساتھ جانے کا تھا ۔ لیکن پھپھو نے ابا سے کہہ کر اسے روک لیا ۔ ابو اکیلے چلے گئے ۔ اگلے دن خالہ کے پاس اس کی امی کا فون آیا ۔ جس میں انہوں نے اسے اس کا رشتہ پکا ہونے کی خبر سنائی کہ پھپھو کے بیٹے اسد سے اس کا رشتہ ہوگیا ۔ اسے اسد سے سخت خوف آتا تھا ۔ وہ بالک ابا کی ٹو کاپی تھا ۔ وہی غصہ …. ، وہ شک کرنے کی عادت ۔
بہر حال وہ گھر والوں سے اس معاملے پر بات کرے گی ، یہ سوچ کر اس نے اپنا سرجھٹکا ۔ اسد کا بی ہیویئر اس کے ساتھ تھوڑا بہت بدلا تھا ۔ اب اس نے تھوڑی بہت بات چیت کرلیا کرتا ۔ اس دن وہ صبح صبح نہاکر بال سکھا کر بال کیچر میں بند کئے ، باہر آئی ۔ کمر سے نیچے تک آئے خوبصورت بال جنہیں دیکھ کر نمرہ رشک کیا کرتی تھی ۔ ” ہائے انعم تمہارے بال کتنے اچھے ہیں “۔ وہ کچن میں کسی کام سے آئی تھی ۔ سلمان کچھ لینے کی غرض سے کچن میں داخل ہوا تو وہاں انعم کو دیکھ کر باتوں میں مصروف ہوگیا ۔ انعم کے کھلکھلانے کی آواز باہر تک آرہی تھی ۔ سلمان اس سے ایک سال چھوٹا تھا ، وہ کچن سے باہر آئی تو اس کا ٹکراﺅ اسد سے ہوا ۔ ” سنو“، انعم جو اسے دیکھ کر منہ نیچے کئے کمرے میں جارہی تھی ، اچانک رکی ۔ ” یہ سلمان سے تم کیا بات کررہی تھیں ، “، انعم کو اس کی بات سن کر شدید جھٹکا لگا ۔ سلمان اسے بھائیوں کی طرح عزیز تھا ۔ ”اچھا ، چھوڑو ، اتنے لمبے بال لئے گھوم رہی ہو ، یہ کٹوالو ، مجھے چھوٹے بال پسند ہیں ۔ یہ کہ اسد تو چلے گئے ۔ مگر اس کے رخسار پر بہتے آنسو کسی نے نہ دیکھے ۔
نجانے کیوں دل میں عجیب و غریب خدشات تھے ، اسد کے متعلق ، اس کا نرگس کے ساتھ مل کر قہقہہ لگانا ، کیا وہ اس رشتے سے بے خبر تھا ، جو ان کے درمیان بندھ چکا تھا ۔
خالہ جی اپنے تمام تر رشتہ داروں سے مل چکی تھیں ۔ دو دن بعد واپسی کی ٹکٹ تھی ۔ جانے سے دو دن پہلے وہ چچا اشتیاق کے گھر ائے ۔ چچی بہت نیک خاتون تھیں ۔ ان کی بیٹیاں عمیرہ اور رابیل ، پیاری بچیاں تھیں ۔ چچا ابا کے بھائی ہونے کے باوجود بہت مختلف تھے ۔ سب سے پیار سے بات کرنے والے مختلف انسان ۔ سلمان گھر میں بہت خاموش رہتا تھا ۔ چچی کے ساتھ اس کا رویہ اچھا نہ تھا ۔ اس رات وہ کھانے بنانے کچن میں آئی ۔ چچی کو کرسی پر بٹھا کر وہ خود بنانے لگی ۔ چچی اسے دعائیں دیتی رہ گئیں ۔ کھانا بناکر وہ کچن سے نکلی ، سلمان کو دیکھ کر اس نے آواز دے کر اسے روکا ۔ حیرت ہے جس جس شخص کا رویہ باہر والوں کے ساتھ اتنا اچھا ہے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے ۔ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ اسے جتا گئی ۔ سلمان اس رات کھانے کی میز پر ان کے ساتھ تھا اور سب سے خوشگوار انداز میں بات کررہا تھا ۔ کھانے کھانے کے بعد وہ لوگ آئس کریم کھانے گئے ۔ عمرہ اور ابیل بہت خوش ہوئیں۔ کہ ان کے بھائی نے انہیں اتنی محبت بخشی ۔ چچی نے جانے کس ٹائم اسے دو ، سوٹ دیئے ، اس کے نہیں نہیں کرنے کے باوجود انہوں نے پیار سے اس کا ماتھا چوما اور سوٹ ہاتھ میں پکڑا دیئے ۔
اسٹیشن پر انہیں اسد اور سلمان چھوڑنے آئے ۔ تمام سفر جانے کن سوچوں میں گزر گیا ، گھر پہنچ کر اس نے کسی سے کوئی بات نہ کی ۔ کمرے میں آکر نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔ مسلسل دو نہیں گھنٹے کے بعد وہ نیند سے بیدار ہوکر باہر آئی ۔ سب لوگ صحن میں چار پائیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔ خالہ جی چائے کا کپ خالی کرکے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اچھا بچوں اب میں چلتی ہوں ، انعم پر ایک پیار بھری نظر ڈال کر وہ گویا ہوئیں ، اقبال احمد نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی بعد میں آﺅں گی ۔ ابھی گھر والے میرا بھی انتظار کررہے ہونگے ۔” خداحافظ “ ۔
رات کا کھانا کھاکر فارغ ہوئے ، افشین کمرے میں آکر اپنے کام نمٹانے لگی اور وہ امی کے ساتھ کچن میں آگئی برتن دھوتے ہوئے اس نے اپنی ما ں سے کہا ۔ ” امی آپ اس رشتے سے خوش ہیں آپ ابو سے بات کریں مجھے ابھی بھی اور پرٹھنا ہے “ اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھیں ۔ و ہاس کے جواب میں کچھ نہ بولیں۔ انعم کمرے میں آکر افشین کو پھپھو کو گھر کے واقعات سنانے لگ گئی ۔ فاطمہ بیگم اقبال احمد کے کمرے میں آئیں ۔ا ن کی ٹیبل پر وہ دودھ کا گلاس رکھ کر وہ گویا ہوئیں ´” آپ نے انعم کا رشتہ کرنے میں جلد بازی کی ہے ۔ ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے ©“ وہ معصومیت سے بولیں۔ ہا ں تو پڑھ لے۔ میں نے کونسا شادی کردی ہے اسکی “ ۔ وہ بڑے عجیب انداز سے گویا ہوئے۔ ”،میں دراصل کہ رہی رتھی کہ اسد مجھے بالکل پسند نہیں “ انہیوں نے یہ بات خوفزدہ ہوکر کہی” کیا مطلب ہے کہ ارے شکر کرو تہمینہ نے تمہاری بیٹی لے لی ۔ میں تو شکر گزر ہوں اس کا “ فاطمہ کی سوئی تو تمہاری بیٹی پر اٹک گئی‘۔ جو شخص اپنی اولاد کو اپنا نہیں کہ سکتا وہ اس کے اچھے مستقبل کا کیسے سوچ سکتا ہے ۔ آنکھوں میں آنسو لئے وہ کمرے سے باہر آگئیں ۔
اس گھر مین ہمیشہ اسکی اور اسکی بیٹیوں کی تذلیل کی گئی اسی وجہ سے انعم میں بالکل اعتماد نہ تھا ۔ البتہ افشین کےلئے ماں حقوق ہی سب کچھ تھے ۔ وہ باپ کے خلاف جانے کو فرض سمجھتی تھی ۔
چنددن بعد انعم کا کالج کھل گیا اوہ اپنی روٹین میں آگئی ۔ افشین نے تو انٹر کے بعد ہی تعلیم کو خیر باد کہ دیا تھا ۔
اس کے انٹر کے ایگزامز شروع تھے ۔ پیپر دے کر وہ تپتی دوپہر میں گھر پہنچی تو سامنے ہی نظر کچن میں کھڑی افشین پر پڑی ۔ وہ بہت کم ہی کچن میں نظر آتی تھی ۔ بیگ صوفے پر رکھ کر وہ کچن میں آئی ۔ ارے واہ بھئی میری بہن اتنی سگھڑ ہوگئی ۔ کیا ہوا جو آج کچن میں نظر کرم کیا “ انعم نے اس کے گال نوچتے ہوئے کہا۔ تمہاری ساس صاحبہ آئی ہیں ۔ یقینا تمہیں اس گھر سے بگھانے کےلئے بند کمرہ اجلاس چل رہا ہے “ ان جملوں سے انعم کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ۔ افشین اسے چھیڑنے کے بعد کچن کے کاموں میں مصروف ہو گئی ۔۔ اف اللہ ایک تو امی بھی ناں ۔ سارا کام مجھ پر چھوڑ کرخود ان کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں ۔ ویسے امی کیا میٹنگ کریں گی۔ انہیں نے ابو بولنے ہی نہیں دینگے ، کہتے کے ساتھ ہی اس نے پیچھے مڑکر دیکھا جسے وہ یہ سب کہ رہی تھی وہ تو کمرے سے غائب تھی وہ افسوس سے سر ہلاتی رہ گئی ۔
انعم بیگ اٹھا کر کمرے میں آئی ۔ جلدی سے کپڑے بدلے فریش ہو گئی ۔ابھی وہ کمرے سے نکل ہی رہی تھی کہ امی آگئیں ۔ ” انعم یہ لو مٹھائی تمہارے ایگزامز ختم ہونے والے ہیں۔اگلے مہینے ہی پچیس تاریخ کو تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس کردی ہے تمہاری ابا نے “
انعم کی انکھوں کی ایک ننھا سا قطرہ نکل کر اس کے رخسار پر گرا ۔ فاطمہ بیگم چہرے پر بیچارگی کی لکیر سجائے روانہ ہوگئی ۔کچھ بھی ان کے بس میں نہ تھا ، دن پر لگا کر اڑ رہے تھے ۔ فاطمہ بیگم جہاں خوش تھیں ، وہاں انہیں بیٹی کا چہرہ مایوس کردیتا تھا ۔ خبر دنوں کا کام تھا ۔ گزرنا ، سو وہ گزرتے رہے ۔ غم کی ، خوشی کی لہر ، آخر وہ دن بھی آہی گیا ، جب انعم اقبال اسد جاوید کے سنگ رخصت ہوکر پیا گھر سدھار گئیں۔
ماں کی شفقت باپ کا غصہ ، افشین کا پیار ، سب ساتھ طئے وہ گھر میں جہاں اب اس کا جنازہ نکلتا ،…….. چلی گئی …. شادی کے بعد انعم پر بہت سے منظر واضح ہونے لگے ۔ شادی کے شروع کے دن بہت خوشگوار گزرے ، وہ صبح آتھی ، ناشتہ کرتی ۔ سارا دن فارغ ہوتی ، پھپھو اسے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں ۔ کیونکہ ابھی بھی بہت سی خواتین نئی دلہن کو دیکھنے آرہی تھیں ۔ شام کو اسد آفس سے آتے تو وہ گھومنے پھرنے نکل جاتے ۔ یہ سلسلہ بس چند دن قائم رہا ، وہ کچن میں زبردستی پھپھو کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی ۔ آہستہ آہستہ کرکے کچن اس کے نام ہوگیا ۔ اب کھانے بنانے کی ذمہ داری اس کی تھی ۔ گھر کے مختلف کاموں میں حصہ لیا تو تمام کام اس کے ذمہ ہوگئے ۔ اب سارا دن کام میں گزارنا ، صبح صبح اٹھ کر ناشتہ بناکر فارغ ہوتی ، کیونکہ ابھی تو سب کی چھٹیاں تھیں تو سب آگے پیچھے اٹھتے تھے ۔ 11بجے تک ناشتے سے فارغ ہوتے تو دوپہر کا کھانا ، آوازیں لگارہا ہوتا ۔ پھر گھر کا کام ، سارا دن اسی مصروفیت میں گزرتا ۔ گھر میں سب سو رہے ہوتے ، ایک وہی تھی جو مرغوں کی بانگ کے ساتھ اٹھتی۔
صبح صبح اٹھ کر نماز پڑھی ، قرآن پڑھا ، اس کے بعد ناشتہ بنایا سب کو اٹھایا ، ناشتہ کرتے ہی نمرہ کالج چلی گئی ۔ فرقان آفس ، اسد ایک دن پہلے ہی کراچی گئے تھے ۔ کام کے سلسلے میں ، سب کے جانے کے بعد اس نے ناشتہ کیا ، گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ اس نے سالن بھی جلدی ہی بنالیا تھا ۔ اب فارغ تھی سو اپنے کمرے کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔ …….. انعم ، پھپھو اس کے کمرے میں بڑے ہی تکبرانہ انداز میں داخل ہوئیں ۔ ” میں فرزانہ کے ساتھ ذرا کام کے سلسلے میں جارہی ہوں ، دوپہر کے بعد تک آﺅں گی ،کھانا بنا لینا اور ہاں اسد کا فون آیا تھا ، کمپنی کی طرف سے کچھ کام ہے وہ دو چار دن بعد آئے گا ، ایک ہی سانس میں کہتے ہوئے ان کا سانس پھول گیا …. اور ہاں دروازہ بند کرلینا …. یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلیں ۔ انعم ان کے جانے کے بعد اپنا کام ختم کرکے دروازہ لگانے آئی ۔ اس کی غیر ارادی نظر انکیسی کی طرف گئی جہاں ایک بزرگ خاتون کپڑے جھاڑ جھاڑ کر تا ر پر ڈال رہی تھی ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم نیکسی کی طرف اٹھ گئے ۔ اس تو بتایا گیا تا کہ وہاں کوئی نہیں رہتا ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کی طرف آئیں ۔ خاتون قدموں کی آواز پر پلٹیں ۔ انعم نے سلام کیا ۔ وہ اسے کمرے میں لے آئیں ۔ جہاں ایک لڑکا کمپیوٹر چلا رہا تھا ۔ انہیں دیکھتے ہیں باہر نکل گیا ۔ ” بیٹا تم انعم ہو ناں ۔ ” جی “‘ ، وہ بہت خیران ہوکر بولی ۔ ”بیٹا “ میں تمہاری پھپھو کی نند ہوں ۔ میرے شوہر کے انتقال کے بعد بھائی جاوید نے یہ انیکسی مجھے رہنے کےلئے دے دی ۔ جاوید نے میرا بہت ساتھ دیا تھا ۔ یہ کہتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ انعم کو اس وقت وہ دنیا کی سب سے دکھی عورت معلوم ہوئی ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو انعم کو تکلیف دے گئے ۔ ان سے اجازت لے انعم واپس آنے لگی ۔ ” بیٹا کسی سے ذکر مت کرنا کہ تم میرے پاس آئی ہو ۔ تمہارے لئے مشکل ہوجائے گی ۔ انعم واپس آگئی ۔ اب اس کا روز کا معمول تھا ۔ وہ ان کے پاس روزانہ جاتی ، ان کا کام کردیتی ۔ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتی ۔ کبھی ان کا کھانا بنادیتی ۔
اس دن بھی جب وہ اپنے کچن میں بریانی بنارہی تھی جب اس کی ساس کچن میں آئیں ۔ انعم ، بریانی کے ساتھ روٹی سالن بھی بنالینا …. انعم ایک ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی ۔ پھپھو آج پھر راحیلہ کے سسرال روانہ ہوگئیں ۔ گھر میں کوئی نہ تھا ۔ انعم نے جلدی جلدی برتن میں سالن اور بریانی ڈال کر انیکسی میں آئی ۔ سامنے سے آنٹی کا بیٹا بارد آتا دکھائی دیا ۔ اس سے سلام دعا کرکے آنٹی کا پوچھا ۔ جی بھابھی وہ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ ” کیا ہوا ہے ؟ وہ فکر مند ہوگئی ۔ کچھ نہیں بس بخار ہے ۔ آج اتنے عرصے بعد پہلی بار انعم نے اس سے بات کی ۔ تمام باتوں وہ وہ سرجھکائے کھڑا رہا ۔ انعم کو اس کا یہ انداز بہت پسند آیا ۔ انعم کمرے میں آئی تو وہ سر پردوپٹہ باندھے لیٹی ہوئی تھیں ۔ وہ ان کے قریب بیٹھی ۔ کیا ہوگیا ، آپ کو اتنا تیز بخار ہے ۔ آپ بیمار کیسے ہوگئیں ۔ آپ اگر بیمار ہوگئیں تو میں …. ان کی حالت دیکھتے ہی انعم کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، وہ اٹھ کر بیٹھیں ۔ اسے گلے لگاکر پیار کیا ۔ ارے نہیں میرے بچے مجھے کچھ نہیں ہوا اور جت تک میری بیٹی میرے پاس ہے ، مجھے کیا ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا ۔
اس شہر میں وہ ماں باپ سے دور اس ماں کے ساتھ تھی جن کی شفقت و محبت نے اسے دوبارہ جوڑا تھا ۔ وہ دنوں ایک دوسرے کے غم بانٹنے والی بن گئیں ۔
اچھا یہ لیں ، آپ کے لئے بریانی لے کر آئی ہوں ۔ وہ ڈبہ کھول کر ان کے سامنے رکھتے ہوئے بولی ، چمچ بھر کر ان کے منہ کے سامنے کیا ۔ انہوں نے کھاتے ہوئے اسے پیار سے دیکھا ۔ بارد نے بھی کھانا نہیں کھایا ہے ۔ اس نے میری وجہ سے ناشتہ بھی نہیں ، انہیں اپنے بیٹے کا خیال آیا ۔ وہ کچن آئی اور اس نے بریانی اور سالن سنبھال کر رکھ دیئے ۔ آنٹی کو بتا کر آئی کہ کہاں کھانا رکھا ۔ اسد بھی کراچی سے آگئے تھے ۔ اسی لئے آفس سے آکر دوپہر کو ان کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ کھانا کھاکر فارغ ہوکر اسد نے ایک سرسری سے نظر انعم پر ڈالی جو غائب دماغی سے کھانے میں چمچ چلارہی تھی ۔ ” بھابی “، نمرہ کپڑے بلد کر ٹیبل پر آبیٹھی اور سالن پر نظر ڈالتے ہی انعم کو پکارا ۔ ”بھابی ، یہ کیا ، آج اپ نے سبزی پکالی ۔ انعم نے ایک غصیلی نظر نمر ہ پر ڈالی ۔” حد ہوگئی ہے ، جب سالن بناﺅ تو گوشت کھانا ہے ، گوشت بناﺅ تو سالن کھانا ہے ۔ میں بھی انسان ہوں ، مجھ سے تو کبھی کسی نے نہ پوچھا کہ میں نے کھانا کھایا یا نہیں ۔
نہ اج کہاں سے اس میں اتنا حوصلہ آگیا کہ وہ سب کا منہ توڑ جواب دے کر اب کمرے میں کھڑی تھی ۔ اس نے سوچ لیا کہ اب وہ سب کی فکر چھوڑ کر اپنے بارے میں سوچے گی ۔ وہ صبح دیر سے اٹھی ۔ نمرہ کالج جاچکی تھی ۔ فرقان اور اسد آفس جاچکے تھے ۔
آنٹی کی طبعیت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی ۔ وہ روزانہ ان کے لئے کھانا بناکر لے جاتی تھی ۔ آج جب وہ ان کے پاس بیٹھی تھی ۔ ” بیٹا میں اتنا سمجھاتی ہوں اسے کہ آفس جایا کرے ، میری وجہ سے نہیں جاتا ۔ وہ انتہائی مرجھائی ہوئی آواز میں گویا ہوئیں ۔ آپ فکر کیوں کرتی ہیں ۔ میں آپ کو دوائی دے دیا کروں گی اور کھانا بھی بناجایا کروں گی ۔ وہ ان کا ہاتھ تھامے ہوئے بولی ۔ اس نے بارد کو اطمینان میں لیا وہ آفس جانے لگا ۔ اب انعم روزانہ دوپہر کو ان کا کھانا بنادیتی یا اگر پھپھو گھر پر ہوتیں تو وہ گھر میں کھانا بناکر جب پھپھو سو جاتیں تو انہیں دے آتی ۔ اس دن بھی پھپھو سو رہی تھیں وہ کھانا دے کر واپس آئی ۔ بارد کی آواز پر پلٹی ۔ ” بھابی یہ دوائیاں ہیں ، ڈاکٹر نے بولی ہیں اور یہ پرچی ہے کہ کب کونسی دوائی دینی ہے ۔ دوائیاں میں گھر پر رکھ دیتا ہوں ، وہ چرپی دے کر چلا گیا ۔ وہ واپس آئی تو پھپھو دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے ہی گھور رہی تھی ۔ ” اچھا تو یہ مصروفیات تھیں تمہاری ، گھر کا کام کرنے ہوئے موت آتی ہے اور دوسروں کی دوا دارو بھی کرتی ہو۔ آنے دو اسد کو بتاتی ہوں …. وہ ہاتھ جوڑے بولتی رہی ۔ پھپھو ، ایسی کوئی بات نہیں ۔ مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی ، شام کو جیسے ہی اسد آئے آفس سے ، انہوں نے اسے بہت سنائیں وہ تو پہلے ہی شکی انسان تھے ۔ بارد کے ساتھ بات کرنے کو انہوں نے غلط نوٹس میں لیا ۔ وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی رہی ۔ اسد پلیز …. آپ کو میرے ساتھ جو کچھ بھی کرنا ہے کرلیں ، لیکن مجھے ایک بار جانے ویں ، وہ مریض ہیں ، اسد انہیں دوا وقت پر دینی ہے ۔ اسد ۔ ان کا سانس رک جائے گا ، پلیز ایک بار ، بس ایک بار یہ دوا دینی ہے ۔ پلیز اسد …. آنسوﺅں سے تر چہرے کے ساتھ وہ بر بار کہتی رہی ۔ اسد نے غصے سے اسے بازو پکڑ کر دھکیلا ۔ …. اچھا ، ایک منٹ بس ابھی تمہارے باپ کو فون کرتاہوں ،وہ آجائیں ، ان کے ساتھ جہاں مرضی جانا ۔ اسد نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔ اس رات اس گھر سے دو جنازے نکلے ۔ ایک انعم کی زندگی کا اور دوسرا اس عورت کا جس کی سانسیں دوائیوں سے چلتی تھیں ۔ جو کھانے اور دوائیوں کے بغیر زندگی کی بازی ہار گئی ۔ وہ مرنے والی جانتی تھی کہ انعم بے قصور ہے ، لیکن پھر بھی سب کی نظروں میں وہ قصور وار بنی ۔ انعم نے وہ گھر جب ہی چھوڑ دیا جب وہ خاتون اس انیکسی سے رخصت ہوگئیں ۔ اقبال احمد پھر بھی اپنی کے گھر تھے ۔
انعم عورتوں کے ہجوم سے ہوئی ہوئی بارذ کے کمرے تک آئی ۔ بارذ نے خون آلود آنکھیں لئے اسے دیکھا اور ایک جھٹکے سے دروازہ بند کردیا ۔ وہ کتنی دیر دروازہ پیٹتی رہی ۔ آنسوﺅں سے تر چہرہ لئے ۔ آخر کار اٹھ کر واپس آئی ۔ اپنا بیگ اٹھایا اور اقبال احمد کے ہمراہ گھر آگئی ۔ نہ جانے کیوں آج اسے پہلی بار اپنے باپ سے سخت نفرت کا احساس ہوا ۔ گھر پہنچ کر اندازہ ہوا کہ اس کی زندگی تباہ ہوچکی ہے ۔ کچھ دنوں بعد اسد نے اسے طلاق کے کاغذات بھجوادیئے ۔ جس پر اس نے بنا سوال جواب کئے دستخط کردیئے ۔ نہ جانے کیوں دل بار بار سوال کرتا ہے کہ آخر قصور کس کا تھا ۔
کیا اس کے والد کا قصور تھا ؟ جنہوں نے اس کے منع کرنے کے باوجود اس کی شادی اسد سے کی …. کیا اسد کا قصور تھا ؟ کیونکہ شوہر ہونے کے ناطے انہیں اس پر یقین کرنا چاہئے تھا ۔ کیا اس کا خود کا قصور تھا ؟ کہ جس گھر سے اس کے سسرال کا تعلق نہ تھا تو اس سے تعلق کیوں رکھا ۔
بتائے کس کا قصور تھا ؟
یہ راز کون جانے کس کا قصور تھا
ٹوٹا وہی سہارا جس پر بہت غرور تھا
وہ پاس تھے جو اپنے بھی بیگانے لگتے تھے
یہ محبت تھی ان کی یا محبت کا سرور تھا
ہم سے بچڑ کر کسی غیر کے ہوگئے
ہم تو آج بھی تنہا ہیں ، ہمارا کیا قصور تھا

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme