بچّوں کی تربیت

Published on December 19, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 195)      No Comments


شافعہ افضل ۔ اسلام آباد
    بچّے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں یہ ہماری زندگی میں رونق اور خوشیاں لاتے ہیں۔ ہمیں جینے کا مقصد عطا کرتے ہیں۔ بچّوں کے ہماری زندگی میں آنے کے بعد یہ یکسر بدل جاتی ہے۔ معمولات، رہن سہن، عادات سب میں تبدیلی آتی ہے۔ خاص طور پر ماں کی زندگی۔ والدین نہ صرف بچّے کی جسمانی بلکہ ذہنی نشو نما بھی کرتے ہیں۔ وہی بچّے کو دنیا میں سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ اسے صحیح اور غلط کا فرق سمجھاتے ہیں اور اعتماد بخشتے ہیں کہ وہ اپنی آنے والی زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا بہتر طور پر سامنا کر سکے۔ ایک بہترین انسان بنے اور ملک اور قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔
     ایک بچّے کی زندگی میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کی تربیت کا اثر اس پر تاعمر رہتا ہے زندگی کے ہر مرحلے پر اسے ان کی رہنمائی اور محبّت کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کی بھرپور محبت اور توجہ حاصل کرنے والے بچّے ان سے محروم رہنے والے بچّوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب اور با اعتماد ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں وہ خلا پیدا نہیں ہوتا جو والدین سے محروم رہ جانے والے بچّوں کی زندگی میں ہوتا ہے۔
   بچّوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کا کردار بہت اہم ہے لیکن جو اہمیت اور ذمہ داری ماں کی ہے وہ باپ کی نہیں ہے کیونکہ وہ حصولِ روزگار کے لیے پورا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ ایک ماں عموماً پورا دن بچّے کے ساتھ گزارتی ہے۔ اس کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح آگاہ ہوتی ہے۔ بچّہ سب سے زیادہ وقت اس کے ساتھ ہی گزارتا ہے اسلیے سب سے زیادہ سیکھتا بھی اسی سے ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے اور پوری ایمان داری سے نبھائیں۔ بچّوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں انھیں ایک اچّھا مسلمان اور تعلیم یافتہ، با شعور اور زمہ دار شہری بنا کر اپنا فرض احسن طور پر ادا کریں۔ چھوٹے بچّے وہی عمل دہراتے ہیں جو ہم کرتے ہیں لہٰذا انھیں کوئی بھی بات سکھانے کے لیے ہمیں خود اس پر عمل کر کے دکھانا ہو گا۔ اگر ہم بچّے کو کسی غلط کام سے روکنا چاہتے ہیں تو خود بھی اسے ترک کرنا ہوگا۔
   آج کل کے دور میں بچّوں کی تربیت کرنا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ ان کو گمراہ کرنے کے بے شمار زرائع موجود ہیں۔ سوشل میڈیا ہماری زندگی میں اس طرح شامل ہو گیا ہے کہ اس کے اثرات سےکوئی بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔ بچّے ہوں جوان یا بوڑھے ہر ایک کی زندگی میں سب سے زیادہ عمل دخل سوشل میڈیا کا ہی ہے۔ اس پر بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جو بچّوں کے لیے نامناسب ہیں۔انھیں ان تمام چیزوں سے دور رکھنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچّوں پر کڑی نظر رکّھیں انھیں خود سے اتنا قریب رکّھیں کہ ہمیں ان کے معلومات کا پوری طرح علم ہو۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، کس سے مل رہے ہیں، کب تک باہر رہتے ہیں۔ چھوٹے بچّوں سے کہیں زیادہ ذمہ داری بڑے بچّوں کی ہوتی ہے۔ نہ تو بچّوں پر ضرورت سے زیادہ سختی کرنی چاہیے کہ وہ باغی ہو جائیں اور نہ ہی انھیں بے جا آذادی دینی چاہیے کہ وہ بالکل ہاتھوں سے نکل جائیں اور جو چاہیں کرتے پھریں۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس معاملے میں بھی میانہ روی اور سمجھداری از حد ضروری ہے۔ یاد رکّھیں آپ محض ایک بچّے کی نہیں بلکہ پوری نسل کی تربیت کر رہے ہیں۔ آج جو آپ اپنے بچّے کو سکھائیں گی ممکنہ طور پر وہی وہ بچّہ بڑا ہو کر اگلی نسل کو منتقل کرے گا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ ایک ماں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو اچھی تعلیم اور بہتر تربیت دے کر معاشرے کو اچّھے افراد فراہم کرتی ہے یا برے۔ والدین بچّوں کو دنیا میں لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں لہٰذا ان کی پرورش اچّھے خطوط پر کرنا ان کا ہی فرض ہے۔
      کچھ بنیادی اصول ہیں جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی تربیت میں مدِّ نظر رکھنے چاہیے جیسے کہ عبادتوں کا احتمام، بڑوں کا لحاظ، چھوٹوں سے محبّت، ملازمین اور خود سے کمتر طبقے کے لوگوں سے اچّھا سلوک، محفل کے آداب، کھانے پینے اور ملنے کے آداب وغیرہ۔ اس کے علاوہ لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کرتے ہوئے علیحدہ، علیحدہ بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جیسے لڑکیوں کے لیے لباس کا مناسب ہونا، غیر مردوں سے مناسب فاصلہ رکھنا، بات چیت کا طریقہ، گھر کے کام کاج اور اپنے گھر اور ارد گرد کی صفائی کا خیال رکھنا، شرم و حیا اور تمیز و تہذیب وغیرہ۔ لڑکوں کے لیے سب سے پہلے خواتین کی عزّت اور احترام بالکل اسی طرح  جیسے وہ اپنی ماں یا گھر کی خواتین کا کرتے ہیں۔ غصّے میں اپنی حد سے آگے نہ بڑھنا، نامناسب زبان کا استعمال نہ کرنا، دوست بناتے ہوئے اچّھے لوگوں کا انتخاب کرنا اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔
     آج کل کا دور ترقّی یافتہ دور ہے۔ اب بچّوں کو بہت سی باتیں سمجھانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے کے دور میں روایتیں اور اقدار تھیں۔ بہت سی باتیں بچّے سکھائے بغیر بھی سیکھ جاتے تھے جو اب نہیں سیکھ پاتے۔ آج کل کے بچّے بہت آزاد خیال اور خود مختار ہیں انھیں اپنے معاملات میں کسی کی دخل اندازی ناگوار گزرتی ہے یہاں تک کہ بہت سے بچّے اپنے والدین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اسلیے والدین خاص طور پر ما¶ں کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ آج کے دور میں بچّوں کا بگڑ جانا نہایت آسان ہو گیا ہے۔ ان کو قابو میں رکھنا اور ان کی نگرانی کرنا بہت ضروری اور دشوار عمل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے گھر کے ماحول کو صاف ستھرا اور صحت مند رکّھیں خود بھی اچّھا طرزِ زندگی اپنائیں اور ان برائیوں سے اجتناب برتیں جو ہم اپنے بچّوں میں نہیں دیکھنا چاہتے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بچّوں کی اچّھی تربیت نہ کر سکیں اور اپنا فرض احسن طور پر ادا نہ کر سکیں۔ معاشرے سے برائیوں کے خاتمے میں سب سے اہم ذمہ داری آج کل کے والدین کی ہے انھیں ترجیحی بنیادوں پر اپنی ذمہ داریوں کو بحسنِ خوبی ادا کرنا ہو گا ورنہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Themes