رائیونڈ جیسے عالمی شہرت کے حامل شہر میں جرائم کاحد سے بڑھ جانا شائد پولیس افسران کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور تو اور پنجاب کے خادم اعلی جن کا مغلوں کی طرز کا محل بھی اسی شہر کے نواح میں واقع ہے اس کے باوجود بھی عوام آجکل جرائم پیشہ افراد سے بہت خوفزدہ نظر آتے ہیں رائیونڈ پولیس کی سب اچھا اور شاندار کارکردگی کے حوالے سے یہاں پر عوامی رائے کو نہ لکھنا حقائق کے منافی ہوگا کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور شہریوں کی جیبوں پر محافظوں کا خود جھپٹنا وبال بن چکا ہے پہلے تو رائیونڈ میں ہونے والے کرائمز پر ایک نظر ڈالتے ہیں منشیات فروشی تو اپنی حد پار کرچکی ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک منشیات فروش سے دو کلو کے قریب چرس پکڑی گئی مگر اپنا ایک خاص حصہ وصول کرکے اس پر صرف چند گرام ڈال کر اس کا چالان کر دیا گیا تاکہ وہ جلدی واپس آکر خاص حصہ مسلسل پہنچاتا رہے شہر بھرس میں عرصہ دراز سے ہر قسم کا نشہ وافر اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے مختلف قسم کے ٹھپے دار افسران کی بادشاہی کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے چوری ،ڈکیتی کی وارداتیں انتہائی عروج پر ہیں اس کے علاوہ جگا وصولی بھی عروج پر ہے اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی بڑے ماہرانہ اندا ز میں کی جارہیں کہ چور گھر کی قیمتی وں کے علاوہ کھانے پینے کی تمام اشیاء بھی اٹھا لیتے ہیں وہ جرابوں اور جوتیوں کے ڈبے غرض کونے کھدرے کو چھانتے ہیں تاکہ اگر کہیں کوئی دہشت گرد چھپا ہے تو اسے بھی ساتھ لے جائیں کیونکہ پولیس اس سے ڈرتی ہے مگر چوروں سے نہیں کیونکہ وہ تو خاص اپنے بندے ہیں اور خاص مال بیٹھے بیٹھائے آجاتا ہے اکثر محافظ اہلکار رائیونڈ شہر گردونواح میں شریف شہریوں کو روک کر اکثر اپنی جیب گرم کرتے نظر آتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی جانچ پڑتال کریں وہ عوام کی جیبوں کی جانچ پڑتال ضرور کرتے نظر آتے ہیں موٹر سائیکلز کی چوری کی ورداتیں بھی انتہائی عروج پر ہیں ایسی انگنت وارداتیں تھانہ رائیونڈ کی حدود میں پرہیں مگر پولیس کی جانب سے اب تک کوئی قابل زکر کارکردگی سامنے نہیں آسکی ۔چند دن پہلے کی بات ہے میں چند دانا لوگوں کے پاس تھانے کے عقب میں بیٹھا ہوا تھا تو مجھے یہ بات سننے کو ملی کے عرصہ دراز سے شہر میں کوئی پچیس کے قریب قحبہ کھانے کام کر رہیں اور انکی بات بھی سچی تھی کیونکہ میں بھی اپنے کالج کے دور سے یہ سنتا آرہا ہے ہوں اب اگر پولیس کہے کہ نہیں تو یہ سفید جھوٹ ہو گا تو ان بزرگوں نے مجھے یہ بھی بتا یا کہ بیٹا ہر نیا آنیوالا بس صرف اتنی کاروائی کرتا ہے کہ خاص مال کی نمبرنگ میں اضافہ ہوجائے کتنی اچھی کارکردگی ہے ہمارے اعلی افسران بھی اعلی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور منشیات فراشی ، قحبہ کھانے ،جواء جیب قطرے اور دیگر جرائم میں آج تک کوئی کنٹرول نہیں ہوسکا ہے ہر تیسرا فرد اس میں مبتلا ہے اور نوجوان نسل اپنا مستقبل تباہ کر چکی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ پتہ نہیں کب قانون کا ضمیر انگڑائی لے گا میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ میری طرح بہت سارے قلم نگار بھائی ان جرائم کی نشاندہی کرت رہتے ہیں مگر قانون کے رکھوالے ٹس سے مس نہیں اور تو اسمبلی میں بیٹھ کر قانون پاس کرنے والے جب خود اس سے لطف اندوز ہوتے ہوں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ایک بات جو بڑے افسوس سے مجھے یہاں تحریر کرنی پڑے گی وہ یہ ہے کہ جھوٹے مقدمات کا اندراج بھی آجکل عروج پر ہے اور اس میں معاشرے کی آنکھ کے چند فرد بھی شامل ہیں جن کے بقول وہ برے تیس مار خان ہیں ایسے ہی ایک دن میں8 ایسے ہی ایک تیس مار خان کے پاس بیٹھا تھا تو وہاں کسی کام کے لیے کوئی محافظ آیا تھا وہ غالبا اعلی افسر کا اعلی بندہ تھا تو اس کے جانے کے بعد وہ تیس مارخان یوں بولا جب ہم ان رکھوالوں کی پھٹیکیں بھرتے ہیں تو یہ کیسے نہ ہمارے کہنے پر مقدمات درج کریں گے اور ہماری جیبیں بھی فل ہو جاتی ہیں کیا مکروہ کھیل عوام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے عوامی نمائیندے بھی اپنی پسند اور جی حضوری کرنے والا بندہ تعینات کرواتے ہیں اور پھر اسے کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کی عیش کرو اور کرواؤ پولیس بھی اب جرائم پیشی افراد کی طرح عقل مند ہو چکی ہے جب معاملہ حد سے بڑھنے لگتاہے تو اپنے خاص بندوں کو بڑے ڈرامائی انداز میں گرفتار کرتی ہے اور بعد میں ان کو عدالت میں بھیج کر چند دنوں بعد واپس پھر میدان عمل میں چھوڑ دیا جاتا ہے عوام کے نزدیک یہ جرم کوئی نئے نہیں ہیں جن کا پولیس کو پتہ نہ ہو جن کا عزت مٰاب اعلی افسران کو پتہ نہ ہو عوامی رائے کے نزدیک ہمارے یہ لاڈلے افسران جو کہ سیدھے آسمان سے تو آکر اعلی افسر بن نہیں جاتے مرحلہ وار اعلی عہدوں تک پہنچتے ہیں تو جب ان افسران کو ہر چیز کا علم ہوتا ہے پھر ان پر کنٹرول کیوں نہیں کیا جاتا خاص کر منشیات پر قحبہ خانوں اور جگا لینے جیسے جرائم ۔دوسری جانب عوام کو اعتراض ہے کہ یہ محافظ سکواڈ والے ہماری جیبیں ایسے چیک کرتے ہیں کہ جیسے چوہا جان بچانے کے لیے بل میں گھستا ہے تو عوام کے لیے میں ایک قصہ بیان کرتا ہوں مجھے اتفاق سے اپنے وکلاء دوستوں سے ملنے کا شرف ملا اور وہاں پر کچھ ایسی ہی بات چل رہی تھی تو ایک دوست نے ایک قصہ سنایا میں انہی کی زبانی لکھتا ہوں میرے کچھ وپڈا والے دوست جو کہ لاہور کسی علاقے میں اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے وہ ایک عالیشان کوٹھی کے میٹر کی ریڈنگ کرنے جاتے تو وہ بزرگ ان کو تین ہزار روپے تھما دیتے کافی وقت بیت گیا تو اس کی ٹرانسفر ہو گئی تو اس کے بقول ہم جاتے وقت اپنے کسٹمر آنیوالے کو بیچ کر جاتے ہیں تو میں نے اپنے نئے آنیوالے کو سارا معاملہ بتایا تو اس نے کہا کہ چلو بابا جی کو چیک کرتے ہیں کہ کہا ں پر وہ کرپشن کر رہے ہیں سارا چیک کرنے پر کچھ نہ ملا تو ہم پریشان تھے اس پر ہم نے بابا جی سے پوچھنے کا فیصلہ کیا تو قارئین باباجی کا جواب ملاحظہ فرمائیں بیٹا میری فیملی ساری بیرون ملک ہے اور صدقے کے پیسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی نہیں آتا ہے میں وہ زکوۃ کے پیسے آپ کو دے دیتا ہوں تو عوام سے میری گزارش ہے کہ یہ ٹریفک اور پولیس والے آپ کی جیبوں کی زکوۃ وصول کرتے ہیں اس لیے آپ ان سے ناراض نہ ہو اکریں