ہمارا تعلیمی اور امتحانی نظام

Published on April 20, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 245)      No Comments

تحریر:ابن نیاز
نمبر پر نمبر لیے جارہے ہیں۔ دسویں یا بارھویں میں نوے پچانوے فیصد نمبر بچہ لے رہا ہے لیکن اس سے اس کے مضمون سے متعلق کوئی سوال نصاب میں دیے گئے سبق سے متعلقہ ہولیکن سوالات کے مطابق نہ ہو تو اس کو جواب نہیں آتا۔ کیوں؟ کیوں کہ سکولوں میں رٹے کا نظام ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ پرچے چیک کرنے والے بھی سرکاری سکولوں کے ٹیچر ہوتے ہیں جن کا علم پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز سے بھی کم ہوتا ہے۔ عام سکولوں کے ٹیچر تو شاید پھر اپنے علم کو بڑھاتے ہوں گے غیر۔ نصابی کتب پڑھ کر یا انٹرنیٹ کو استعمال کر کے۔ لیکن سرکاری سکولوں کے اساتذہ بس اپنی ڈیوٹی ہوری کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کا اپنا علم بے شک بہت ہو گا لیکن پاکستان کے اس موجودہ امتحانی نظام کے ہاتھوں وہ بھی مجبور ہیں کہ اپنے طلباءکو رٹہ سسٹم ہر مجبور کریں۔ کیوں کہ اگر کوئی طالب علم مثال کے طور پر طبیعات کسی تھیوری کی جدید شکل پیش کر دے اور پرچہ چیک کرنے والا اس سے واقف نہ ہو تو یقیناً اس نے اس طالب علم کو اس سوال کے نمبر زیرو ہی دینے ہیں۔
دوسری بات پاکستان میں یکساں نصاب کا نفاذ تمام صوبوں میں کرنا ہے۔ جو کہ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ پرائیویٹ اداروں نے اپنا نصاب رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی محلے میں چار سکول ہیں تو ہر کسی کا نصاب جدا ہوتا ہے۔ ان کو تو کوئی مسلہ نہیں ہوتا۔ مسائل بچوں اور ان۔ کے والدین کو پیش اتے ہیں۔ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے اگر سال کے درمیان ہی بچوں کا سکول تبدیل کرنا پڑ جائے تو پھر نئے سرے سے ساری کتابیں نئی خریدنی پڑتی ہیں۔ سوائے ان سکولوں کے جو فرینچائز کے طور پر چل رہے ہیں اور مختلف شہروں میں ایک نظام کے تحت سکول کھلے ہیں۔
پھر بیکن ہا¶س سکول سسٹم جس نے پاکستان کی نسل بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کو علم تو بہت دے دیا ہے لیکن ان کی اخلاقی تربیت میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا کیا ہے۔ ان کو پاکستانی نصاب سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ وہ اور اس طرح کے کچھ ادارے جو او لیول / اے لیول کے نظام کے تحت امتحانات منعقد کرتے ہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے بچے کسی بھی پاکستانی نظام تعلیم کے تحت پلنے والے طالب علم کو در خود اعتنا نہیں سمجھتے۔ انھیں شودر قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ تو ان کے نصاب تعلیم کا کیا بنے گا۔ ہے کوئی جو ان کو چیلنج کرے۔
کچھ سکولوں میں اساتذہ بچوں کے علم میں اضافے کی خاطر ان کو غیر نصابی علم بھی دیتے ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ پاکستان کے سب صوبوں میں بشمول اسلام آباد کے، مکمل طور پر یکساں نظام تعلیم ہو۔ جو سب کا سب حکومت پاکستان کا وضع کردہ ہو۔ اور دیگر کسی قسم کے نظام تعلیم کو پاکستان میں داخل ہونے کا موقع تک نہ دیا جائے چہ جائیکہ پنپنے کا موقع دیا جائے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کو ہر چھ ماہ بعد جدید علم سے آراستہ کرنے کے لیے ان کی تربیت کی جائے۔ ہر استاد کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال سکھایا جائے۔ ان کے دماغ میں یہ راسخ کیا جائے کہ انٹرنیٹ پر جو جدید علم ان کو اپنے مضمون سے متعلق ملے اس کو اپنے ذہن میں بٹھا کر طلباءکو منتقل کیا جائے۔ پرائیویٹ سکولوں کی ریگولیٹری اتھارٹی قائم تو کر دی گئی ہے لیکن وہ مکمل طور پر اپنی رٹ ان سکولوں پر قائم نہیں کر سکی۔ سب سکولوں میں یکساں نظام تعلیم قائم کرنے کے ساتھ فیسوں کا ایک لیول مقرر کر دیا جائے۔ اور جو بھی اساتذہ ان سکولو?ں میں پڑھائیں ان کی اپنی تعلیم بھی مقرر ہو۔ ہمارے یہاں یہ المیہ ہے کہ جو کم تعلیم یافتہ ہے وہ چھوٹی کلاسز کو پڑھاتا ہے اور جو زیادہ تعلیم یافتہ وہ ہائی کلاسز کو پڑھاتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ان کی اپنی تعلیم کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ان کو پڑھانے کا طریقہ کار بھی آتا ہو تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہو گی۔ حکومت اور اس کے اداروں جیسے پرائیویٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا اساتذہ کی عزت بحال کرنے میں انتہائی اہم کردار ہے۔ کہاں وہ دور کہ استاد کو دور سے آتے سیکھ کر سیگریٹ کو اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اندر ہی بجھا لیا جاتا تھا۔ مبادا استاد محترم زمین پر پڑا سیگریٹ دیکھ کر کہیں سب کے سامنے مرغا نہ بنا دیں۔ ان وقتوں کے پڑھے ہوئے طلباءنے کامیابی کی ہر منزل پار کی ہے۔ اور کہاں آج کا دور کہ استاد اگر کلاس میں زبانی دانٹ بھی دے تو بچہ کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ آواز نیچی۔ رٹا سسٹم کے تحت یا پیسے دے کر یہ طلباءبہت اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتے ہیں۔ پھر عملی زندگی میں میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے حق دار کے حق پر ڈاکہ مار کر ملازمت حاصل کرتے ہیں اور عوام کو خراب کرنے کے مشن پر تل جاتے ہیں۔
ہمارا امتحانی نظام نتیجہ آنے تک سب سے زیادہ خراب ہے۔ اس کو بدلنا انتہائی ضروری ہے۔ کچھ اس طرح کا نظام وضع کیا جائے جس میں طلباءکا علم جانچا جائے نہ کہ ان کو سکول میں رٹایا گیا سبق۔ طلباءپرچے ہاتھ میں لیتے ہی کانپنے لگ جاتے ہیں۔ سوالات پڑھتے ہی ان کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی جاڑے کا بخار شروع ہو جائے گا۔ سوالوں کی اکثریت انھیں نصاب سے باہر لگتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بچوں کو سبق کی سمجھ نہ آنا ہے۔ انھیں بس سبق کے آخر میں دی گئی مشقیں حل کرنے ہر زور دیا جاتا ہے۔ پھر اگر پرچے میں کوئی سوال مشق سے ہٹ کر سبق میں سے آتا ہے تو طلباءکے لیے وہ سلیبس سے باہر ہوتا ہے۔ طویل سوالات اگر پرچے میں شامل کیے جائیں تو وہ اس قسم کے ہوں کہ جب تک بچے نے پورا سبق نہ سمجھا ہو، اضافی علم نہ حاصل کیا ہو، اس کے لیے اس کا جواب لکھنا مشکل ہو جائے۔
میری اس تحریر سے یقیناً بہت سے لوگ اختلاف کریں گے۔ لیکن اگر ان کے پاس زیادہ بہتر تجاویز ہیں تو ہمت کرکے سامنے آئیں اور حکام بالا کو پیش کریں۔ یقینا ان پر عمل بھی ہو گا اور تجاویز پیش کرنے والے کو شاباش بھی ملے گی۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题